Al-Qurtubi - Al-Baqara : 261
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَمَثَلِ : مانند حَبَّةٍ : ایک دانہ اَنْۢبَتَتْ : اگیں سَبْعَ : سات سَنَابِلَ : بالیں فِيْ : میں كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ : ہر بال مِّائَةُ : سو حَبَّةٍ : دانہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُضٰعِفُ : بڑھاتا ہے لِمَنْ : جس کے لیے يَّشَآءُ : چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے، وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
آیت نمبر : 261۔ اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) جب اللہ تعالیٰ نے وہ قصے بیان کردیئے جن میں دلائل ہیں تو اس نے جہاد پر برانگیختہ کیا اور تو جان لے کہ جس نے اس برہان اور دلیل کے بعد جہاد کیا جسے نبی کے بغیر کوئی نہیں لاسکتا تو اس کے لئے اس جہاد میں ثواب عظیم ہے۔ البستی نے اپنی صحیح مسند میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے، انہوں نے بیان فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے عرض کی : ” اے رب ! میری امت کے لئے اور اضافہ فرما۔ “ تو پھر یہ آیت نازل ہوئی، (آیت) ” من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ “۔ ) (البقرۃ : 245) ترجمہ : کون ہے جو دے اللہ تعالیٰ کو قرض حسن، تو بڑھا دے اللہ اس قرض کو اس کے لئے کئی گنا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے پھر عرض کی : ” اے میرے رب ! میری امت کے لئے اور اضافہ فرما “۔ تو یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب (الزمر) اس آیت کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے شرف اور اس کے حسن کی مثال بیان کرنے کے لئے ہیں اور یہ اس پر انگیخت دلانے کو متضمن ہیں۔ اور کلام میں مضاف محذوف ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے : ” مثل نفقۃ الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ “۔ ان کے نفقہ کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسی ہے جیسے ایک دانہ، اور دوسرا طریقہ یہ ہے : ” مثل الذین ینفقون اموالھم کمثل زارع زرع فی الارض حبۃ فانبتت الحبۃ سبع سنابل “۔ یعنی ان کی مثال جو اپنے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کسان کی مثل ہے جس زمین میں ایک دانہ کاشت کیا اور اس دانے نے سات بالیں اگائیں، یعنی سات بالیں نکالیں اور ہر بال میں سو دانہ ہو، پس صدقہ کرنے والے کو کاشت کرنے والے کے ساتھ تشبیہ دی اور صدقہ کو بیج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے ہر صدقہ کے عوض سات سو نیکیاں عطا فرمائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” واللہ یضعف لمن یشآء “۔ ترجمہ : یعنی اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے سات سو پر بڑھا دیتا ہے۔ پس صدقہ کرنے والے کی مثل کاشت کرنے والے کی مثل ہوجائے گی، (جیسا کہ) اگر وہ اپنے عمل میں حاذق (ماہر) ہو اور بیج عمدہ ہو، زمین آباد ہو تو پیداوار زیادہ ہوجاتی ہے، پس اسی طرح اگر صدقہ کرنے والا جب صالح ہو، مال طیب اور پاک ہو اور وہ اسے اپنے محل میں خرچ کرتا ہو تو ثواب بھی زیادہ ہوجاتا ہے، بخلاف اس کے جس نے کہا ہے : آیت میں سات سو گنا پر زیادتی کا ذکر نہیں ہے، جیسا کہ ہم اسے بیان کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (2) روایت کی گئی ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان ؓ اور عبدالرحمن بن عوف ؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ وہ اس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے جب لوگوں کو صدقہ پر ابھارا جس وقت آپ نے غزوہ تبوک کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا، تو حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ چار ہزار لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس آٹھ ہزار تھے اتو میں نے اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کے لئے چار ہزار رکھے ہیں اور چار ہزار میں نے اپنے رب کو بطور قرض پیش کردیئے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمای : بارک اللہ لک فیما امسکت وفیما اعطیت (اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے اس میں بھی جو تو نے (گھر والوں کے لئے) روک لیا اور اس میں بھی جو تو نے پیش کردیا) اور حضرت عثمان ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اس کی تیاری کا سامان میرے ذمہ ہے جس کے پاس تیاری کا سامان نہیں ہے، تو ان دونوں کے بارے یہ یہ آیت نازل ہوئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ آیت نفلی صدقہ کے بارے میں نازل ہوئی، اور یہ قول بھی ہے : یہ آیت آیت زکوۃ نازل ہونے سے پہلے نازل ہوئی پھر آیت زکوۃ کے ساتھ یہ منسوخ ہوگئی اور نسخ کے دعوی کی کوئی حاجت نہیں، کیونکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا مستحب ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے کثیر ہیں اور ان میں عظیم تر جہاد ہے تاکہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ (آیت) ” کمثل حبۃ “۔ اس میں الحبۃ اسم جنس ہے ہر اس شے کے لئے جسے انسان کاشت کرتا ہے اور اس سے خوراک حاصل کرتا ہے اور اس سے زیادہ مشہور گندم ہے اور اکثر حب سے مراد یہی لی جاتی ہے اور اسی معنی میں المتلمس کا قول ہے : الیت حب العراق الدھر اطعمہ والحب یا کہ فی القریۃ السوس : اور حبۃ القلب سے مراد دل کی سیاہی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد ثمرۃ القلب (دوستی، الفت) ہے اور وہ وہی ہے۔ اور الحبۃ حاء کے کسرہ کے ساتھ، اس سے مراد سبزیوں کا وہ بیج ہے جو خوراک (غذا) نہیں ہوتا اور حدیث شفاعت میں ہے : فینبتون کما تنبت الحبۃ فی حمیل السیل ‘۔ (1) (صحیح بخاری، باب تفاضل اھل الایان فی الاعمال، حدیث نمبر 21، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (پس وہ اس طرح اگ پڑیں گے جس طرح سیلاب کے لائے ہوئے کیچڑ میں بیج اگتے ہیں۔ اور جمع حبب آتی ہے اور الحبۃ (حاء کے ضمہ کے ساتھ) اسکامعنی حب ہے، کہا جاتا ہے نعم وحبۃ وکرامۃ۔ (وہ محبت و کرامت کے اعتبار سے اچھا ہے) اور الحب کا معنی محبت ہے اور اسی طرح الحب (بالکسر) کا معنی بھی ہے اور الحب سے مراد حبیب (گہرا دوست) بھی ہے۔ جیسے خدن اور خدین (گہرا دوست) اور سنبلۃ یہ فنعلۃ کے وزن پر اسبل الزرع سے ماخوذ ہے جب کھیتی میں بالیں ظاہر ہوجائیں یعنی وہ بالیں چھوڑ دے جس طرح پردے کو لٹکا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے : اس میں چھپے ہوئے دانے ہیں جس طرح کہ کسی شے پر پردہ لٹکانے سے وہ چھپ جاتی ہے اور اس کی جمع سنابل ہے پھر کہا گیا ہے کہ اس سے مراد سنبل الدخن (باجرے یا کنگنی کی بال) ہے وہی وہ شے ہے جس کی ایک بال میں اتنی تعداد میں دانے ہوتے ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ جاجرے کی بالیں میں سے ایک بال میں اس تعداد سے دوگنا زیادہ بلکہ اس سے بھی زیادہ دانے ہوتے ہیں، ہم نے خود اس کا مشاہد کیا ہے، ابن عطیہ کے کہا ہے : گندم کی بالیں ایسی پائی جاتی ہیں جن میں سو دانے ہوتے ہیں، اور رہے تمام دانے تو وہ کہیں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن مثال اس مقدار کے ساتھ بیان کی ہے اور علامہ طبری (رح) نے اس آیت میں کہا ہے : بیشک اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی : (آیت) ” فی کل سنبلۃ مائۃ حبۃ “۔ اس کا معنی ہے اگر وہ اسے پائے، ورنہ اس بنا پر کہ وہ اسے فرض کرے، پھر انہوں نے ضحاک سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : اس کا معنی ہے ہر بال نے سو دانے اگائے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : علامہ طبری نے حضرت ضحاک کے قول کو اسی طرح رکھا ہے جیسے انہوں نے کہا ہے اور یہ ضحاک کے قول سے لازم نہیں آتا اور ابو عمر دالدانی نے بیان کیا ہے کہ بعض مائۃ کو اس تقدیر پر منصوب پڑھا ہے۔ انبتت مائۃ حبۃ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یعقوب حضرمی نے کہا ہے : اور بعض نے پڑھا۔ ” فی کل سنبلۃ مائۃ حبۃ “۔ یہ اس بنا پر ہے کہ یہ انبتت مائۃ حبۃ ہے، اور اسی طرح بعض قراء نے پڑھا ہے : (آیت) ” وللذین کفروا بربھم عذاب جھنم “۔ اور یہ ” اعتدنا لھم عذاب السعیر “ کی بنا پر ہے، یعنی (آیت) ” واعتدنا للذین کفروا عذاب جھنم “ (اور ہم نے جہنم کا عذاب تیار کیا ہے ان کے لئے جنہوں نے کفر کیا) اور ابو عمرو حمزہ اور کسائی نے انبتت سبع سنابل میں تا کو سین میں ادغام کر کے پڑھا ہے کیونکہ یہ دونوں حروف مہموسہ میں سے ہیں۔ کیا تم جانتے نہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور ابو عمرو نے شعر بیان کیا ہیں : یا لعن اللہ بنی السعلاۃ عمرو بن میمون لنام النات۔ مراد لوگ (الناس) لئے ہیں اور سین کو تا میں بدل دیا ہے اور باقی قراء نے اصل کی بنا پر دونوں کو ظاہر کر کے پڑھا ہے کیونکہ یہ دونوں دو کلمے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (4) قرآن کریم اس بارے میں وارد ہوا ہے کہ نیکی کے جملہ اعمال میں ایک نیکی کا بدلہ اس کی مثل دس کے ساتھ ہے اور یہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ جہاد پر خرچ کرنے کی نیکی کا عوض سات سو گنا ہے اور علماء نے اس قول (آیت) ” واللہ یضعف لمن یشآء “۔ کے معنی میں اختلاف کیا ہے، ایک گروہ نے کہا ہے کہ یہ سابقہ سات سو کے ذکر کے بیان اور تاکید کے لئے ہے۔ لہذا اس میں سات سو گنا سے بڑھا نے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور علماء کے ایک گروہ نے کہا ہے : بلکہ یہ اس پر اطلاع دینا اور آگاہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے اس کے لئے عوض سات سو گنا سے بھی زیادہ کردیتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : آیت کی ابتدائی تفسیر میں حضرت ابن عمر ؓ کی جو حدیث بیان کی گئی ہے اس کے مطابق یہ قول زیادہ صحیح ہے۔ اور ابن ماجہ نے روایت بیان کی ہے : حدثنا ہارون بن عبداللہ الحمال حدثنا ابن ابی فدیک عن الخلیل بن عبداللہ عن الحسن عن علی بن ابی طالب وابی الدرداء و عبداللہ بن عمروا ابی امامہ الباھلی وعبداللہ بن عمرو و جابر ابن عبداللہ وعمران بن حصین “۔ یہ تمام صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچہ بھیج دیا اور خود اپنے گھر میں ہی رہا تو اس کے لئے ایک درہم کے بدلے سات سو درہم ہیں۔ اور جو بذات خود بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد میں شریک ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچہ کیا تو اس کیلئے ایک درہم کے بدلے سات لاکھ درہم ہوں گے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : (آیت) ” واللہ یضعف لمن یشآء۔ (1) اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے اس عوض کو بڑھا تے بڑھاتے بیس لاکھ تک کردیتا ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ روایت آپ سے ثابت الاسناد نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) اس آیت میں اس پر دلیل موجود ہے کہ زراعت کا پیشہ ان پیشوں میں سے اعلی ترین پیشہ ہے جنہیں لوگ اختیار کرتے ہیں اور ان کمائیوں میں سے اعلی ہے جن کے ساتھ کام کرنے والے (مزدور) مشغول ہوتے ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مثال بیان فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ‘’ مثل الذین ینفقوں اموالھم “۔ الآیہ۔ اور صحیح مسلم میں حضور نبی کریم ﷺ سے روایت موجود ہے : ” جو مسلمان بھی کوئی درخت لگاتا ہے یا فصل کاشت کرتا ہے اور اس سے پرندے، انسان یا جانور کھاتے ہیں تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے (2) (صحیح بخاری، کتاب المزارعۃ، باب فضل الزرع، حدیث نمبر 2152، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ہشام بن عروہ نے اپنے باپ کے واسطہ سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” زمین کی تہوں میں رزق تلاش کرو “ مراد زراعت ہے۔ اسے ترمذی نے بیان کیا ہے۔ اور آپ ﷺ نے کھجور کے درخت کے بارے فرمایا ہے : ” یہ کیچڑ میں گڑھے ہوتے ہیں (اور) محلات میں خوراک باہم پہنچاتے ہیں “ یہ مدح کے محل میں بیان ہوا ہے۔ اور زراعت فروض کفایہ میں سے ہے اور امام وقت پر لازم ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اس پر مجبور کرے اور اس پر جو اس کی مثل ہے مثلا درخت لگانا وغیرہ۔ (یعنی باغبانی) عبداللہ بن عبدالملک نے حضرت ابن شہاب زہری ؓ سے ملاقات کی اور کہا : میری ایسے مال پر رہنمائی کیجئے جس کے لئے میں محنت ومشقت کروں۔ تو ابن شہاب ؓ نے یہ اشعار کہے : اقول لعبد اللہ یوم لقیتہ وقد شد احلاس المطی مشرقا : تتبع خبایا الارض وادع ملیکھا لعلک یوما ان تجاب فترزقا : فیؤتیک مالا واسقا ذا مثابۃ اذا ما میاہ الارض غارت تدفقا : اور معتضد سے بیان کیا گیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو خواب میں دیکھا، آپ مجھے بیلچہ (یاکدال) عطا فرما رہین ہیں اور آپ نے فرمایا : اسے پکڑ لو کیونکہ یہ زمین کے خزانوں کی چابیاں ہیں۔ (خذھا فانھا مفاتیح خزائن الارض) .
Top