Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 261
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَمَثَلِ : مانند حَبَّةٍ : ایک دانہ اَنْۢبَتَتْ : اگیں سَبْعَ : سات سَنَابِلَ : بالیں فِيْ : میں كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ : ہر بال مِّائَةُ : سو حَبَّةٍ : دانہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُضٰعِفُ : بڑھاتا ہے لِمَنْ : جس کے لیے يَّشَآءُ : چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے اس کا اجر اس سے بھی بڑھا 376 دیتا ہے اور اللہ بڑا فراخی والا اور 377 جاننے والا ہے
376 اسی سورة کی آیت نمبر 254 میں اہل ایمان کو انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی تھی کہ قیامت کے دن یہی چیز کام آنے والی ہے۔ درمیان میں اللہ کی معرفت اور تصرف فی الامور کے چند واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی مضمون کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے اور بتلایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کس طرح ان صدقات کو سینکڑوں گنا بڑھا کر اس کا اجر عطا فرمائے گا اسی اضافے کو اللہ تعالیٰ یہاں ایک ایسی مثال سے واضح فرما رہے ہیں جسے سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں یعنی اگر اللہ چاہے تو سات سے زیادہ بالیاں بھی اگ سکتی ہیں اور ایک بالی میں سو سے زیادہ دانے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح صدقہ کا اجر وثواب سات سو گنا سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے اجر کے حصول کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً :۔ 1۔ بیج یا دانہ جس قدر تندرست اور قوی ہوگا اتنی ہی فصل اچھی ہوگی۔ انفاق فی سبیل اللہ میں بیج یا دانہ انسان کی نیت ہے وہ جس قدر خالص اللہ کی رضا کے لیے ہوگی۔ اسی قدر آپ کا صدقہ زیادہ پھل لائے گا۔ نیز یہ صدقہ حلال مال سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قبول ہی نہیں ہوتا۔ 2۔ بیج کی کاشت کے بعد پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس کی آبیاری اور کیڑوں مکوڑوں سے حفاظت بھی ضروری ہے۔ ورنہ فصل یا تو برباد ہوجائے گی یا بہت کم فصل پیدا ہوگی۔ اسی طرح صدقہ کے بعد اس کی حفاظت بھی کی جانی چاہیے اور اسے احسان جتلا کر یا بےگار لے کر ضائع نہ کردینا چاہیے جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ 3۔ بعض دفعہ فصل تیار ہوجاتی ہے تو اس پر کوئی ایسی ارضی و سماوی آفت آپڑتی ہے جو فصل کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ انسان کے اعمال میں یہ آفات شرک کی مختلف اقسام ہیں۔ اگر آپ نے بالکل درست نیت سے صدقہ کیا۔ پھر آبیاری اور حفاظت بھی کرتے رہے۔ لیکن کسی وقت کوئی شرک کا کام کرلیا تو آپ کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ کام سنت کے خلاف (یعنی بدعت) ہوگا تو بھی وہ اجر کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔ ہاں جو شخص ان امور کا خیال رکھے تو اسے فی الواقعہ اتنا ہی اجر ملے گا جو اس آیت میں مذکور ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صرف پاک مال قبول کرتا ہے تو جس نے اپنے پاک مال میں سے ایک کھجور برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کی یوں نشوونما کرتا ہے جیسے تم اپنے بچھڑے کی نشوونما کرتے ہو حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔ (بخاری، کتاب الزکاۃ، باب لا یقبل اللہ صدقہ من غلول۔ اور باب الصدقہ من کسب طیب لقولہ تعالیٰ یمحق اللہ الربوا ویر بی الصدقات الایہ، مسلم، کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصدقہ ولو بشق تمرۃ او کلمہ طیبہ۔۔ الخ) 377 یعنی جتنا زیادہ اجر وثواب دینا چاہے دے سکتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کتنے خلوص نیت سے تم نے یہ کام کیا تھا۔
Top