Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا
[ وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم لوگوں نے قتل کیا [ نَفْسًا : ایک جان کو ] [ فَادّٰرَءْتُمْ : تو الزام اک دوسرے پر ڈالا ] [ فِيْهَا ۭ : اس میں ] [ وَاللّٰهُ : اور اللہ ] [ مُخْرِجٌ : نکالنے والا تھا ] [ مَّا : وہ جو ] [ كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ : تم لوگ چھپاتے تھے ] اللغۃ [ وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا ] جو ” وَ “ (اور) + ” اِذْ “ (جب) + ” قَتَلْتُمْ “ (تم نے قتل کیا) + ” نَفْسًا “ (ایک جان یعنی شخص کو) کا مرکب ہے اس جملے کے تمام اجزاء کے معنی اور استعمال پر اس سے پہلے بات ہوچکی ہے چاہیں تو تفصیل کے لیے دیکھ لیجئے : ” وَ “ کے لیے [ 1:4:1 (3)] ” اِذْ “ کے لیے [ 2:12:1 (1)] ” قتلتم “ (قتل یقتل) کے لیے [ 2:34:1 (4)] اور ” نَفْسًا “ کے لیے [ 2:8:1 (4)] یہاں مترجمین نے ” نفس “ (نفسًا) کا ترجمہ ” ایک جان، شخص، آدمی “ سے کیا ہے۔ بعض نے صرف ” ایک “ کرکے فعل قتلتم کا ترجمہ ساتھ ” خون کردیا “ کیا ہے یعنی ” ایک خون کردیا “ باقی حضرات نے ” قتلتم “ کا ترجمہ ” مار ڈالا تم نے، مار ڈالا تھا، قتل کیا ناقتل کر ڈالا تھا “ کی صورت میں کیا ہے۔ تمام تراجم ہم معنی ہی ہیں اور یہاں ” تم نے قتل کیا، کا مطلب ہے تمہارے اندر قتل ہوا۔ کیونکہ سب نے مل کر اسے قتل نہیں کیا تھا، نیز دیکھئے حصہ ” الاعراب “۔ 2:45:1 (1) [ فَادَّارَئْتُمْ فِیْھَا ] (یہاں ” فادارء تم “ رسم املائی میں سمجھانے کے لیے لکھا گیا ہے رسم عثمانی پر بات آگے ” الرسم “ میں ہوگی) اس میں آخری ” فیھا “ (فی+ھا) کا ترجمہ تو ہے ” اس کے بارے میں “ یہاں ضمیر مؤنث (ھا) ” نفس “ کے لیے ہے جو مؤنث سماعی ہے۔ ” فَادَّارَئْ تُمْ “ کی ابتدائی ” فَائ “ (فَ ) تو عاطفہ (بمعنی پھر : پس) ہے۔ باقی فعل ” اِدّارَئْ تُمْ “ ہے۔ اس کا مادہ ” درئ “ اور وزن اصلی ” تَفَاعَلْتَم “ ہے۔ اس کی اصلی شکل ” تدارَئْ تُم “ تھی۔ عربوں کے تلفظ کا طریقہ یہ ہے کہ باب تفاعل میں فاء کلمہ اگر ت ث رذز س ص ط ظ میں سے کوئی ایک حرف ہو تو ” تفاعل “ کی ” ت “ کو بھی اسی حرف میں بدل کر بولتے ہیں۔ اس طرح (مثلاً اسی) ” تدارَئْ تُمْ “ سے ” دَدَارَئْ تُمْ “ بنے گا۔ جس میں مضاعف کے قاعدہ کے مطابق ایک ” د “ دوسری ” د “ میں مدغم کرنے سے ایک مشدد (تشدید والی) ” دّ “ پیدا ہوگی۔ یعنی اب یہ لفظ ” دّارَئْ تُمْ “ بنے گا۔ اب مشدد ” دّ “ کو پڑھنے کے لیے ابتداء میں ایک ہمزۃ الوصل لگا دیا جاتا ہے جو مکسور پڑھا جاتا ہے اور یوں یہ لفظ ” اِدّارَئْ تُمْ “ لکھا اور بولا جاتا ہے یعنی ” تدارَئْ تُمْ = وَدَارَئْ تُمْ = اِدّارَئْ تُمْ “ یہاں زیر مطالعہ آیت میں اس لفظ کے شروع میں ” فَ “ ہے جس کی وجہ سے ” فَادّرَائْ تُمْ “ میں ہمزۃ الوصل پڑھنے میں نہیں آتا (مگر لکھا ضرور جاتا ہے) ۔ ؤ بعض علمائے صرف ” تفاعل “ کی اس تبدیل شدہ صورت کو مزید فیہ کا ایک مستقل باب سمجھتے ہیں یعنی ” اِفَاعَلَ یَفَّاعَلُ اِفَّاعُلًا “ (مثلاً علم الصرف (للسورتی) ص 24) تاہم باب ” تفاعل “ میں مذکورہ بالا تبدیلی لازمی نہیں ہے۔ مثلاً زیر مطالعہ لفظ کو اپنی اصلی شکل میں ” فَتَدَارَئْ تُمْ “ بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ مگر قرآن کریم کی قراءت میں روایت کی پابندی کی جاتی ہے۔ یعنی جس طرح کسی لفظ کا پڑھنا صحابہ ؓ سے ثابت ہے اسی طرح پڑھا جاتا ہے محض معنی اور گرامر کی بنا پر لفظ نہیں بدلا جاسکتا۔ یہاں زیر مطالعہ آیت میں یہ لفظ اسی طرح مادہ کے حروف کی تبدیلی کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ ؤ اس ثلاثی مادہ (درئ) سے فعل مجرد ” دَرَأٌ … یَدْرَؤُ دَرْأُ “ (فتح سے) آتا ہے اور اس کے ساتھ بنیادی معنی ہیں : …کو ہٹا دینا یا زور سے ہٹا دینا۔ پیچھے دھکیل دینا۔ مثلاً دَرَأَہٗ = اس نے اس کو ہٹا دیا۔ اور درَأہٗ الیہ ولہ (یعنی ” اِلی “ یا لام کے صلہ کے ساتھ) اس نے اس کو اس کی طرف چلایا۔ “ اس کے علاوہ یہ فعل ” آگ کا روشنی دینا، کسی چیز کو پھیلانا “ اور بطور فعل لازم ” اچانک نکل آنا اور ستارے کا چمکنا “ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کل تین صیغے چار جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ یہ فعل ” ہٹا دینادور کردینا “ والے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ البتہ ایک جگہ (النور :25) میں ایک اسم مشتق ” دُرَّیٌّ“ کے بارے میں امکان ہے کہ وہ ” چمکنے والے “ م عنی کے لحاظ سے اس مادہ سے لیا گیا ہو۔ اس پر مزید بات اپنے موقع پر ہوگی ان شاء اللہ۔ ؤ زیر مطالعہ صیغہ فعل ” اِدّرَئْ تُمْ “ اس مادہ (درئ) سے باب تفاعل کا فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے باب تفاعل کے اس فعل ” تَدارَأَ یَتَدَارَؤُ تَدَارَأَ “ کے بنیادی معنی ہیں : باہم ایک دوسرے کی طرف دھکیلنا یعنی کسی الزام وغیرہ کو اپنے سے ہٹا کر دوسرے پر ڈالنا۔ “ اور چونکہ اس باب کی ایک خاصیت ” مشارکت “ ہے اس لیے اس کا فاعل واحد نہیں آتا بلکہ کم از کم دو آدمی ہوں گے یعنی کہیں گے ” تدارء الرجلان “ (دو آدمیوں نے الزام کو ایک دوسرے کی طرف دھکیلا) جیسے تفاخر الرجال = باہم فخر کیا اور تشابہ الرجلان = باہم ملتے جلتے ہوئے وغیرہ میں ہے۔ ؤ اس طرح ” فادّرَئْتُمْ “ کا ترجمہ تو ہوتا۔ “ تم نے باہم ایک دوسرے کی طرف ہٹایا : دھکیلا “ چونکہ ان زیر مطالعہ آیات میں کسی شخص کے قتل (وإذ قتلتم نفسًا) اور اس کے الزام کو اپنے سے ہٹا کر دوسرے پر ڈالنے کا ذکر ہے اور ” فیھا “ میں اس کی طرف اشارہ بھی موجود ہے۔ اس لیے بعض اردو مترجمین نے اس عبارت (فادرائتم فیھا) کا ترجمہ ” پھر لگے ایک دوسرے پر دھرنے : ایک دوسرے پر دھرنے لگے “ سے کیا ہے مگر اس پر محاورہ کی خاطر ” فیھا “ کا ترجمہ نظر انداز کرنا پڑا ہے۔ بعض حضرات نے اسی کا ترجمہ ” پھر ایک دوسرے پر اس کو ڈالنے لگے : تو ایک دوسرے پر اس کی تہمت ڈالنے لگے “ کیا ہے۔ اس ترجمے میں ” فیھا “ کا مفہوم ” اس کو “ اور ” اس کی تہمت “ کی صورت میں شامل کیا گیا ہے جو محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر لفظ سے ہٹ کر ہے۔ ؤ اور چونکہ ” ایک دوسرے پر دھکیل دینا، دھرنے لگنا اور ڈالنے لگنا “ میں ” جھگڑنے لگ جانا “ کا مفہوم موجود ہے۔ اس لیے بعض مترجمین نے اس (فأدارئتم فیھا) کا ترجمہ ” اور لگے اس کے بارے میں جھگڑنے : تو اس میں باہم جھگڑنے لگے : پھر تم آپس میں اس باب میں جھگڑنے لگے “ سے کیا ہے۔ ان ترجموں میں ” فیھا “ کا ترجمہ ” اس میں، اس بارے میں “ اور ” اس باب میں “ کی صورت میں کیا گیا ہے جو اصل لفظ سے زیادہ قریب ہے۔ باب تفاعل کی ” مشارکت “ والی بات کو ” باہم “ اور ” آپس میں “ کے الفاظ سے واضح کیا گیا ہے اور یہ تینوں ترجمے اس لحاظ سے زیادہ بہتر ہیں --- البتہ بیشتر مترجمین نے ترجمہ میں ” فادارء تم “ کی ضمیر فاعلین ” انتم “ کا ترجمہ (تم) کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی (ماسوائے ایک آخری ترجمہ کے) ۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس سے پہلے (” واذ قلتم نفساً “ کے) ” قتلتم “ کے ترجمہ میں ” تم “ آچکا تھا۔ (اور وہاں تو سب نے ” تم “ استعمال کیا ہے) اس لیے اردو محاورے کے مطابق ” ادّارء تم “ کے ترجمہ میں ” دھرنے لگے : ڈالنے لگے “ (وغیرہ) سے پہلے دوبارہ ضمیر ” تم “ لگانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ البتہ جس مترجم نے اس ضمیر کو بھی استعمال کیا ہے تو اس سے ترجمہ مزید واضح ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ اردو میں ” دھرنے لگے “ وغیرہ کی ضمیر مفاعلین ” وہ سب، تم سب “ اور ” ہم سب “ ہوسکتی ہے۔ جب کہ عربی میں یہ صورت نہیں ہے بلکہ صرف ” انتم “ ہے یعنی ” تم “ ہی۔ ؤ [ وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ] وَاللّٰہُ ۔ اور اللہ تعالیٰ ” مُخْرِجٌ“ کا مادہ ” خ ر ج “ اور وزن ” مُفْعِلُ “ ہے۔ یعنی یہ اسی مادہ سے باب افعال کے فعل (اَخْرَجَ یُخْرِجُ = نکالنا، باہر نکلنا) سے صیغۂ اسم الفاعل ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (خرَج یَخْرُجُ = نکلنا) اور اسی باب افعال کے فعل کے معنی و استعمال پر البقرہ :22 [ 2:16:1 (11)] میں بات ہوچکی ہے۔ ؤ ” مُخْرِجٌ“ باب افعال سے فعل کا اسم الفاعل ہے اور اس کے لفظی معنی تو ہیں : ” باہر نکالنے والا “ چونکہ یہاں (جیسا کہ اگلی آیت میں بیان ہوا ہے) کسی چھپی ہوئی بات یا راز کے نکلانے کا ذکر ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ” کھول دینا، ظاہر کرنا یا فاش کرنا “ سے بھی ہوسکتا ہے۔ پھر بعض مترجمین نے تو اسم الفاعل کے ساتھ اس عبارت (وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ) کا ترجمہ ” اللہ کھولنے والا تھا “ ، ” اللہ ظاہر کرنے والا تھا “ سے کیا ہے۔ جبکہ بیشتر حضرات نے اردو محاورے کو سامنے رکھتے ہوئے “ اللہ کو ظاہر کرنا تھا : ظاہر کردینا تھا : فاش کرنا تھا۔ “ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ ایک آدھ مترجم نے مصدری ترجمہ کے ساتھ ” اللہ کا منظور تھا “ لگا کر کیا ہے یعنی ” اللہ کو منظور تھا ظاہر کرنا : کھولنا : فاش کرنا “ وغیرہ کے ساتھ یہ سب تراجم محاورہ اور مفہوم کی بناء پر ہی درست قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ اسم الفاعل کے ساتھ ترجمہ کرنے والے اصل عبارت سے قریب رہے ہیں۔ اور مفہوم سمجھنے میں بھی کوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی۔ ان تمام تراجم میں صیغہ ماضی ” تھا “ کے لانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک قصہ کا بیان ہے جس کا تعلق عہد ماضی سے ہے ایسے موقع پر جملہ اسمیہ کا ترجمہ بصیغہ ماضی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ سیاق عبارت کا تقاضا ہوتا ہے۔ ؤ [ مَا کُنْتُمْ تَکْتَمُوْنَ ] یہ پورا جملہ مع تشریح کلمات (جدا جدا) اس سے پہلے البقرہ :33 [ 2:24:1 (3)] میں گزر چکا ہے اور اس کے تراجم بھی وہاں (الاعراب میں) لکھے گئے تھے جن میں بعض نے کنتم کو فعل ” کان ناقصہ “ کی صورت میں ” ہو “ اور ” تھے “ سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے بوجہ قصہ اس کا ترجمہ ماضی استمراری کے ساتھ کیا ہے۔
Top