Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 261
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَمَثَلِ : مانند حَبَّةٍ : ایک دانہ اَنْۢبَتَتْ : اگیں سَبْعَ : سات سَنَابِلَ : بالیں فِيْ : میں كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ : ہر بال مِّائَةُ : سو حَبَّةٍ : دانہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُضٰعِفُ : بڑھاتا ہے لِمَنْ : جس کے لیے يَّشَآءُ : چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
(مثال ان لوگوں کے انفاق کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کے راستے میں اس دانے کی مانند ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہیں۔ اور اللہ افزونی عطا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ اللہ بڑی گنجائش والا ہے اور علم والا ہے
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْـبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْـبُلَۃٍ مِّائْـۃُ حَبَّۃٍ ط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ مثال ان لوگوں کے انفاق کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کے راستے میں اس دانے کی مانند ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہیں۔ اور اللہ افزونی عطا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ اللہ بڑی گنجائش والا ہے اور علم والا ہے) (261) ربط کلام اصل سلسلہ بیان جہاد اور انفاق سے متعلق تھا۔ پھر درمیان میں ” لا اکراہ فی الدین “ سے ایک ضمنی بحث پیدا ہوگئی ‘ پروردگار نے اس کے بارے میں ضروری رہنمائی عطا فرمائی اور اس کی تسہیل کے لیے تین مثالیں بیان فرمائیں۔ آیت الکرسی سے پہلے انفاق کا حکم دیا گیا تھا جو سلسلہ کلام کی دوسری کڑی ہے۔ اب پھر اسی مضمون کو لیا جا رہا ہے تاکہ سلسلہ کلام مربوط رہے۔ انفاق پر زور دینے کا سبب قرآن کریم میں اللہ کے دین کی نشرواشاعت ‘ اللہ کی زمین پر اسے غالب کرنے اور اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے بار بار جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ اور جہاد کے حکم کے ساتھ بالعموم انفاق کا حکم بھی موجود ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی اللہ کے حکم کے مطابق بار بار لوگوں کو جہاد کی ترغیب کے ساتھ ساتھ انفاق کی ترغیب بھی دی ہے۔ لیکن جو لوگ اس کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھتے وہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی اس کا مذاق اڑاتے تھے اور اس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتے تھے اور آج کے دور میں بھی یہی دونوں حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ قرآن کریم کے پیش نظر واضح طور پر دو حقیقتیں ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کریم کا نزول اور اللہ کے رسول کریم ﷺ کی بعثت محض اس لیے نہیں تھی کہ لوگوں تک کلمہ نصیحت پہنچ جائے یا زیادہ سے زیادہ ان پر اتمام حجت ہوجائے ‘ بلکہ رسول کی بعثت کا مقصد درحقیقت یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر بقدر امکان اور بقدر ہمت غالب اور نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جب بھی اللہ کا نبی اللہ کے دین کو نافذ کرے گا تو وہ ہوا یا خلا میں تو نہیں کرے گا ‘ اس کے لیے قطعہ زمین درکار ہوگا اور اس قطعہ زمین پر ایک قوم آباد ہوگی جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین پر ایمان لانے والی اور اللہ کے دین کو غالب و نافذ کرنے میں اللہ کے رسول کا دست وبازو ہوگی۔ یہ لوگ ایک بیس اور مرکز بنانے کے بعد اس دعوت الی اللہ کو عام کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ ان کاوشوں میں قدم قدم پر شیطانی لشکر اور لا دینی گروہ راستہ روکنے کی کوشش کریں گے ‘ تصادم ہوگا ‘ لڑائی تک نوبت پہنچے گی ‘ اس طرح جہاد و قتال کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اور مزید یہ کہ جو لوگ ان انقلابی کوششوں میں اللہ کے رسول ﷺ کا ساتھ دیں گے وہ اپنے بیوی بچوں سمیت اسی اسلامی ریاست کے مکین بھی ہوں گے۔ ان کے پیش نظر تو رات دن اسلامی جہاد و قتال کی مصروفیت ہوگی۔ بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو کاروبار کے لیے فرصت نکال سکیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ ایک طرف جنگی مصارف کی ضرورت بڑھتی جائے گی اور دوسری طرف ملک کے مکینوں کی مالی حالت روز بر وز پتلی ہوتی جائے گی۔ مجبوراً اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا کہ اس تحریک کے اعوان و انصار اور ارکان اپنا پیٹ کاٹ کر اس قافلے کو آگے بڑھنے کی ضرورتیں مہیا کریں اور اس ملک کے رہنے والوں کی غذا کا انتظام کریں۔ یہ وہ ضرورت ہے جو ہر رسول کو اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے پیش آتی ہے۔ آنحضرت ﷺ بھی اسی ضرورت سے دوچار تھے۔ اور مزید برآں یہ بات بھی کہ ایک نوزائیدہ مملکت کا اپنا کوئی خزانہ نہیں ہوتا۔ مدینے کی ریاست ایک نظریے اور اس نظریے پر ایمان لانے والے چند ہزار لوگوں پر مشتمل تھی ‘ جن میں تاجر بھی تھے اور کاشت کار بھی ‘ مزدور بھی تھے اور ہنر مند بھی۔ اس محدود ذریعہ آمدنی کے علاوہ اسلامی ریاست کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔ ان کا بنک مسلمانوں کی جیبیں اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ تھا۔ اس لیے قرآن کریم اور آنحصرت ﷺ بار بار انفاق کی ترغیب دیتے تھے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہ تھا۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مخالف یا منافق قوتوں کا سارا زور بھی اس بات پر صرف ہوتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اپنے ملنے جلنے والوں کو مالی تعاون سے روکیں یا ان کے جذبے کو سرد کریں۔ چناچہ یہود کے طعنے اور تمسخر اور عبداللہ بن ابی ٔ کی اپنے قبیلے کے لوگوں میں انفاق کی کوششوں کو روکنے کا ذکر قرآن کریم کے ریکارڈ پر ہے۔ کیونکہ مخالفین جانتے تھے کہ پوری اسلامی ریاست اور اس کے مقاصد کی بجاآوری کا دارومدار مسلمانوں کے جذبہ انفاق پر ہے۔ اگر اسے سرد کردیا جائے تو اسلامی تحریک کو بےحد پریشانیوں کا سامنا ہوسکتا تھا۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان مملکتوں میں وسائل کی فراوانی کے باوجود دینی علوم کی بقا کی ذمہ داری اور دینی ضرورتوں کے احیاء کا دارومدار دینی مدارس اور اسلامی جماعتوں پر ہے۔ ان کے پاس کوئی مستقل وسائل نہیں۔ وہ ہمیشہ اسی ایک ذریعے کو کام میں لانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے آنحضرت ﷺ کام لیتے تھے۔ غیر مسلم ‘ لا دین قوتوں اور ان کے ایجنٹوں نے اس راز کو سمجھ لیا ہے کہ محض اس جذبہ انفاق کے بل بوتے پر ملک میں ہزاروں ادارے کام کر رہے ہیں اور لاکھوں طلبہ کے قیام و طعام اور درس و تدریس کی ذمہ داریاں ان اداروں نے اٹھا رکھی ہیں۔ اگر لوگوں کو ان کی طرف سے بدگمان کردیا جائے یا ان کی امداد کرنے پر پابندی لگا دی جائے تو علم کے یہ سرچشمے اور دین کی یہ پناہ گاہیں خود بخود اجڑجائیں گی۔ قرآن اور صاحب قرآن کی ترغیب کے پیچھے ایک اور اہم حقیقت بھی کارفرما ہے۔ وہ یہ کہ انسان جس طرح اپنی ذات ‘ اپنی اولاد ‘ اپنے والدین ‘ اپنے احباب اور اپنی محبوب چیزوں سے پیار کرتا ہے اس سے بڑھ کر وہ اپنے مال و دولت سے پیار کرتا ہے۔ بسا اوقات ایسا دیکھا گیا ہے کہ انسان مال و دولت کو بچانے کے لیے جان دے دیتا ہے۔ اور اس طرح کے مقولے تو ہمارا روز مرہ بن چکے ہیں کہ کسی آدمی نے اپنے دوست سے کہا ” مجھے پیسوں کی ضرورت ہے آپ براہ کرم میرے ساتھ تعاون کریں۔ “ اس کے دوست نے جواب دیا ” گر جان می طلبی حاضر است “ کہ اگر تم جان مانگتے ہو تو وہ تو حاضر ہے۔ لیکن ” گر زر می طلبی سخن دریں جاست “ اگر زر یا پیسے مانگتے ہو تو اس میں سوچنا ہوگا۔ یعنی جان دینے کو آدمی بےساختہ تیار ہوجاتا ہے لیکن زر دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ انسان جن بتوں کی پوجا کرتا اور جو بت اس نے اپنے دل میں بٹھا رکھے ہیں ‘ ان میں سب سے بڑا بت دولت ہے۔ ایک جھونپڑے میں رہنے والا بھی اسی کے لیے آہیں کھینچتا ہے اور ایک محل میں رہنے والا بھی اسی کے لیے ایمان بیچتا ہے۔ اقبال نے بھی اس کو بت قرار دیا اور یہ بتایا کہ لا الہ نے جو بت توڑے ہیں ان میں یہ بت بھی شامل ہے۔ ؎ یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ اسلام نے اپنی دعوت کی بنیاد توحید کو بنایا ہے۔ وہ کسی ایسے بت یا ایسے آستانے کو باقی نہیں چھوڑتا جس سے توحید کو نقصان پہنچے۔ اللہ کی جس طرح نماز پڑھی جاتی ہے اسی طرح اس سے محبت کرنا بھی ضروری ہے۔ سر بھی اسی کے سامنے جھکنا چاہیے اور دل بھی اسی کی محبت سے لبریز ہونا چاہیے۔ انفاق کا بار بار حکم دینے سے مقصود یہ ہے کہ تم جس اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس نے تمہیں ایک دین عطا کیا ہے اس کے مطابق زندگی گزارنا ‘ اسی کو نافذ اور غالب کرنا یہ تمہارا اولین مقصد ہے۔ باقی ہر چیز اس مقصد پر قربان ہونی چاہیے۔ آدمی ہمیشہ سے اپنی ذات پر ‘ اپنے خاندان پر اور بعض دفعہ قومی تعصب میں مبتلا ہو کر اپنی قومی ضرورتوں پر خرچ کرتا آیا ہے۔ لیکن ان سب سے بلند ہو کر کلمہ حق کے راستے میں خرچ کرنا اور اس نظریے کی سر بلندی کے لیے خرچ کرنا جس پر ایک مسلمان ایمان لاتا ہے یہ وہ تصور ہے جس کو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک معاشی نقطہ نظر بالکل تبدیل نہ ہوجائے۔ جس طرح مادہ پرست لوگ پیسہ کمانے کے لیے جیتے اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہیں اور انکی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان پر جمی رہتی ہے۔ ایک مسلمان کو اس سے بڑھ کر اپنا ایمان اور اپنا دین عزیز ہونا چاہیے۔ وہ اسی کے لیے جئے اسی کے لیے مرے اور اسی کے نفع و نقصان کی میزان کو ہمیشہ سامنے رکھے۔ اسے اپنی ذات ‘ اپنے بیوی بچوں اور اپنے خاندان پر بجا طور پر اپنی دولت خرچ کرنے کا حق ہے۔ لیکن جب اللہ کے دین اور دین کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک کو اس کی دولت کی ضرورت پڑے ‘ جہادی مصارف اس سے دولت کا تقاضا کریں ‘ ملک کی بقا اور ملک کا دفاع اس کی دولت کی اپیل کریں تو اب اس کو اپنی دولت کا بیشتر حصہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے بیقرار ہوجانا چاہیے۔ جس طرح صحابہ کرام بار بار پوچھتے تھے کہ ہم کس قدر خرچ کریں ؟ مقصد یہ تھا کہ اجازت ہو تو سب کچھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے لٹا دیں۔ اور صدیق اکبر ؓ نے اسی جذبے کو اپنی سنت بنایا۔ یہ وہ معاشی نقطہ نظر ہے جس سے قوموں کی سوچ کا دھارا پلٹتا ہے ‘ ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں ‘ وہ ایک ہی دائرے میں اپنی زندگی گزارنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ‘ انھیں یکسوئی اور آسودگی نصیب ہوتی ہے۔ یہ وہ تصور ہے جسے پیدا کرنے کے لیے یہاں قرآن کریم نے اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تین رکوعوں میں روشنی ڈالی ہے۔ فی سبیل اللہ کا مفہوم اس آیت کریمہ میں انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے اور اس کو مثال سے واضح فرمایا ہے۔ اس فضیلت کو ذکر کرنے سے پہلے فی سبیل اللہ کا مفہوم سمجھ لینا چاہیے۔ جس انفاق کی فضیلت بیان ہو رہی ہے اس میں یہ لازمی شرط ہے کہ وہ فی سبیل اللہ ہو۔ فی سبیل اللہ سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اللہ کے قانون یعنی شریعت کے مطابق اور خالص اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ چاہے وہ اپنی َضروریات کی تکمیل میں ہو ‘ بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ہو ‘ اپنے اعزہ و اقرباء کی خبر گیری کے لیے ہو ‘ محتاجوں کی اعانت کے لیے ہو ‘ رفاہِ عام کے کاموں میں ہو ‘ یا اشاعت دین و جہاد کے مقاصد میں ہو ‘ یہ تمام کام فی سبیل اللہ میں شامل ہیں۔ جب تک ان میں سے ہر کام کو کرنے سے پہلے اللہ کی رضا کے حصول کو مقصد بنایا جائے اور شریعت کے کسی حکم کو توڑنے کی جرأت نہ کی جائے ‘ بلکہ ایک ایک حکم کی پابندی کی جائے تو وہ یقینا فی سبیل اللہ کی تعریف میں شامل ہے۔ یہاں فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ‘ اگر وہ واقعی شریعت کے احکام کے مطابق اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اجر وثواب کے اعتبار سے ان میں اس طرح ترقی دیتا ہے جس طرح کاشت کار ایک دانہ گندم بوتا ہے۔ اس دانے سے ایک سوئی پھوٹتی ہے پھر وہ ایک تنا بنتی ہے ‘ اس میں پھر سات بالیاں نکلتی ہیں اور ایک ایک بالی میں سو سو دانے ہوتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ایک دانے میں سو دانوں کی برکت پیدا فرماتا ہے۔ ایک مومن کے انفاق کا بھی یہی حال ہے۔ اگر وہ ان تمام شرائط کے مطابق خرچ کریں جو شریعت نے عائد کی ہیں تو یقینا اللہ کے راستے میں دیا ہوا ایک ایک دانہ سات سو دانے کی صورت اختیار کرے گا۔ اللہ کا عام قانون یہ ہے کہ وہ ایک نیکی پر دس گنا اجر عطا فرماتا ہے۔ لیکن یہاں فرمایا گیا ہے کہ ہم ایک عمل کا اجر سات سو گنا تک بھی بڑھا دیتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ عمل اپنے اندر وہ صفات رکھتا ہو جو اللہ کے یہاں بڑھنے کے لیے مقدر ہیں۔ اس آیت میں غور کرنے سے تین شرطیں سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک کاشت کار ایک دانہ گندم سے اس وقت سات سو دانہ حاصل کرنے کی امید رکھ سکتا ہے جب وہ دانہ پوری طرح صحت مند ہو۔ اور اگر اس دانے کو گھن کھاچکا ہو تو اس سے سات سو دانے تو کیا پیدا ہوں گے وہ تو سرے سے پھوٹنے کے لائق ہی نہیں۔ وہ زمین کے پیٹ میں گل سڑ کر ختم ہوجائے گا۔ یہی حال اعمال کا بھی ہے اگر ایک ایک عمل اپنے اندر پوری شرعی صحت رکھتا ہے یعنی وہ بالکل اسی طرح وجود میں لایا گیا ہے جیسے شریعت حکم دیتی ہے اور اس کے پیچھے وہی جذبہ کارفرما ہے جو عبادت کی جان ہے تو پھر تو اس میں پھوٹنے کی صلاحیت موجود ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ اللہ اس کو برگ و بار عطا فرمائے گا۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ دانہ ڈالنے والا کاشت کار بھی کاشتکاری کے طریقوں سے پوری طرح واقف ہو۔ یعنی اسے معلوم ہو کہ دانہ کس طرح بویا جاتا ہے ‘ کس موسم میں بویا جاتا ہے ‘ اس کی ایک ایک بات سے وہ واقف ہو۔ اور تیسری بات یہ کہ جس زمین میں وہ دانہ بویا جائے وہ زمین عمدہ ہو۔ قوت روئیدگی سے بھر پور ہو ‘ اس کو وہ عوارض لاحق نہ ہوں جن کی وجہ سے زمین قوت روئیدگی سے محروم ہوجاتی ہے۔ ان تینوں شرطوں میں سے اگر ایک شرط بھی مفقود ہو تو دانہ سات سو گنا تک کیا بڑھے گا اس کے اگنے کے امکانات بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ یہی حال انسانی عمل اور انفاق کا بھی ہے۔ ایک شخص جو مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اسے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ مال اللہ کے راستے میں دینے کے قابل ہے یا نہیں۔ اگر خدا نخواستہ وہ کسی حرام ذریعے سے کمایا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ حرام مال کو قبول نہیں کرتا۔ اسی طرح دوسری شرط یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کی نیت نیک اور صالح ہو۔ اگر وہ کسی بدنیتی یا نام و نمود کے لیے خرچ کرتا ہے تو وہ اس ناواقف کاشتکار کی طرح ہے جو دانہ کسی ایسی جگہ ڈال دے جہاں سے وہ اگ نہ سکتا ہو۔ اور تیسری شرط یہ ہے کہ مال خرچ کرنے والا اپنا مال اس جگہ خرچ کرے جو خرچ کی واقعی جگہ ہو۔ اور اگر وہ کسی ایسی جگہ خرچ کر دے جہاں خرچ کرنا سرے سے جائز ہی نہ ہو تو چاہے وہ کتنے اخلاص سے کرے تو یہ خرچ کرنا بیکار جائے گا۔ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ کا مفہوم اس کے بعد فرمایا وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ (اللہ بڑھا دیتا ہے اور برکت دے دیتا ہے جس کو چاہتا ہے) اس کا ایک مطلب تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک اجر وثواب میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے لیکن یہ اس کے لیے کرتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے۔ اور اس کا چاہنا اور اس کی مشیت اس کی حکمت کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ وہ اسی کے لیے چاہتا ہے جس میں اس کی اہلیت ہوتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اہل کو اس کی مشیت محروم کر دے اور نااہل کو نواز دے۔ البتہ اہلیت پیدا ہونے کے لیے تین شرائط کا ابھی ذکر ہوا ہے۔ وہ کم سے کم شرائط ہیں جو انفاق کو یا کسی بھی نیک عمل کو قبولیت کے قابل بناتی ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان شرائط کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ سات سو گنا اضافہ فرماتا ہے ‘ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کے لیے وہ چاہتا ہے اس کے اجر وثواب میں اس سے بھی کہیں زیادہ اضافہ فرما دیتا ہے۔ کیونکہ بعض احادیث سے اتنا اصافہ بھی ثابت ہے جو ہمارے پیمانوں میں نہیں آسکتا۔ اور جہاں تک انفاق کا تعلق ہے اس میں بھی غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تین شرئط کے علاوہ اور بھی کچھ صفات ایسی ہیں جو اجر وثواب میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ایک سوال کے جواب میں ایسی ہی چند باتوں کو جمع کردیا ہے جس سے اجر وثواب میں اضافہ کی امید کی جاسکتی ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ” سب سے افضل صدقہ کیا ہے ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” سب سے افضل صدقہ اس بےمایہ کا ہے جو اپنی ضرورتیں روک کر اور اپنا پیٹ کاٹ کر اپنا مال اس رشتہ دار پر خرچ کرے جو رشتہ دار اس کا نام لینے کا روادار نہ ہو۔ بلکہ جب بھی یاد کرے تو برے لفظوں سے یاد کرے۔ “ اس میں دیکھئے تین باتیں جمع ہوگئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دینے والا خود نادار اور انتہائی ضرورت مند ہو۔ اب وہ اگر کسی دوسرے پر خرچ کرتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے بےچین ہے۔ اور دوسری یہ بات کہ وہ کسی عام آدمی پر خرچ نہیں کرتا بلکہ اپنے رشتہ دار پر خرچ کرتا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کی نسبت اپنے اعزہ و اقربا پر خرچ کرنے کو زیادہ لائقِ فضیلت ٹھہرایا ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ وہ ایسے عزیز پر خرچ کر رہا ہے جو کبھی اس کے لیے کلمہ خیر کہنے کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ ہمیشہ اس کو برے لفظوں سے یاد کرتا ہے۔ یہ شخص جانتے ہوئے بھی اگر اس پر خرچ کرتا ہے تو یقینا اس لیے کرتا ہے کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہوجائے۔ تو اس میں کس قدر اخلاص اور کس قدر للہیت ہے۔ اور یہی وہ بنیادی چیز ہے جو اجر وثواب کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ کا مفہوم اس کے بعد ارشاد فرمایا وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (اللہ بڑی گنجائش والا اور علم والا ہے) ان دو صفات کو لانے کی ضرورت شاید اس لیے پیدا ہوئی کہ آدمی جب ان فضائل اور ترغیبات کو دیکھتا ہے کہ ان میں اجر وثواب کی اس قدر بہتات ہے تو کبھی شبہ میں مبتلا ہونے لگتا ہے کہ اربوں کھربوں لوگ اللہ کے راستے میں انفاق کرتے ہیں۔ اگر ایک ایک شخص کو اللہ نے اسی تناسب سے نوازا تو معاملہ کہاں تک پہنچے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ترغیب کی باتیں ہیں ‘ اس کا حقیقت نفس الامری سے کوئی تعلق نہیں۔ شاید اسی شب ہے کے ازالے کے لیے فرمایا کہ تم اللہ کے خزانے کی وسعتوں کو جان نہیں سکتے۔ تمہیں کیا معلوم اس کے خزانوں کی وسعتوں کا عالم کیا ہے۔ اور تم اللہ کے جود و کرم کو بھی شاید اپنے حوصلوں پر قیاس کرتے ہو اس لیے تمہیں تعجب ہوتا ہے کہ اس وسعت کے ساتھ ایک ایک شخص کو کیسے دیا جاسکتا ہے ؟ اور کچھ نہیں تو ذرا غور و فکر کر کے دیکھو کہ خشکی اور تری میں اللہ کی بیشمار مخلوقات ہیں جنھیں اللہ رزق دیتا ہے۔ سمندر میں اتنی بڑی بڑی مچھلیاں ہیں کہ جن کی خوراک کا اندازہ کرنا خشکی پہ رہنے والوں کے لیے ناممکن ہے اور خود جنگلوں میں کتنے بڑے بڑے جانور پائے جاتے ہیں جن کی خوراک کا بظاہر کوئی انتظام نہیں لیکن وہ خوراک کھا رہے ہیں۔ جو ذات ان سب کی خوراک کی کفالت کرتی ہے اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اس وسعت کے ساتھ نوازے۔ اور جہاں تک اس کے جودو کرم کا تعلق ہے آدمی یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس کی زمین پہ بسنے والے انسانوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اس کے نام لینے کی روادار نہیں۔ کیمیونسٹوں نے سرے سے کائنات میں خدا کے وجود سے ہی انکار کردیا ہے۔ اسی طرح کتنے لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔ کتنے لوگ ہیں جو اس کے ساتھ نہ جانے کس کس کو شریک بنائے بیٹھے ہیں اور کتنے ایسے حکمران ہیں جنھوں نے اللہ کے تخت کے مقابلے میں اپنا تخت سلطنت بچھا رکھا ہے۔ لیکن اللہ سب کو روزی دے رہا ہے۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے انکار کرنے والوں کو زیادہ روزی دیتا اور زیادہ وسائل فراہم کرتا ہے تاکہ ان کی فائل اچھی طرح موٹی ہوجائے۔ اگر وہ اپنے جودو کرم میں انسانوں جیسے ظرف کا مالک ہوتا تو کبھی کافر یا مشرک کو کھانا نہ ملتا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قیمت بھی ہوتی تو وہ کافر کو کبھی پانی کا گھونٹ بھی نہ دیتا۔ لیکن بات دراصل یہ ہے کہ ہم بعض دفعہ اللہ کے ظرف کو اپنے ظرف پر قیاس کرنے لگتے ہیں۔ اور پھر یہ خیال ہونے لگتا ہے کہ اللہ کے انعام و اکرام کے وعدے خالی باتیں ہیں ‘ جن پر کبھی عمل کا موقع نہیں آئے گا۔ اللہ تو خیر خالق ارض و سما اور تمام مخلوقات کا رازق ہے۔ ہم تو انسانوں میں دیکھتے ہیں کہ بعض انسان ایسے حوصلہ مند ہوتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کی حوصلہ مندی کو سمجھنے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ نواب عبدالرحیم خانخاناں جہانگیر کے مصاحبوں میں سے تھے۔ اپنی حوصلہ مندی اور سخاوت کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ ان کے بعض واقعات نہایت حیران کن ہیں۔ وہ دہلی سے آگرہ جانے کے لیے نکلے ‘ آگرہ دہلی سے پندرہ منزل پر ہے اور ایک منزل کا فاصلہ پندرہ میل ہوتا ہے۔ جب انھوں نے پہلی منزل پر پڑائو ڈالا ‘ خیمے لگ گئے ‘ دربار آراستہ ہوگیا تو نواب عصر کے بعد دربار میں اپنی کرسی پر بیٹھا تو سامنے دروازے پر ایک درویش آ کر کھڑا ہوا اور اس نے ایک شعر پڑھا : منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت منعم ویسے تو امیر اور مخیر آدمی کو کہتے ہیں ‘ لیکن اس میں دلچسپ بات یہ تھی کہ بادشاہ کی طرف سے نواب خانخاناں کو منعم خان کا خطاب مل چکا تھا۔ اس لیے اس لفظ کی لذت دو گونہ ہوگئی تھی۔ شعر کا معنی یہ ہے کہ ” امیر آدمی پہاڑوں ‘ جنگلوں اور بیابانوں میں بھی اجنبی نہیں ہوتا۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے خیمہ لگاتا ہے اور دربار آراستہ کرتا ہے۔ “ نواب خانخاناں یہ شعر سن کر اتنا خوش ہوا کہ اس نے خزانچی کو حکم دیا کہ اس کو ایک لاکھ روپیہ دے دیا جائے۔ درویش کو ایک لاکھ روپیہ ملا تو اس کی خوشی اور حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اگلی منزل پر نواب نے پڑائو ڈالا تو وہ درویش پھر آیا اور اس نے پھر وہی شعر پڑھا۔ نواب نے پھر ایک لاکھ روپیہ دینے کا حکم دیا۔ اس طرح وہ پانچ چھ دفعہ آیا اور ہر دفعہ اس کو ایک ایک لاکھ روپیہ ملتا رہا۔ آخر اس نے سوچا کہ اتنا بڑا انعام آج تک نہ کسی نے دیا نہ کسی نے لیا۔ ایسا نہ ہو نواب ناراض ہو کر سارا چھین لے۔ بہتر یہ ہے کہ اب نہ جاؤں۔ چناچہ نواب اپنے معمول کے مطابق دربار میں آ کر بیٹھا اور دیر تک اس درویش کا انتظار کرتا رہا۔ جب وہ نہ آیا تو کہنے لگا کہ ” کم ظرف نکلا ‘ نہ جانے کیا گمان کر بیٹھا۔ حالانکہ ہم نے پہلے ہی دن خزانچی کو حکم دے دیا تھا کہ پندرہ لاکھ روپیہ الگ کر کے اس درویش کے لیے رکھ دیا جائے۔ “ اندازہ فرمایئے اگر ایک نواب کی حوصلہ مندی کا عالم یہ ہے تو اللہ کے بارے میں یہ سوچنا کہ اتنا بڑا اجر وثواب وہ کیونکر دے گا ؟ یہ بڑی کم ظرفی کی بات ہے۔ اس لیے فرمایا کہ ” اللہ تو بہت وسعت والا ہے بڑی کشادگی والا ہے۔ “ اور مزید فرمایا کہ ” وہ علم والا بھی ہے۔ “ یعنی یہ مت سمجھو کہ اسے ان کے اعمال کی خبر نہیں ہوگی۔ یا وہ عمل کرنے والے کے احساسات سے باخبر نہیں۔ فرمایا وہ وسعت والا بھی ہے اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک ایک شخص کے بارے میں ہر بات سے آگاہ ہے۔ اس کی آگاہی میں کوئی کمی نہیں۔ جب اس کے خزانے بھی بےپناہ ہیں اور اس کا علم بھی لا محدود ہے تو پھر ایک بندہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے انفاق میں کیوں کمی کرے۔
Top