Al-Qurtubi - Al-Baqara : 262
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًى١ۙ لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ ثُمَّ : پھر لَا يُتْبِعُوْنَ : بعد میں نہیں رکھتے مَآ اَنْفَقُوْا : جو انہوں نے خرچ کیا مَنًّا : کوئی احسان وَّلَآ : اور نہ اَذًى : کوئی تکلیف لَّھُمْ : ان کے لیے اَجْرُھُمْ : ان کا اجر عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ اپنا مال اللہ کے راستے میں صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس تیار ہے اور (قیامت کے روز) نہ انکو کچھ خوف ہوگا اور نہ غمگین ہوں گے
آیت نمبر : 262۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ (آیت) ” الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ “۔ ، کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان ابن عفان ؓ کے بارے میں نازل ہوئی، حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ جیش العسرہ (غزوہ تبوک) کی تیاری کے لئے حضرت عثمان ؓ ایک ہزار دینار لے کر حاضر ہوے ہیں اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی گود میں ڈال دیا، تو میں نے آپ ﷺ کو دیکھا آپ سے اپنا دست مبارک میں ان داخل کرتے ہیں اور انہیں الٹ پلٹ کر رہے ہیں اور فرما رہے : ما ضر ابن عفان ما عمل بعد الیوم اللہم لا تنس ھذا الیوم لعثمان “ آج کے بعد ابن عفان نے جو عمل بھی کیا وہ ان کے لئے نقصان دہ نہیں، اے اللہ تو آج کے دن عثمان کو نہ بھولنا ، “ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو حضرت عثمان ؓ کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے دیکھا ہے، آپ کہہ رہے تھے : یا رب عثمان انی رضیت فارض عنہ (اے عثمان کے رب ! میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی رہ) آپ ﷺ مسلسل دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ ثم لا یتبعون ماانفقوا منا ولا اذی “۔ الایہ (1) (اسباب النزول للواحدی، صفحہ 81) مسئلہ نمبر : (2) بالعموم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ذکر جب پہلی آیت میں گزر چکا تو اس آیت میں یہ بیان کیا کہ وہ حکم اور ثواب بلاشبہ اس کے لئے ہے جو خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتا ہے اور نہ وہ دکھ دیتا ہے کیونکہ احسان جتلانا اور اذیت دینا یہ صدقہ کے ثواب کو باطل کرد یتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد والی آیت میں بیان کردیا ہے۔ بلاشبہ آدمی پر یہ لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور متفق علیہ پر خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ سے ثواب کے حصول کا ارادہ کرے اور وہ منفق علیہ سے کسی شے کی امید نہ رکھے اور سوائے اپنے استحقاق کی رعایت کرنے کے اس کے احوال میں سے کسی حال پر نظر نہ رکھے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” لا نرید منکم جزآء ولا شکورا “۔ (الدہر) ترجمہ : نہ ہم تم سے کسی اجر کے خواہاں ہیں اور نہ شکریہ کے۔ اور جب اس نے اس ارادہ سے مال خرچ کیا کہ وہ کسی بھی وجہ سے منفق علیہ سے جزا حاصل کرے تو اس طرح اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کا ارادہ نہ کیا اور یہ تب ہے جب اس کے اس گمان کے پیچھے خرچ کرنے سے مقصود احسان جتلانا اور اذیت پہنچانا ہو۔ اور اسی طرح جس نے کسی مضطر اور مجبور آدمی سے مشقت اور تکلیف دور کرنے کے لئے خرچ کیا یا تو اس پر احسان جتلانے کے لئے جس پر خرچ کیا گیا ہے یا مشقت کے کسی دوسرے قرینہ کے سبب اذیت پہنچانے کے لئے تو اس طرح اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا، بلاشبہ اس کا یہ عمل قبول کیا جائے گا جب اس کی یہ عطا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو اور اس کا زیادہ سے زیادہ ارادہ اس (اجر وثواب) کی خواہش ہو جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے بیان کیا گیا کہ ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا : یا عمر الخیر جزیت الجنۃ اکس بنیاتی وامھنہ : اے عمر ! بھلائی اور نیکی کیجئے آپ کو جنت کی جزا دی جائے میری بیٹیوں اور ان کی ماں کو لباس پہنائیے۔ وکن لنا من الزمان جنۃ اقسم باللہ لتفعلنہ : تو ہمارے لئے (مصائب) زمانہ سے ڈھال بن جا، میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں آپ ضرور ایسا کریں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اگر میں نہ کروں تو کیا ہوگا ؟ اس نے عرض کی : اذا ابا حفص لاذھبنہ : اے ابا حفص ! تب میں چلا جاؤں گا۔ پھر آپ نے فرمایا : جب تو چلا گیا تو کیا ہوگا ؟ اس نے عرض کی : تکون عن حالی لتسالنہ یوم تکون الاعطیات ھنہ : میرے حال کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا جس دن عطیات کی آرزو ہوگی۔ وموقف المسئول بینھنۃ اما الی نار واما جنۃ اور ان کے درمیان مسئول کا موقف (ٹھہرنی کی جگہ) یا جہنم ہوگی یا جنت۔ پس حضرت عمر ؓ رونے لگے یہاں تک کہ آپ کی ریش مبارک تر ہوگئی، پھر آپ نے فرمایا : اے غلام ! اس دن کے لئے اسے میری یہ قمیص دے دو نہ کہ اس کے شعر کے لئے، قسم بخدا ! میں اس کے سوا کسی کا مالک نہیں ہوں، ماوردی نے کہا ہے : جب عطا اس ارادہ پر ہو کہ وہ جزا اور شکر کی طلب سے خالی ہو اور احسان جتلانے اور شہرت سے بھی پاک ہو تو وہ خرچ کرنے والے کے لئے انتہائی اشرف واعلی ہے اور قبول کرنے والے کے لئے باعث مبارک ہے، لیکن جب عطا کرنے والا اپنی عطا سے جزا کا خواشمند ہو اور اس کے عوض شکر اور ثنا کا طالب ہو تو وہ شہرت کا طالب اور ریا کاری کرنے والا ہے، اور ان دونوں میں ایسی ذم اور برائی ہے جو سخاوت کے منافی ہوتی ہے اور اگر اس نے جزا کا مطالبہ کیا تو وہ ایسا نفع کمانے والا تاجر ہے جو حمد اور مدح کا مستحق نہیں ہوتا۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے اس قول باری تعالیٰ میں کہا ہے : (آیت) ” ولا تمنن تستکثر “۔ (المدثر) یعنی آپ کسی کو ایسا عطیہ نہ دیں کہ آپ اس کے عوض اس سے افضل واعلی کی خواہش رکھتے ہوں۔ اور ابن زید نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو خود جہاد میں نہیں نکلتے بلکہ وہ خرچ کرتے ہیں اس حال میں کہ خود بیٹھے ہوتے ہیں اور اس سے پہلی آیت ان کے بارے میں ہے جو بنفس نفیس جہاد کے لئے نکلتے ہیں، فرمایا : اسی لئے ان پر شرط لگائی گئی ہے اور پہلوں پر کوئی شرط نہیں، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ قول محل نظر ہے، کیونکہ اس میں اپنی رائے سے فیصلہ دینے کا اظہار ہو رہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ (آیت) ” منا والا اذی “۔ المن کسی نعمت و احسان کا ذکر کرنا ہے اس کو شمار کرنے اور گننے کے لئے اور اس کے سبب (دوسرے کو) پریشان کرنے کے لئے۔ مثلا وہ یہ کہے : قد احسنت الیک ونعشتک “ میں نے تجھ پر احسان کیا اور تجھے ہلاک ہونے سے بچا لیا، اور اسی کے مشابہ اور الفاظ۔ اور بعض نے کہا ہے : المن کا مفہوم ہے اس کے بارے میں گفتگو کرنا جو اس نے دیا یہاں تک کہ وہ گفتگو اس تک پہنچ جائے جسے دیا گیا اور وہ اس کے لئے باعث تکلیف ہو اور احسان جتلانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور یہ صحیح مسلم وغیرہ میں ثابت ہے (1) (سنن ابی داؤد، باب ماجاء فی۔۔۔۔ حدیث نمبر 3565، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ بھی ان تین میں سے ایک ہے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔ اور نسائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تین آدمی ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت نہیں فرمائے گا : اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا، مرد کی طرح بننے والی عورت جو کہ مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہو اور دیوث (بےغیرت انسان) اور تین ہیں جو جنت میں داخل نہیں گے : اپنے والدین کا نافرمان، ہمیشہ شراب پینے والا اور اس کے ساتھ احسان جتلانے والا جو کسی کو عطا کرے۔ (2) (مسند امام احمد، حدیث 6180) اور مسلم کی بعض اسناد میں ہے : المنان (احسان جتلانے والا) وہ ہے جو کسی کو بغیر احسان جتلائے کوئی شے نہیں دیتا، اور الاذی سے مراد گالیاں دینا اور شکایت کرنا ہے اور یہ من سے اعم ہے۔ کیونکہ من، الاذی کا جز ہے لیکن اس کے کثیر الوقوع ہونے کے سبب اس پر نص وارد ہے۔ اور ابن زید نے کہا ہے : اگر تجھے گمان ہو کہ تیرا اسلام اس پر ثقیل اور گراں ہوگا جس پرتو نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کچھ خرچ کیا ہے تو تو اس پر سلام نہ کر اور آپ کو ایک عورت نے کہا : اے ابو اسامہ میری ایسے آدمی پر رہنمائی کیجئے جو خالصتا اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلتا ہے کیونکہ وہ تو نکلتے ہیں (اور) وہ پھل کھاتے ہیں بلاشبہ میرے پاس تیر اور ترکش ہیں، تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تیروں اور تیرے ترکش میں تیرے لئے برکت نہ رکھے تحقیق تو نے انہیں دینے سے پہلے انہیں اذیت اور تکلیف دی ہے۔ ہمارے علماء رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا اور اس کے پیچھے نہ احسان جتلایا اور نہ دکھ پہنچایا جیسا کہ اس کا یہ قول : تیرا اصرار اور تیری احتیاج کتنی شدید تھی ! تیری جانب سے اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص عطا فرمائے اور اسی طرح کی دیگر مثالیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اجر کی ضمانت دی ہے اور وہ اجر جنت ہے اور اس کی موت کے بعد مستقبل کے لئے اس سے خوف کی نفی کردی اور اس حزن اور غم کی نفی کردی جو اسے اس پر ہوا جو دنیا میں سے گزر چکا ہے کیونکہ وہ تو اپنی آخرت کے ساتھ خوش اور مسرور ہوتا ہے، سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” لھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “۔ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے یہ فضل وشرف کافی ہے۔ اور اس میں ان کے لئے دلیل ہے جنہوں نے غنی کو فقیر پر فضلیت دی ہے، اس کا بیان آگے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top