Al-Qurtubi - Al-Baqara : 152
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠   ۧ
فَاذْكُرُوْنِيْٓ : سو یاد کرو مجھے اَذْكُرْكُمْ : میں یاد رکھوں گا تمہیں وَاشْكُرُوْا لِيْ : اور تم شکر کرو میرا وَلَا : اور نہ تَكْفُرُوْنِ : ناشکری کرو میری
سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد کیا کرونگا اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا
آیت نمبر 152 تا 153 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذکرونی اذکرکم یہ امر اور جواب امر ہے۔ اس میں مجازاۃ کا معنی ہے۔ اس وجہ سے اسے جزم دی گئی ہے۔ ذکر کی اصل مذکور کے لئے دل کا متنبہ ہونا اور اس کے لئے دل کا بیدار ہونا۔ ذکر باللسان کو ذکر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ذکر قلبی پر دلالت کرتا ہے لیکن جب زبانی ذکر پر کثرت سے ذکر کا اطلاق ہوا تو یہی ذکر سمجھا جانے لگا۔ آیت کا معنی ہے : تم اطاعت کے ساتھ میرا ذکر کرو میں تمہارا ثواب اور مغفرت کے ساتھ ذکر کروں گا۔ یہ حضرت سعید بن جبیر کا قول ہے اور اسی طرح فرمایا : ذکر، اللہ کی اطاعت نہ کی اس نے اس کا ذکر نہیں کیا، اگرچہ وہ کثرت سے تسبیح، تہلیل اور قرآن کی تلاوت کرے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اس نے اللہ کا ذکر کیا اگرچہ اس کی نماز اور روزہ کم بھی ہوں اور خیر کے اعمال تھوڑے بھی ہوں اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وہ اللہ تعالیٰ کو بھول گیا، اگرچہ نماز، روزہ اور خیر کے کام زیادہ بھی ہوں۔ ابوعبید اللہ محمد بن خویز منداد نے ” احکام القرآن “ میں اس کو ذکر کیا ہے۔۔۔ ابو عثمان نہدی نے کہا : میں اس گھڑی کو جانتا ہوں جب اللہ تعالیٰ ہمارا ذکر کرتا ہے، ان سے پوچھا گیا تم یہ کیسے جان لیتے ہو ؟ ابو عثمان نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فاذکرونی اذکرکم (تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا) سدی نے کہا : جو بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرت ا ہے، جو مومن اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے یاد کرتا ہے اور کوئی کافر اسے یاد نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اسے عذاب سے یاد کرتا ہے۔ ابو عثمان سے پوچھا گیا کہ ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن ہم اپنے دلوں میں کوئی مٹھاس اور ذوق نہیں پاتے ؟ ابو عثمان نے کہا : تم اللہ تعالیٰ کی اس پر حمد کرو کہ اس نے تمہارے ظاہری اعضاء کو اطاعت کے ساتھ مزین کیا۔ حضرت ذوالنون مصری نے کہا : جس نے حقیقۃً اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا وہ اپنے پہلو میں ہر چیز کو بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ہر چیز کی حفاظت کی اور اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر چیز سے عوض ہوگا۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے کہا : ابن آدم نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے، اللہ تعالیٰ کے ذکر سے زیادہ نجات دینے والا ہو۔ ذکر کی فضیلت اور اس کے ثواب میں احادیث کثیر ہیں جن کو ائمہ حدیث نے ذکر کیا ہے۔ ابن ماجہ نے حضرت عبد اللہ بن بسر سے روایت کیا ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : اسلام کی شرائع (احکام) بہت سے ہیں مجھے ان میں سے کوئی ایسی چیز بتائیں جس کو میں مضبوطی سے پکڑلوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تیری زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اور ان کے ہونٹ میرے ذکر کے ساتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اس عنوان کی احادیث اور ذکر کا مزید بیان یایھا الذین امنوا اذکروا اللہ ذکرا کثیرا۔ (احزاب) کے تحت آئے گا ذکر سے مراد دل کا ذکر ہے جو عمومی حالات میں ہمیشہ رہنا واجب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واشکروالی ولا تکفرون۔ فراء نے کہا : کہا جاتا ہے : شکرتک وشکرت لک نصحتک و نصحت لک۔ پہلا فصیح ہے۔ شکر کا مطلب احسان کو جاننا اور اس کو بیان کرنا ہے اس کا لغوی معنی ظاہر ہونا ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ بندے کا اللہ تعالیٰ کا شکریہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کو یاد کرکے اس کی ثنا کرے اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کا شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت پر اپنے بندے کی تعریف فرماتا ہے مگر بندے کا شکر زبان سے اور دل سے طاعات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے انعام کو یاد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تکفرون یہ نہی ہے اسی وجہ سے جمع کا نون حذف کیا گیا ہے اور یہ نون متکلم کا ہے اور یا کو حذف کیا گیا کیونکہ یہ آیت کا سرا ہے اور غیر قرآن میں اس کا اثبات احسن ہے، یعنی میری نعمت اور میرے احسان کا انکار نہ کرو۔ یہاں کفر سے مراد جھٹلانا نہیں بلکہ نعمت کا چھپانا ہے۔ کفر کے لغوی معنی کی تحقیق گزر چکی ہے اور صبر اور نماز سے استعانت کا معنی بھی گزر چکا ہے۔ اس لئے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
Top