Al-Qurtubi - Al-Baqara : 260
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰى١ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ١ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا١ؕ وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّ : میرے رب اَرِنِيْ : مجھے دکھا كَيْفَ : کیونکر تُحْيِ : تو زندہ کرتا ہے الْمَوْتٰى : مردہ قَالَ : اس نے کہا اَوَلَمْ : کیا نہیں تُؤْمِنْ : یقین کیا قَالَ : اس نے کہا بَلٰي : کیوں نہیں وَلٰكِنْ : بلکہ لِّيَطْمَئِنَّ : تاکہ اطمینان ہوجائے قَلْبِىْ : میرا دل قَالَ : اس نے کہا فَخُذْ : پس پکڑ لے اَرْبَعَةً : چار مِّنَ : سے الطَّيْرِ : پرندے فَصُرْھُنَّ : پھر ان کو ہلا اِلَيْكَ : اپنے ساتھ ثُمَّ : پھر اجْعَلْ : رکھ دے عَلٰي : پر كُلِّ : ہر جَبَلٍ : پہاڑ مِّنْهُنَّ : ان سے (انکے) جُزْءًا : ٹکڑے ثُمَّ : پھر ادْعُهُنَّ : انہیں بلا يَاْتِيْنَكَ : وہ تیرے پاس آئینگے سَعْيًا : دوڑتے ہوئے وَاعْلَمْ : اور جان لے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں لیکن (میں دیکھنا) اس لیے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان حاصل کرلے خدا نے کہا کہ چار جانور پکڑو اور اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھو دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے
آیت ” 260۔ لوگوں نے اس سوال کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جانب سے یہ شک کہ سبب صادر ہوا یا نہیں ؟ تو جمہور نے کہا ہے : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے مردوں کو زندہ کرنے کے بارے میں کبھی شک لاحق نہیں ہوا۔ بلاشبہ آپ نے معائنہ کا مطالبہ کیا ِ اور اس لئے کہ نفوس ہر اس شے کو دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں جس کے بارے انہیں خبر دی جائے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : لیس الخبر کا لمعاینۃ (1) (المستدرک علی الصحیحین، کتاب التفسر، جلد 2، صفحہ 315، حدیث نمبر 3250) (خبر معائنہ کی طرح نہیں ہے) اسے حضرت ابن عباس ؓ نے روایت کیا ہے آپ کے سوا کسی نے اسے روایت نہیں کیا، ابو عمر نے یہی کیا ہے۔ امام اخفش نے کہا ہے : اس سے دل کی رؤیت مراد نہیں لی گئی بلکہ آپ نے آنکھ کے ساتھ دیکھنے کا ارادہ کیا ہے اور حضرت حسن، قتادہ، سعید بن جبیر، اور ربیع رحمۃ اللہ علہیم نے بیان کیا ہے : آپ نے سوال کیا تاکہ آپ کے یقین میں مزید اضافہ ہوجائے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : علامہ طبری (رح) نے اپنی تفسیر میں عنوان بنایا اور کہا : وقال اخرون سال ذالک ربہ، لانہ شک فی قدرۃ اللہ تعالیٰ (اور دوسروں نے کہا : آپ نے اپنے رب سے یہ سول کیا کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک تھا۔ ) اور انہوں نے اس عنوان کے تحت حضرت ابن عباس ؓ سے یہ قول ذکر کیا ہے آپ نے فرمایا : میرے نزدیک قرآن کریم میں کوئی آیت اس سے زیادہ امید افزا نہیں۔ اور حضرت عطا بن ابی رباح ؓ سے ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں وہ بعض داخل ہوگیا جو لوگوں کے دلوں میں داخل ہوجاتا ہے تو آپ نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ فرماتا ہے ؟ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نحن احق بالشک من ابراھیم، الحدیث۔ (ہم ابراہیم (علیہ السلام) کی نسبت شک کے زیادہ حقدار ہیں) پھر علامہ طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 352 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : حضرت ابوہریر ؓ کی حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے ان سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم ابراہیم (علیہ السلام) کی نسبت شک کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں جبکہ انہوں نے کہا : اے میرے رب ! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ فرماتا ہے ؟ تو رب کریم نے فرمایا : کیا تو اس پر یقین نہیں رکھتے ؟ عرض کی : ایمان تو ہے لیکن سوال اس لئے ہے تاکہ میرا دل مطمئن ہوجائے اور اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے اور رکن شدید (مضبوط شے) کی طرف پناہ لیتے تھے اور اگر میں قید میں رہتا جتنا یوسف (علیہ السلام) رہے تو میں دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرلیتا۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء جلد 1، صفحہ 477، وزارت تعلیم، ایضا حدیث نمبر 3121، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابن عطیہ نے کہا ہے : جو علامہ طبری نے عنوان بنایا ہے میرے نزدیک وہ مردود ہے اور جو عنوان کے تحت انہوں نے ذکر کیا ہے اس کی تاویل کی گئی ہے۔ پس جہاں تک حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول کا تعلق ہے : ھی ارجی آیۃ تو یہ اس حیثیت سے ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ پر اور دنیا میں مردوں کے زندہ کرنے کے سوال پر رہنمائی موجود ہے اور یہ اس وہم میں ڈالنے والی نہیں ہے اور آپ کا یہ کہنا جائز ہے : ھی ارجی آیۃ (یہ زیادہ امید دلانے والی آیت ہے) یعنی بلاشبہ ایمان کافی ہے یہ اپنے ساتھ کسی چھان بین اور بحث وتمحیص کا محتاج نہیں ہوتا۔ اور رہا حضرت عطا کا یہ قول : دخل قلب ابراھیم بعض مایدخل قلوب الناس تو اس کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ شک کرنے والے ہوتے تو یقینا ہم انکی نسبت اس کا زیادہ حق رکھتے اور ہم شک نہیں کرتے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے یہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ شک نہ کریں (2) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء جلد 1، صفحہ 477، وزارت تعلیم، ایضا حدیث نمبر 3121، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پس حدیث طیبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے شک کی نفی پر مبنی ہے اور وہ حدیث جس میں حضرت نبی مکرم ﷺ سے یہ مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ذالک محض الایمان (3) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 79، وزارت تعلیم) تو یہ ایسے خطرات (کھٹکنے والی چیزوں) کے بارے میں ہے جو ثابت نہیں رہتے اور رہا شک تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ دو امروں کے درمیان توقف کرنا ہے جس میں ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہ ہو، اور اس کی حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) سے نفی کی گئی ہے اور مردوں کو زندہ کرنا تو دلیل سمعی سے ثابت ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کے بارے زیادہ جانتے تھے اور اس پر آپ کا یہ قول تیری رہنمائی کرتا ہے (آیت) ” ربی الذی یحی ویمیت “۔ اور اس پر شک کرنا اس کے لئے بعید ہے جس کا قدم فقط ایمان پر ثابت ہو تو جو مرتبہ نبوت اور خلت پر فائز ہو اس کے بارے شک کیسے ہو سکتا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) تو کبائر سے معصوم ہیں اور بالاجماع ان صغیرہ گناہوں سے بھی جن میں رذالت ہوتی ہے اور جب تو آپ (علیہ السلام) کے سوال اور آیت کے تمام الفاظ میں غفور وفکر کرے گا تو وہ قطعا شک پیدا نہیں کرتے اور وہ اس طرح کہ سوال کیف کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ سوال کسی شے کی حالت کے بارے ہوتا ہے جو موجود ہو اور رسائل اور مسئول دونوں کے نزدیک اس کا وجود متقرر اور ثابت ہو۔ مثلا تیرا یہ قول : کیف علم زید (زید کا علم کیسا ہے ؟ ) کیف نسبح الثوب (کپڑے کی بنائی کیسی ہے) اور اسی طرح کی دیگر مثالیں۔ اور جب تو نے کہا : کیف ثوبک ؟ (تیرا کپڑا کیسا ہے) اور کیف زید ؟ (زید کیسا ہے) تو بلاشبہ سوال ان کے احوال میں سے کسی حال کے بارے ہے اور کبھی کیف کسی شی کے بارے خبر دینے کے لئے ہوتا ہے جس کی شان یہ ہو کہ اس کے بارے کیف سے سوال کیا جائے۔ جیسے تیرا یہ قول : کیف شئت فکن۔ (جس حالت میں تو چاہے تو ہوجا) اور اسی طرح امام بخاری (رح) کا قول ہے : کیف کان بدء الوحی (وحی کا آغاز کیسے ہوا ؟ ) اور اس آیت میں کیف زندہ کرنے کی ہیئت کے بارے سوال کرنے کے لئے ہے اور احیاء (زندہ کرنا) متقرر اور ثابت شدہ امر ہے۔ لیکن جب ہم نے کسی شے کے وجود کا انکار کرنے والے بعض لوگوں کو پایا ہے کہ وہ اس کے انکار کو اس شے کی حالت کے بارے سوال سے تعبیر کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحیح نہیں ہے، تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ شے فی نفسہ صحیح نہیں ہے اس کی مثال یہ ہے کہ ایک دعوی کرنے والا یہ کہے : انا ارفع ھذا الجیل، میں اس پہاڑ کو اٹھا سکتا ہوں، تو اسے جھٹلا والا کہتا ہے : مجھے دکھاتو اسے کیسے اٹھا سکتا ہے ؟ تو عبارت یہی طریقہ مجاز ہے اور اس کا معنی ایک بار بطور قیاس جدلی کے تسلیم کرنا، گویا کہ یہ کہہ رہا ہے : میں فرض کرتا ہوں کہ تو اسے اٹھا سکتا ہے سو تو مجھے دکھا تو اسے کیسے اٹھائے گا۔ پس جب حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی عبارت اس اشتراک مجازی کے مطابق تھی، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اسے خالص کردیا اور اسے اس پر محمول کیا کہ آپ کے لئے حقیقت بیان فرما دی اور آپ کو فرمایا : ” اولم تؤمن قال بلی “۔ تو اس سے امر مکمل ہوگیا اور ہر قسم کے شک سے پاک ہوگیا پھر آپ (علیہ السلام) نے راحت وطمانینت کے ساتھ اپنے سوال کی علت بیان کی (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 353 دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ جو ابن عطیہ نے ذکر کیا ہے وہ اپنی (انتہا کو) پہنچا اور انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے بارے میں اس طرح کا شک جائز نہیں ہوتا کیونکہ یہ کفر ہے اور انبیاء علیہم الصلوت والتسلیمات دوبارہ اٹھائے جانے کے ساتھ ایمان لانے پر متفق ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دے رکھی ہے کہ اس کے انبیاء (علیہم السلام) اور اس کے اولیاء رحمۃ اللہ علہیم پر شیطان کو کوئی راہ اور غلبہ نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” ان عبادی لیس لک علیہم سلطن “۔ (الحجر : 42) ترجمہ : بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا۔ اور اس لعین نے کہا تھا : (آیت) ” الا عبادک منھم المخلصین “۔ (ص) ترجمہ : یعنی تیرے مخلص بندوں پر میرا تسلط نہیں ہو سکتا۔ اور جب شیطان کے لئے ان پر کوئی غلبہ اور تسلط نہیں ہے تو پھر وہ انہیں شک میں کیسے ڈال سکتا ہے ؟ بلاشبہ آپ نے سوال کیا کہ آپ مردوں کے اجزاء بکھر جانے کے بعد ان کے جمع ہونے کی کیفیت اور پٹھوں اور جلدوں کو پھاڑنے اور بکھیرنے کے بعد انہیں جوڑنے کی کیفیت کا مشاہدہ کریں، اور ارادہ یہ کیا کہ آپ علم یقین سے مزید علم یقین کی طرف ترقی کریں، پس آپ کا قول : (آیت) ’ ارنی کیف “۔ یہ کیفیت کے مشاہدہ کی طلب پر دال ہے۔ اور بعض علمائے معانی نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے یہ ارادہ کیا کہ وہ آپ کو دکھائے وہ کیسے دلوں کو زندہ کرتا ہے۔ یہ رائے فاسد اور مردود ہے اس بیان کے سبب جو اس کے پیچھے ہے۔ اسے ماوردی نے ذکر کیا ہے اور اس ارشاد (آیت) ” اولم تؤمن “ میں الف برائے استفہام نہیں ہے، بلکہ یہ الف برائے ایجاب وتقریر ہے، جیسا کہ جریر نے کہا ہے : الستم خیر من رکب المطایا۔ کیا تم ان سے بہتر نہیں ہو جو سواریوں پر سوار ہوئے۔ (یعنی ان سے بہتر ہو، تو گویا الف برائے ایجاب ہوا) اور و تؤمن میں واؤ حالیہ ہے۔ اس کا معنی ایمان مطلق ہوا اور اس میں مردوں کو زندہ کرنے کی فضیلت داخل ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” قال بلی ولکن لیطمئن قلبی “۔ یعنی میں نے تجھ سے سوال کیا ہے تاکہ میرا دل برہان (دلیل) کے ساتھ معلوم اور مشاہدہ کے مابین فرق حاصل ہونے سے مطمئن ہوجائے۔ اور طمانینت کا معنی اعتدال اور سکون ہے اور اعضاء کی طمانینت تو معروف ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ثم ارکع حتی تطمئن راکعا۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب الاذان، جلد 1، صفحہ 105، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، کتاب ابواب صلاۃ الجماعۃ حدیث نمبر 715، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) الحدیث (پھر تو رکوع کر یہاں تک کہ تو پورے اطمینان سے رکوع کرے) اور دل کی طمانینت یہ ہے کہ کسی شے معتقد میں اس کی فکر پرسکون ہوجائے (اور راحت میں بدل جائے) اور احیاء کے بارے میں فکر کرنا ممنوع نہیں ہے، جیسا کہ آج ہمارے لئے ہے کہ ہم اس میں فکر کریں کیونکہ اس فکر میں ہی عبرت ہے۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو مشاہدہ اور معائنہ کا ارادہ کیا تو احیاء کی صورت میں ان کی فکر ختم ہوجائے گی۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : (آیت) ” لیطمئن قلبی “ کا معنی ہے تاکہ میرا دل محفوظ ہوجائے اور اسی طرح حضرت سعید بن جبیر ؓ سے بیان کیا گیا ہے، اور ان سے یہ بھی بیان کیا گیا ہے تاکہ یقین میں اضافہ ہوجائے، ابراہیم اور قتادہ (رح) نے یہی کہا ہے اور بعض نے کہا ہے : تاکہ وہ میرے ایمان کے ساتھ مزید ایمان کا اضافہ کرے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اس معنی میں کوئی زیادتی ممکن نہیں ہوتی مگر فکر سے سکون حاصل کرنے کے ساتھ، ورنہ یقین منقسم نہیں ہوتا۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 353 دارالکتب العلمیہ) سدی اور ابن جبیر نے بھی کہا ہے : کیا تم یقین نہیں رکھتے اس کے ساتھ کہ تم میرے خلیل ہو ؟ آپ نے عرض کی : کیوں نہیں بلکہ (سوال اس لئے ہے) تاکہ میرا دل خلت کے ساتھ مطمئن ہوجائے۔ اور یہ قول بھی ہے : آپ نے دعا کی کہ وہ آپ کو دکھائے وہ کیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ اس کی دعا قبول کی جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا : کیا تمہیں یقین نہیں ہے کہ میں تمہاری دعا قبول کرتا ہوں ؟ آپ نے عرض کی : ایمان تو ہے (لیکن سوال اس لئے کیا ہے) تاکہ میرا دل مطمئن ہوجائے کہ تو میری دعا قبول کرتا ہے۔ آپ کو اس پر برانگیختہ کرنے والے کے بارے میں اختلاف ہے۔ پس کہا گیا ہے : بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ آپ کو خلیل بنائے گا، تو آپ نے اس پر کسی نشانی (کے حصول) کا ارادہ کیا۔ سائب بن یزید نے یہی کہا ہے اور یہ قول بھی ہے : (کہ وہ) نمروذکا یہ قول تھا : میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں اور حسن نے کہا ہے : انہوں نے ایک مردار دیکھا اس کا نصف حصہ خشکی میں پڑا تھا اسے درندے چیر پھاڑ کر کھا رہے تھے اور نصف حصہ سمندر میں تھا اسے سمندری جانور چیر پھاڑ رہے تھے تو جب آپ نے اسے متفرق ہوتا اور بکھرتا دیکھا تو آپ نے پسند کیا کہ اسے جڑتا اور ملتا بھی دیکھیں تو آپ نے سوال کردیا تاکہ آپ کا دل اس کے جمع ہونے کی کیفیت دیکھ کر مطمئن ہوجائے جیسا کہ اس نے تفریق اور تقسیم کی کیفیت کو دیکھا ہے : سو آپ کو کہا گیا : (آیت) ” فخذ اربعۃ من الطیر “۔ کہا گیا ہے کہ وہ چار پرندے مرغ، مور، کبوتر اور کوا تھے، اسے ابن اسحاق نے بعض اہل علم سے ذکر کیا ہے اور مجاہد ابن جریج، عطا بن یسار اور ابن زید رحمۃ اللہ علہیم نے یہی کہا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کوے کی جگہ سارس کا ذکر کیا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 353 دارالکتب العلمیہ) اور آپ ہی سے یہ بھی اور آپ ہی سے یہ بھی ہے کہ آپ نے کبوتر کی جگہ گدھ کا ذکر کیا ہے، پس آپ نے حسب حکم یہ پرندے پکڑ لئے اور انہیں ذبح کیا اور انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دیا اور بعض کا گوشت بعض کے ساتھ خون اور پروں سمیت خلط ملط کردیا یہاں تک کہ آپ بہت تعجب کرنے لگے، پھر اس ملے جلے مجموعہ میں سے ایک ایک جز ہر پہاڑ پر رکھ دیا اور آپ ایسی جگہ پر ٹھہر گئے جہاں سے آپ ان اجزاء کو دیکھ سکتے تھے اور آپ نے پرندوں کے سر اپنے ہاتھ میں ہی روک لئے پھر کہا : ” تعالین باذن اللہ (تم اللہ تعالیٰ کے اذن سے آ جاؤپس وہ اجزاء اڑنے لگے اور خون خون کی طرح اور پر پروں کی طرف اڑے یہاں تک کہ پہلے کی طرح وہ سب جڑ گئے اور بغیر سروں کے وہ باقی رہ گئے، پھر آپ نے دوبارہ آواز دی تو وہ آپ کے پاس اپنی ٹانگوں پر دوڑتے ہوئے آئے اور پرندے کے لئے سعی کا لفظ نہیں بولا جاتا جب وہ اڑے مگر تمثیل کی بنا پر۔ نحاس نے یہی کہا ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بج ان میں سے ایک کی طرف اس کے سر کے بغیر اشارہ کیا تو پرندہ دور ہوگیا، اور جب اس کی طرف اس کے سر کے ساتھ اشارہ کیا تو وہ قریب ہوا یہاں تک کہ ہر پرندہ اپنے سر کے ساتھ مل گیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اڑ گیا، زجاج نے کہا ہے : معنی یہ ہے پھر ہر پہاڑ پر ہر ایک کا ایک ایک جز رکھ دے۔ ابوبکر نے عاصم اور ابو جعفر سے جزوا بروزن فعل پڑھا ہے اور ابو جعفر نے جزا زاء مشددہ کے ساتھ بھی پڑھا ہے اور باقیوں نے مہموز مخفف پڑھا ہے یہ اس کی لغات ہیں اور اس کا معنی ہے : نصیب اور حصہ۔ (آیت) ” یاتینک سعیا۔ سعیا حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور صرھن کا معنی ہے : تو انہیں کاٹ دے۔ حضرت ابن عباس ؓ حضرت مجاہد، ابو عبیدہ اور ابن انباری رحمۃ اللہ علہیم نے یہی کہا ہے۔ کہا جاتا ہے : صار الشیء یصورہ، یعنی اس نے شے کو کاٹ دیا۔ اور ابن اسحاق نے یہی کہا ہے۔ اور ابو الاسود الدؤلی سے ہے، اور یہ سریانی زبان کے ساتھ تقطیع ہے توبہ بن الحمیر نے اس کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے : فلما جذبت الحبل اطت نسوعہ باطراف عیدان شدید سیورھا فاذنت لی الاسباب حتی بلغ تھا بنھضی وقد کا د ارتقالی یصورھا : یعنی وہ اسے کاٹ دے گا اور الصور بمعنی القطع (کاٹنا) ہے، ضحاک، عکرمہ اور حضرت ابن عباس ؓ نے اپنی کسی روایت میں کہا ہے جوان سے روایت کی گئی ہے کہ یہ لفظ نبطی زبان کا ہے اور اس کا معنی ہے : قطعھن تو انہیں کاٹ دے۔ اور کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے : املھن الیک “۔ یعنی تو انہیں ملا دے اور انہیں اپنے پاس جمع کرلے، کہا جاتا ہے : رجل اصور جب وہ گردن کو جھکانے والا ہو، اور آپ کہتے ہیں : انی الیکم الاصور یعنی بلاشبہ میں تمہاری طرف مشتاق اور راغب ہوں، اور امراۃ صوراء (جھکنے والی عورت) اور اس کی جمع صور ہے جیسا کہ اسود کی جمع سود ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : اللہ یعلم انا فی تلفتنا یوم الفراق الی جیراننا صور۔ اور قولہ الیک تقطیع کی تاویل پر متعلق خذ کے ہے اور کسی مضمر کی حاجت نہیں اور امالہ اور ضم کی تاویل پر یہ صرھن کے متعلق ہے اور کلام میں یہ چھوڑ دیا گیا ہے : فاملھن الیک ثم قطعھن (تم انہیں اپنے پاس جمع کرلو اور پھر انہیں ٹکڑے ٹکرے کر دو ) اور اس میں پانچ قراتیں ہیں سات میں سے دو یہ ہیں : صاد کا ضمہ، صاد کا کسرہ اور را کی تخفیف۔ اور ایک قوم نے فصرھن یعنی صاد کے ضمہ اور را مفتوحہ کی شد کے ساتھ پڑھا ہے، گویا کہ وہ کہہ رہا ہے پس تو انہیں باندھ دے، اور اسی سے سرۃ الدنانیر ہے۔ اور ایک گروہ نے فصرھن صاد کے کسرہ اور را مفتوحہ کی شد کے ساتھ پڑھا ہے اور اس کا معنی ہے تو انہیں چیز پھاڑ دے، یہ تیرے اس قول سے ہے : صرالباب والقلم اذا صوت (دروازہ اور قلم پھٹ گئے جب تو نے آواز لگائی) اسے نقاش نے بیان کیا ہیں، ابن جنی نے کہا ہے : یہ قرات غریب ہے اور وہ اس لئے کہ مضاعف متعدد بکسرعین بہت قلیل آتا ہے بلکہ اس کا باب یفعل عین کلمہ کے ضمہ کے ساتھ ہے جیسے شد یشد وغیرہ لیکن کبھی کبھی اس سے یہ بھی آتا ہے ثم الحدیث ینمہ وینمہ۔ اس نے چلغلخوری کی اور ہر الحرب یھرھا ویھرھا، جنگ چھڑ گئی، اور اسی سین اعشی کا شعر ہے : لیغتورنک القول حتی تھرہ۔ علاوہ ازیں بھی قلیل حروف میں سے ہے۔ ابن جنی نے کہا ہے : پس عکرمہ کی قرات صاد کے ضمہ کے ساتھ تو یہ را میں ضمہ، فتحہ اور کسرہ تینوں کا احتمال رکھتی ہے۔ (جیسے مد اور شد) کے را پر ضمہ اس کے بعد ہا پر ضمہ کی وجہ سے ہے۔ پانچویں قرات صرھن صاد کے فتحہ اور را مک سورة کی شد کے ساتھ ہے، اسے مہدوی وغیرہ نے عکرمہ سے بیان کیا ہے، یہ بمعنی فاحبسھن (اور تو انہیں روک لے) ہے۔ یہ ان کے اس قول سے ہے : صری یصری جب کوئی قید کرلے، روک لے۔ اور اسی سے الشاۃ المصراۃ ہے۔ اور یہاں ایک اعتراض ہے جسے ماوردی نے ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا آخرت کی نشانیوں کے بارے میں کیسے قبول کرلی گئی جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قبول نہیں کی گئی جو اس قول میں ہے : (آیت) ” رب ارنی انظر الیک “ (الاعراف : 143) ترجمہ : اے میرے رب ! مجھے دیکھنے کی قوت دے تاکہ میں تیری طرف دیکھ سکوں۔ تو ان سے دو جواب منقول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو سوال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کیا تھا وہ مکلف باقی رہتے ہوئے صحیح نہیں ہے اور جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا وہ خاص ہے اور اس کے ساتھ مکلف باقی رہنا صحیح ہے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ احوال مختلف ہوتے ہیں، پس بعض اوقات اصلح قبولیت ہوتی ہے اور بعض دوسرے اوقات میں اس بارے میں منع کرنا اور روکنا اصلح ہوتا ہے جس میں پیشگی اذن نہ ہو۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے بارے حکم دیا تھا اس سے پہلے کہ آپ کی اولاد ہو اور اس سے پہلے کہ آپ پر وہ صحف نازل کرے۔ واللہ اعلم۔
Top