Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 261
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَمَثَلِ : مانند حَبَّةٍ : ایک دانہ اَنْۢبَتَتْ : اگیں سَبْعَ : سات سَنَابِلَ : بالیں فِيْ : میں كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ : ہر بال مِّائَةُ : سو حَبَّةٍ : دانہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُضٰعِفُ : بڑھاتا ہے لِمَنْ : جس کے لیے يَّشَآءُ : چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں ۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے ، فروانی عطا کرتا ہے ۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ۔ “
درس نمبر 19 ایک نظر میں اس پارے میں سابقہ تینوں سبق مجموعی طور پر بعض اساسی ایمانی تصورات کے بارے میں تھے ۔ اور ان میں اس تصور حیات کے بارے میں بعض وضاحتیں کی گئی تھیں ۔ اور مختلف پہلوؤں سے اس کی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ یہ اس طویل سورت کی اس لائن کا ایک مرحلہ تھا ، جس پر یہ پوری سورت جارہی ہے یعنی انسانیت کی قیادت کے نصب العین کی راہ میں امت مسلمہ پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے امت کو تیار کرنا جیسا کہ اس سے قبل ہم بات کی تشریح کرچکے ہیں۔ یہاں سے لے کر تقریباً اس سورت کے اختتام تک اب بیان کا رخ ان اساسی معاشی اصولوں کے بیان کی طرف ہے جن پر امت مسلمہ کے اجتماعی نظام کی نیو اٹھائی جانی مقصود ہے ۔ اور جن کے مطابق جماعت مسلمہ کی تنظیم بھی مقصود تھی ۔ اور یہ اجتماعی نظام دراصل باہم تعاون اور تکافل پر مبنی ہے اور جس کی تشکیل عشر وزکوٰۃ اور خیرات وصدقات پر مبنی ہے ۔ اور یہ معاشی نظام اس سودی نظام سے بالکل مختلف ہے ۔ جو اس دور جاہلیت میں رائج تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صدقہ کی فضیلت اور آداب کا بیان کیا جاتا ہے اور ربا کی مذمت کی جاتی ہے ۔ اور اگلے اسباق میں آپ پڑھیں گے کہ قرضہ اور تجارت کے اساسی اصول بیان کئے گئے ہیں اور مجموعی طور پر یہ سب چیزیں اسلام کے اقتصادی نظام کا حصہ ہیں اور اسلام کی اجتماعی زندگی ان پر قائم ہے ۔ آگے آنے والے تینوں اسباق باہم مربوط ہیں ۔ یہ سب دراصل ایک موضوع (اقتصادیات) کے مختلف پہلو ہیں یعنی اسلام کا اقتصادی نظام۔ اس سبق میں انفاق فی سبیل اللہ اور دولت کے خرچ کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ اور اسلام کے ایک اقتصادی پہلو یعنی صدقہ اور اجتماعی کفالتی نظام کے بارے میں زور دیا گیا ہے ۔ یہ بتایا گیا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ دراصل جہاد کی ایک قسم ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ امت مسلمہ پر فرض کیا گیا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کی جانب سے امت مسلمہ پر یہ ڈیوٹی عائد کی گئی ہے کہ وہ پوری دنیا میں اس دعوت کو پھیلائے ۔ پوری دنیا تک اس پیغام کو پہنچائے ۔ پوری دنیا میں اہل ایمان کی حمایت کرے اور پوری دنیا سے شر و فساد اور ظلم و زیادتی کو ختم کردے اور ان تمام قوتوں کو پاش پاش کردے جو اہل اسلام کے مقابلے میں غالب ہیں اور جو زمین پر فساد پھیلاتی ہیں اور اہل دنیا کو اللہ کی سیدھی راہ اپنانے میں رکاوٹ بن رہی ہیں ۔ اور باالفاظ دیگر دنیا کو اس خیر عظیم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ۔ جس کا حامل اسلامی نظام حیات ہے۔ دنیا کو اس خیر سے محروم کرنا اس قدر بڑا جرم ہے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اور انسانی روح اور انسانی جسم اور مال کے خلاف اس سے بڑی دست درازی اور کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس سورت میں بار بار انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے اصول وآداب کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے ۔ یہاں دستور انفاق کی تصویر کشی بڑے ہی پیارے اور مانوس پرتو سے کی جاتی ہے۔ اس کے اجتماعی اصول اور آداب و اثرات اور نفسیاتی مضمرات سے تفصیلاً بحث کی جاتی ہے ۔ ایسے آداب جن کی وجہ سے خود انفاق کرنے والے کی نفسیاتی اصلاح ہوجاتی ہے ۔ اور دوسری جانب صدقہ وصول کرنے والے کے لئے وہ مفید بن جاتا ہے ۔ اور اس کے نتیجہ میں معاشرتی انقلاب یوں برپا ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ اجتماعی طور پر باہم متعاون اور متکافل (Socally Sacure) معاشرہ بن جاتا ہے ۔ اور اس کے افراد میں باہم محبت اور ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس کی وجہ سے انسانیت ایک بلند مقام تک جاپہنچتی ہے ۔ اور جس میں دہندہ اور گیرندہ بالکل ایک ہی سطح کے لوگ بن جاتے ہیں۔ اس حققیت کے باوجود کہ اس سبق میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ عمومی ہیں اور کسی زمان ومکان کی قید کے ساتھ مقید نہیں ہیں ۔ اور ایک دائمی دستور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ لیکن یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس وقت جماعت مسلمہ کے اندر ایسے حالات موجود تھے جن کی اصلاح کے لئے یہ ہدایات اتاری گئیں۔ اور یہ بات بھی عین ممکن ہے کہ آنے والے ادوار میں بھی یہ بات ممکن تھی کہ مستقبل کا اسلامی معاشرہ بھی ایسی ہدایات کا محتاج ہو۔ اس وقت اسلامی معاشرہ میں ایسے اشخاص موجود تھے جن کی نظروں میں مال ہی سب کچھ تھا اور جن کی اصلاح کے لئے ایسی ضربات کی ضرورت تھی اور جن کے لئے اس طرح کی موثر اثر اندازی کی ضرورت تھی ۔ انہیں ضرورت تھی کہ ضرب الامثال کے ذریعہ حقائق کو ان کے مشاہدے میں لایا جائے اور یہ بات ان کی دلی گہرائیوں تک اتر جائے ۔ اس وقت کے معاشرے میں اگر ایک طرف ایسے لوگ تھے جو سود خوری کے بغیر کسی کو مال دینا تصور نہ کرسکتے تھے تو دوسری طرف اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی تھے جو بادل ناخواستہ خرچ کرنے والے تھے یا محض دکھاوے کے لئے خرچ کرتے تھے ۔ بعض ایسے بھی تھے جو خرچ کرکے مسلسل احسان جتاتے تھے اور یوں دوسروں کے لئے باعث اذیت ہوتے تھے ۔ بعض ایسے تھے جو ردی اور بیکار مملوکات اللہ کے نام پر دیتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ بہرحال مخلصانہ طور پر اللہ کی راہ میں بھی انفاق کرنے والے موجود تھے جو اپنے بہترین اموال خرچ کیا کرتے تھے جو اگر موقعہ ومحل کا تقاضا خفیہ طور پر خرچ کرنے کا ہو تو خفیہ خرچ کرتے تھے اور اگر موقعہ ومحل علی الاعلان خرچ کرنے کا ہو تو اعلانیہ خرچ کرتے تھے ۔ یہ خرچ خالص اللہ کے لئے ، بالکل پاک اور ستھرا ہوتا تھا۔ اور مذکورہ بالا دونوں قسم کے افراد جماعت مسلمہ میں اس موجود تھے ۔ ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے اور اگر اسے پالیں تو یہ ہمارے لئے نہایت مفید ہوگی۔ اس حقیقت سے پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اس کتاب کی حقیقت کو صحیح طرح پاسکیں گے ۔ اور اس کے مقاصد ہم پر واضح ہوں گے ۔ ہمیں یوں نظر آئے گا کہ قرآن کریم ایک زندہ اور متحرک حقیقت ہے ۔ ان واقعات کی روشنی میں وہ ہمیں مسلسل سرگرم اور متحرک نظر آتا ہے اور قرآن کریم کی یہ تحریک جماعت مسلمہ کے اندر نظر آتی ہے ۔ اس کا مقابلہ واقعی حالات سے ہے ۔ وہ بعض اوقات اور حقائق کو برقرار رکھتا ہے اور بعض حالات کو تبدیل کررہا ہے ۔ یوں یہ جماعت قدم بقدم آگے بڑھ رہی ہے۔ اور قرآن ان حالات کا مقابلہ کررہا ہے ۔ وہ مسلسل فعال اور متحرک ہے ۔ اس کی حرکت میں تسلسل اور دوام ہے ۔ وہ زندگی کے عملی میدان میں برسرپیکار ہے ۔ قرآن کریم ہی اس معاشرہ میں واحد ترقی پسند ، محرک اور عملی میدان میں آگے بڑھنے والا عنصر ہے۔ آج ہمیں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم اس نہج پر قرآن کریم کا احساس کریں اور دیکھیں کہ قرآن کریم ایک زندہ حقیقت ، متحرک اور آگے بڑھنے کے لئے اقدام کرنے والا ایک فیکٹر ہے ۔ اس لئے آج تحریک اسلامی ، اسلامی نظام زندگی ، اور اسلامی معاشرہ کے ناپید ہوئے ایک طویل عرصہ گزرچکا ہے ۔ قرآن کریم ، جس طرح ہم نے اسے محسوس کیا ہے اور سمجھا ہے وہ انسانی تاریخ کے زندہ دھارے سے الگ تھلگ ایک کتاب ہے ۔ آج قرآن کریم کو جس طرح ہم نے سمجھا ہے وہ اس نظام زندگی کا کوئی نقشہ پیش نہیں کرتا جو کبھی یہی قرآن عملاً اس کرہ ارض پر وجود میں لایا تھا اور جو جماعت مسلمہ کی تاریخ میں کبھی زندہ حقیقت تھی ۔ اور اب ہمیں یہ سبق یاد نہیں رہا ہے کہ اس وقت کے مسلم مجاہد اول کے لئے قرآن حکم الیوم (Order of the day) تھا۔ یعنی ان کے لئے قرآن کریم ایسی ہدایات تھا جن پر عمل ضروری تھا ۔ ان پر فرض تھا کہ وہ ہر روز کی ہدایات کو عملاً نافذ کردیں ۔ ہمارے فہم وادراک میں وہ عملی قرآن گویا مر گیا ہے یا وہ سو گیا ہے ۔ اور ہم قرآن کریم کو اس طرح سمجھنے اور محسوس کرنے کی کوشش نہیں کرتے جس طرح اسے دور اول کے مسلمانوں نے سمجھا اور محسوس کیا ۔ ہمارا طرز عمل یہ بن گیا ہے کہ ہم قرآن کریم کو نہایت ہی خوش الحانی اور گلوکاری کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جھومتے ہیں یا ہمارا وجدان اس سے کچھ چالو ، مجمل اور ناقابل فہم وناقابل تاویل تاثرات لیتا ہے یا ہم اس کی تلاوت اوراد کرتے ہیں ، جس سے مومنین صادقین کے دل میں وجد ، خوشی اور قلبی اطمینان کی ایک مبہم اور مجمل سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تلاوت قرآن میں یہ سب فائدے بھی موجود ہیں لیکن ان تمام فوائد کے ساتھ ساتھ اصل مطلوب یہ ہے کہ قرآن قلب مومن میں فہم و فراست اور عمل و حرکت پیدا کردے ۔ اسے زندہ کردے ۔ اعلیٰ ترین مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے دل و دماغ میں ایسی کیفیت پیدا ہوجائے کہ وہ قرآن کریم کی ہدایات کے ساتھ ساتھ ایک زندہ اور عملی زندگی لے کر چلتا رہے ، ایسی زندگی جسے قرآن یہاں رائج کرنا چاہتا ہے اور جس کے لئے اس کا نزول ہوا ہے ۔ ایسی زندگی جسے مومن اس عرصہ کاروزار میں اور اس میدان کشمکش میں پائے ، جس کے لئے ایک مومن اپنے آپ کو ہمیشہ تیار رکھتا ہے ۔ کیونکہ امت مسلمہ کی زندگی میں یہ کشمکش ایک لابدی امر ہے ۔ مطلوب یہ ہے کہ ایک مسلمان قرآن کریم کی طرف اس نیت سے متوجہ ہوکر وہ اس سے اپنی زندگی کا لائحہ عمل اخذ کرنا چاہتا ہے ۔ بعینہ اس طرح جس طرح ” مسلم اول “ کرتا تھا ، وہ آج کی زندگی ، آج کے واقعات ، آج کے مسائل جو اس کے ارد گرد رواں دواں ہیں ، ان کے بارے میں قرآنی ہدایات واشارات کا طلبگار ہو ۔ اسے چاہئے کہ وہ امت مسلمہ کی تاریخ کی تشریح بھی قرآنی ہدایات کی روشنی میں کرے ۔ قرآنی کلمات واشارات کو اسلامی تاریخ کی تشریح قرار دے ۔ اور یوں محسوس کرے کہ اسلامی تاریخ قرآن کریم سے کوئی علیحدہ تاریخ نہیں ہے ۔ اسلامی تاریخ قرآن کی تاریخ ہے ۔ اور آج امت مسلمہ جس صورت حالات سے دوچار ہے ، وہ بھی قرآنی تاریخ ایک حصہ ہے ۔ آج کے حالات ان حالات کا منطقی نتیجہ ہیں جو اس امت کے اسلاف کو پیش آئے ۔ اس وقت بھی قرآن ان حالات و حوادث میں ایک معین تبدیلی کا خواہاں تھا اور آج بھی یہ قرآن ویسی ہی تبدیلیاں چاہتا ہے ۔ اس لئے ایک مومن یہ محسوس کرتا ہے کہ جس طرح یہ قرآن اس امت کے لئے کتاب عمل تھی ، آج میرے لئے بھی کتاب عمل ہے۔ آج بھی وہ چاہتا ہے کہ اپنے شب وروز کے معاملات میں ، پیش آمد حادثات میں قرآن کی طرف رجوع کرے گا۔ وہ اس کے تصورات اور اس کی فکر کا اصول اساسی ہے ۔ وہ آج بھی اس کی تگ و دو اور اس کی جہد وعمل کا حقیقی محرک ہے ۔ وہ کل بھی اس کے لئے محرک ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی کا محور ہے۔ اس حقیقت کے سمجھ لینے کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے ہمیں انسانی فطرت اور انسانی مزاج کی حقیقت اور ماہیت کا واضح ادراک ہوجاتا ہے ۔ دعوت اسلامی اور اس کے عائد کردہ فرائض اور واجبات کو ہمیشہ اس انسانی فطرت سے واسطہ پڑا ہے۔ ان آیات میں پہلی اسلامی جماعت کے حوالے سے ، انسانی فطرت کا جو واضح نقشہ کھینچا گیا ہے اس سے انسانی فطرت اپنی اصلی شکل اور ماہیت میں واضح ہوتی ہے ۔ اس پہلی جماعت پر قرآن نازل ہورہا تھا۔ اس جماعت کے نگران ومربی خود رسول اکرم ﷺ تھے ۔ اس جماعت کی صفوں میں بعض کمزور پہلو تھے ۔ جن کی اصلاح کی ضرورت تھی ، جن کی طرف مستقلاً توجہ دینے کی ضرورت تھی ۔ اور جن کی نشاندہی اور جن کی رعایت کی ضرورت تھی ۔ یاد رہے کہ صحابہ کرام ؓ کی اصلاح کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ وہ امت کے تمام طبقات سے برگزیدہ تھے ۔ اس حقیقت کا ادراک ہمارے لئے بہت ہی مفید ہے ۔ یوں ہم ایک انسانی جماعت اور تنظیم کی حقیقت وماہیت بغیر افراط وتفریط کے سمجھ سکیں گے ۔ بغیر اس کے کہ اس مصنوعی خول چڑھائے ہوئے ہوں۔ بغیر اس کے کہ اس کے بارے میں کسی قسم کے گمراہ کن تصورات قائم کئے جائیں ۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارے دل و دماغ سے مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں ۔ کیونکہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام انسانیت کے لئے جو مقام بلند تجویز کرتا ہے ہم اس سے بہت دور ہیں ۔ لہٰذا ہمارے لئے کافی ہے کہ ہم اس راہ پر چلتے رہیں ۔ اس مقام بلند تک پہنچنے کی جدوجہد جاری رکھیں ۔ اس سے ہمیں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اس حقیقت کو پالیتے ہیں کہ لوگوں کو مقام بلند اور کمال کے اعلیٰ درجوں تک پہنچانے کے لئے مسلسل دعوت کی ضرورت ہے ۔ اس میں کسی وقت بھی کمی ، سستی ، مایوسی اور وقفہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اگرچہ بعض نفوس میں نقص اور عیب پایا جاتا ہو کیونکہ انسان تو ہوتا ہی ایسا ہے ۔ انسان مسلسل دعوت اور اصلاحی جدوجہد کے نتیجے میں اصلاح پذیری کی راہ پر آہستہ آہستہ چلتا ہے ۔ اسے قرآن کے مقام بلند تک پہنچانے کے لئے مسلسل دعوت کی ضرورت ہے ۔ اسے ہمیشہ بھلائی کی یاد دہانی کی ضرورت ہے ۔ ہمیشہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے سامنے بھلائی کو اچھی صورت میں اور شر کو قبیح صورت میں مسلسل پیش کیا جاتا رہے ۔ اور کردار کی کمزوری ، اور نقائص سے اس کے دل میں مسلسل نفرت بٹھانا چاہئے ۔ اور جب بھی وہ بےراہ روی اختیار کرے ، اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صحیح راہ پر ڈال دیا جانا چاہئے ۔ کیونکہ زندگی کا یہ سفر بہت ہی طویل اور کٹھن ہے۔ اس سے ہمیں تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس سادہ حقیقت کو اچھی طرح پالیتے ہیں جس سے بارہا ہم غافل ہوجاتے ہیں ۔ یہ کہ انسان بہرحال انسان ہے ۔ دعوت اسلامی بہرحال اسلام کی طرف بلاوا ہے ۔ اور یہ معرکہ بہرحال انسانوں کا معرکہ اور انسانی جدوجہد ہے ۔ یہ معرکہ سب سے پہلے اپنی ذات کی کمزوریوں ، اپنے ذاتی نقائص اور نفس انسانی میں پوشیدہ جذبات حرص اور بخل کے خلاف ہے ۔ اس کے بعد انسان کے اردگرد پھیلی ہوئی زندگی میں باطل ، شر ، ظلم اور گمراہی کے خلاف معرکہ ہے ۔ یہ ایک قسم کی دوطرفہ جنگ ہے جو ایک داعی کو کرنی ہے ۔ اور اس کرہ ارض پر جماعت مسلمہ کی لیڈر شپ کو یہ دو طرفہ جنگ لازماً لڑنا پڑے گی ۔ جس طرح قرآن کریم کو پہلی مرتبہ یہ جنگ لڑنا پڑی تھی اور رسول کریم ﷺ کو سب سے پہلے یہ جنگ لڑنا پڑی تھی اور اس مسلسل معرکہ کے دوران یہ امر لازمی ہے کہ کچھ غلطیاں بھی ہوں ، لغزشیں بھی ہوں اور اس کٹھن راہ کے مختلف مراحل میں بعض نقائص اور بعض کمزوریوں کا ظہور بھی ہو۔ اور نئے واقعات اور نئے تجربوں کے دوران ان نقائص اور لغزشوں کی اصلاح بھی ہوتی رہتی رہے ۔ اور اصلاح وہدایت کے معاملے میں قرآن کریم نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے ، اس کے مطابق لوگوں کے دل و دماغ کی اصلاح بھی ہوتی رہے۔ یہاں میں پھر یہ بات کہوں گا جو پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہم تمام حالات ، اور اپنی زندگی کی تمام تگ ودو میں قرآن مجید کو اپنا مشیر اور ہادی بنادیں ۔ یوں نظر آئے کہ ہمارے خیالات سوشعور میں ہماری عملی زندگی میں اور ہمارے تمام معاملات میں قرآن کریم یوں جاری وساری ہے جس طرح پہلی جماعت مسلمہ کی زندگی میں وہ پوری طرح جاری وساری تھا۔ اسلامی نظام زندگی کا آغاز فرائض واجبات سے نہیں ہوتا ۔ اسلام اپنے کام کا آغاز ، محبت ، تالیف قلب اور نیکی کی تحریک سے کرتا ہے ۔ وہ انسانی شعور کو جگاتا ہے اور انسانی زندگی میں زندہ جاوید جذبات پیدا کرتا ہے ۔ وہ انسان کے مطالعہ اور مشاہدہ کے لئے زندگی کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو پھوٹتی ہے ، بڑھتی ہے اور آخر کار ایک مفید پھل دیتی ہے ۔ انسان اس سے ثمرہ حاصل کرتا ہے۔ وہ انسان کے سامنے فصل کی مثال پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور زمین کا ایک عام عطیہ ہے ۔ کھیتی ایک دانہ لیتی ہے لیکن سینکڑوں دانے واپس دیتی ہے تخم اور بیج کی نسبت سے وہ کئی گناحاصلات دیتی ہے ۔ قرآن کریم میں یہ زندہ منظر ان لوگوں کے سامنے رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی کمائی خرچ کرتے ہیں ۔ مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ ” جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ “ تعبیر کا یہ تصوراتی انداز حساب و کتاب کے عمل پر جاپہنچتا ہے ۔ ایک دانہ بڑھ کر سات سو دانے بن جاتا ہے لیکن اس مفہوم کو قرآن مجید ، جس زندہ وتابندہ انداز میں پیش کرتا ہے وہ نہایت ہی حسین و جمیل ہے ۔ اس سے انسانی شعور میں ایک قسم کا جوش و خروش پیدا ہوتا ہے ۔ انسانی ضمیر جاگ اٹھتا ہے ۔ ایک زندہ اور بڑھنے والی فصل کا منظر سامنے آتا ہے ۔ ایک زندہ طبیعت ظاہر ہوتی ہے ۔ پیداوار دینے والا ایک ہر ابھرا کھیت نظروں کے سامنے آتا ہے ۔ عام نباتات کا ایک عام اور عجیب بیش پا افتادہ تجربہ سامنے آتا ہے۔ ایک نال پر سات بالیں ہیں اور ہر بال میں سودانے ہیں ۔ اس زندہ اور نامی منظر کے سامنے انسانی ضمیر بھی بذل وعطا کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن دراصل وہ دیتا نہیں کچھ لیتا ہی ہے ۔ یو یہ عطا اور دادوہش ایک ایسے راستے پر جاتی ہے جس میں وہ کئی گنا نشو ونماپاتی ہے ۔ یوں انسان کا جذبہ دادوہش کئی گنا زیادہ ہوجاتا ہے ۔ اور وہ فصل کی طرح کئی گنا زیادہ حاصلات لاتا ہے ۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے ، اس سے زیادہ حاصلات دیتا ہے ۔ بغیر حساب دیتا ہے اور بیشمار دیتا ہے ۔ وہ اپنی مخلوق کے لئے اس کے رزق میں اس قدر فراوانی کرتا ہے جو بےحد و حساب ہوتی ہے ۔ اس کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ جس کی انتہاؤں کا پتہ نہیں۔ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ................ ” وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ۔ “ وہ اس قدر فراخ دست ہے کہ جس کی عطا میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ وہ نہ ختم ہونے والی ہے اور نہ اس کے جوش میں کمی آنے والی ہے وہ علیم ہے ۔ وہ نیتوں کا مالک ہے۔ نیت اور نیکی پر بھی اجر دیتا ہے ۔ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سا انفاق فی سبیل اللہ ہے جو بڑھتا ہے اور نفع بخش ہے اور وہ کون سی جود وکرم ہے ، جسے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں دوچند کردیتا ہے ؟ جس کے لئے چاہے ۔ یہ انفاق وہ ہے جو انسانی جذبات کو بلند کردے اور انہیں پاک وصاف کردے ۔ وہ انفاق فی سبیل اللہ وہ ہے جو کسی انسان کی شرافت وعزت نفس نہ کچلے ۔ وہ انفاق جسے دلی طہارت اور صفائی کے نتیجے میں روبعمل لایاجائے ۔ وہ محض جذبہ رضائے الٰہی کے تحت کیا جائے ۔ اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد پیش نظر نہ ہو۔
Top