Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب تم لوگوں نے ایک بندہ قتل کردیا پھر اس پر تمہارے اختلافات پیدا ہوئے اور جو بات تم چھپانا چاہتے تھے ، اللہ اس کو ظاہر کرنے والے تھے
آیات 72- 80 اسرارو معارف پھر اس بات کو یاد کرو جب تم نے یعنی تمہارے اجداد نے ایک قتل کردیا اور ایک دوسرے کو الزام دینے لگے مگر جس شئے کو تم چھپانا چاہتے تھے اللہ اسے ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ یہاں تقدیم وتاخیرواقع نہیں ہے کہ قتل تو پہلے ہوا اور پھر گائے کے ذبح کا حکم اور واقعہ ہوا مگر اللہ کریم نے پہلے گائے کا واقعہ ارشاد فرمایا اور بعد میں قتل کا۔ اس کا باعث یہ ہے کہ یہاں بنی اسرائیل پر احسان ارشاد ہو رہے ہیں تاریخ دہرانا مقصود نہیں ۔ تو گائے کا واقعہ اس لحاظ سے پہلے بیان ہونا چاہیے کہ دیکھ لو کس بےدلی سے اوپر طرح طرح کی باتیں کرکے تم نے گائے ذبح کی مگر ہماری عنایات اور ہمارے کرم کو دیکھو کہ اس سے تمہیں وہ مقصد حاصل ہوگیا یعنی قاتل کا پتہ چل گیا۔ جو تمہارے اس بےدلی کے عمل سے ہونا تو نہ چاہیے تھا مگر ہم نے حکم دیا کہ گائے کا کوئی حصہ گوشت کا کوئی ٹکڑا اس کے جسم سے لگائو گوشت کا مس ہونا تھا کہ مردہ اٹھ بیٹھا اور ساری بات اپنی زبان سے بتا کر مرگیا۔ اس سے نہ صرف قاتل کا پتہ چل گیا بلکہ قدرت باری کا ایک اور مظہر تمہارے سامنے آیا اور تم نے اپنی آنکھوں سے مردے کو زندہ ہوتے اور باتیں کرتے دیکھا اور سنا۔ اسی طرح اللہ قادر ہے قیامت کے تمام مردوں کو زندہ کرے گا۔ تمہارے لئے کس قدر غور کرنے کا مقام ہے۔ یہاں یہ نہ سوچا جائے کہ اللہ قادر ہے تو خود ہی بغیر کسی گائے وغیرہ کے ذبح کے مردہ اٹھ بیٹھتا اور بتا دیتا کہ یہ درست ہے ، اللہ چاہتا تو یہ بھی ہوجاتا مگر ایک قانون ہے اللہ کا کہ دنیا کے امور اسباب سے متعلق فرمائے گئے ہیں یہاں گائے کا ذبح ایک سبب بنا۔ جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا مگر ترک سبب نہ فرمایا اور جبرائیل (علیہ السلام) کو حکم دیا جاکر دم کردو۔ یا کفار کی آنکھیں ریت سے بھردیں۔ مگر نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ مٹھی بھر ریت پھینکئے تو سہی ، اگر مثالیں دی جائیں تو مضمون لمبا ہوجائے گا۔ غرض اصلی یہ عرض کرنا ہے کہ ہر کام کے لئے اسباب اختیار کرنا ضروری ہے۔ توکل کی حقیقت : اسباب اختیار کرکے نتائج کی امید اللہ سے رکھنا توکل ہے اور جو نتیجہ بھی ظاہر ہو۔ اگر مرضی کے مطابق ہو تو اس پر اللہ کی تعریف کرنا شکر ہے اور اگر مرضی کے خلاف ہو تو اس پر دل میں تنگی محسوس نہ کرنے اور حرف شکایت لبوں پر نہ لانے کا نام صبر ہے ترک سبب کرکے بیٹھ جانا ہرگز توکل نہیں۔ ثم قست قلوبکم من بعد ذالک۔ اس قدر معجزات اور اتنی عنایات دیکھنے اور پانے کے بعد بھی تمہارے دل پتھروں کی طرح سخت ہوگئے بلکہ قساوت میں پتھروں سے بھی بڑھ گئے۔ یہ قساوت یا نرمی وجودی شے نہیں بلکہ کیفی ہے کے نام ہے جو عالم امر سے لطیفہ قلب میں رکھی ہے اور جس کی بدولت دل خطاب الٰہی کا رتبہ پاتا ہے اور جمال باری سے سیراب ہوتا ہے اور پھر خلق خدا کو سیراب کرتا ہے بعض اس کی وجہ سے ہدایت پاتے ہیں اور جو ہدایت نہیں پاتے دنیاوی نعمتیں وہ بھی انہی زندہ دلوں کے صدقے میں کھاتے ہیں کہ جب کوئی دل زندہ نہ رہا یہ جہاں ہی نہ رہے گا ، اور قیامت برپا ہوگی۔ تو جو دل اللہ کی عظمت کا احساس کھوبیٹھا اور یادالٰہی سے خالی ہوا تو پتھروں سے بھی گیا گزرا ہے کہ بعض پتھروں اور چٹانوں سے نہریں جاری ہیں جو ایک عالم کی سیرابی و شادابی کا باعث بنتی ہیں یا پھر بعض سے کم پانی نکلتا ہے مگر کسی نہ کسی درجہ میں خلق خدا کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس سے کم تردرجہ میں وہ پتھر بھی ہیں جو بعض اوقات محض خشیت باری سے اور عظمت الٰہی کے خوف سے گر پڑتے ہیں ، چلو روحانی نہ سہی دنیا کے لئے مادی فوائد کا سبب تو بنتے ہیں تم تو ان سے بھی گئے گزرے ہو کہ تمہاری قساوت قلبی نے لوگوں کو مادی طور پر بھی دکھ اور مصیبت ہی ہی دی ہے کہ دنیا میں فساد پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ افتطمعون ان یومنوا لکم۔۔۔ وھم یعلمون۔ اب اے مسلمانو ! کیا تما ی سے مردہ دلوں سے ایمان کی امید رکھتے ہو ، حالانکہ اس مردہ دلی سے بڑھ کر اس قدر خواہشات نفسانی کے ا سیر ہیں کہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے اللہ کے کلام کو سنا ، سمجھا اور پھر جان بوجھ کر اسے اپنے مطلب کے مطابق تبدیل کرلیا مقصد یہ ہے کہ بےعلمی کا گناہ بھی گناہ ہے مگر جانتے ہوئے محض اپنی غرض پوری کرنے کو تاویلات باطلہ کا سہارا لینا اور اللہ کے کلام کو بدل دینا یا اس کا مفہوم غلط بیان کرنا اس قدر گری ہوئی باطنی کیفیت کو ظاہر کر رہا ہے کہ ایسے لوگوں کو کبھی ایمان صیب ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ یہاں صرف قصہ خوانی مقصود نہیں بلکہ ان بیہودہ کو جن کے آباؤ اجداد کے یہ افعال تھے اور جن پر وہ بھی ناراض تھے متنبہ کیا جارہا ہے ۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی شریعت سے یہ سلوک کیا تو اس درجہ ذلیل ہوگئے دھیان رکھنا تمہارے پاس تو محمد رسول اللہ اور ان کی شریعت ہے۔ خدا ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا۔۔۔ وما یعلنون انہی کا حال بیان فرماتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا کہ یہ ایسے بدبخت ہیں جو نہ صرف خود کو مذہب اور ہم مذہبوں کو دھوکا دیتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی دھوکے میں رکھتے ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان تک کر گزرتے ہیں مگر جب آپس میں جمع ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو ۔۔۔ کرتے ہیں کہ ایسی باتیں مسلمانوں سے کیوں کہہ دیتے ہو جو اللہ نے توریت کے ذریعے تم پر منکشف فرمائی ہیں کہ بعض یہودی یہ باتیں کر گزرتے تھے۔ نزولقرآن یا بعثت نبوی یا آپ ﷺ کا اتباع کرنے کی تاکید یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف و توصیف تورات میں اس طرح مذکور ہے تو وہ یہ کہتے کہ یہ باتیں کرکے تم اپنے خلاف ایک مضبوط دلیل مسلمانوں کے ہاتھ دے رہے ہو جو تمہیں آج دنیا میں بھی اور کل اللہ کی بارگاہ میں بھی مغلوب کردیں گے تمہیں اتنی بھی عقل نہیں۔ فرمایا یہ تو اس قدربودی عقل کے مالک ہوئے ہیں کہ یہ نہیں جان رہے کہ تم جس رب سے چھپانا چاہتے ہو وہ تو ایسا قادر ہے کہ اس کا علم اس قدر مکمل اور جامع ہے کہ تم کسی بات کو ظاہر کرو یا چھپائو وہ ہر حال میں جانتا ہے۔ یہ سب اثرات قساوت قلبی کے ہیں کہ جب دل سیاہ ہو کر سخت ہوجاتا ہے تو جسم سارے کا سارا غلط سمت کو چل نکلتا ہے ، ہاتھ پائو ہی نہیں بلکہ دماغ تک الٹی سمت رواں ہوجاتے ہیں اور عقل اندھی ہوجاتی ہے نہ صرف انسانوں سے بلکہ اللہ سے بھی دھوکا کرنے سعی ہوتی ہے حالانکہ یہ کتنی موٹی بات ہے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور اس سے کچھ چھپانا ممکن ہی نہیں مگر یہ بات بھی عقل میں نہیں آتی بلکہ لوگ دو طرح سے بن جاتے ہیں۔ جیسے آگے یہود کے دو طبقوں کے حالات ارشاد ہوتے ہیں۔ کہ ایک طبقہ تو ان میں ناخواندہ اور جہلاء کا ہے لا یعفو والکتاب ، جو اللہ کی بات کی عزت عظمت اور برکات سے ناآشنا ہیں اور محض اپنی خواہشات کی تکمیل کے حیلوں کو مذہب کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ اپنے زعم میں تو اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی ان کا وہم ہی ہے حقیقتاً وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے یہ تو سادہ سی بات ہے کہ جب ان کے دل سے اللہ کی کتاب کی عظمت گئی اللہ کی بارگاہ سے ان کی عزت ختم ہوگئی اور کوئی حیثیت نہیں رہی۔ دوسرے وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں جو کتاب اللہ کی آیات بدل دیتے ہیں اپنے ہاتھ سے لکھ لیتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ غرض روپیہ بٹورنا اور ذاتی وقار کو قائم رکھنا ہے مثلاً اسی موضوع پر کہ آپ ﷺ کی وہ تعریف جو ان کے ہاں مذکور ہے اپنی قوم کو نہیں بتاتے پھر حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنادیتے ہیں محض حیلے بہانے کرکے غرض اصلی دنیا ہے دین نہیں ہے تو ان پر دوہری مار پڑگئی۔ ایک کلام الٰہی میں تحریف کرنے اور دوسرے لوگوں کا مال ناجائز طریقے پر کھانے کی۔ یہی حال ہمیشہ سے علمائے سو کا رہا ہے کہ کتابیں پڑھتے ہیں مگر دل اندھے رہتے اور پھر مقصد حیات بدل جاتا ہے کہ رضائے باری کی جگہ حصول دنیا لے لیتی ہے اور ان کا علم چند ٹکوں کے عوض بکتارہتا ہے یہاں تک کہ غلط سلط مسائل گھڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے خوف نہیں کھاتے۔ قالوالن تمسنا النار……………ھم فیھا خالدون۔ بایں ہمہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں آگ نہ چھوئے گی اگر گناہوں کے عوض دوزخ جانا پڑا تو وہ محض چند روز ہوگا کہ بوجہ ایماندار ہونے کے ہمیشہ دوزخ میں نہ رہیں گے یعنی حال یہ ہے کہ سارا دین بدل کر رکھ دیا حلال و حرام کو خلط ملط کردیا۔ جہلاء نے رواج کو دین کا درجہ دے رکھا ہے اور علماء ہیں کہ اپنی طرف سے مسائل گھڑتے چلے جا رہے ہیں جو صریحاً کتاب کی خلاف ورزی بھی ہے مثلاً تورات میں بھی تو حضور نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کا حکم موجود تھا آپ ﷺ کے اوصاف بلکہ آپ کے خدام کے اوصاف موجود تھے ان ساری باتوں سے ہٹ کر ہنوز اپنے آپ کو آگ سے بری خیال کرتے ہیں تو ان سے ذرا یہ تو فرمائیے کہ تمہاری ذات سے اللہ کا کوئی وعدہ ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ لیکن اگر بات ذات کی نہیں صفات کی ہے تو ایمانداروں کے سارے اوصاف تم میں ناپید ہیں پھر تو تم اللہ پر بھی بہتان تراشی کر رہے ہو کہ ان عقائد باطلہ کے ساتھ تمہیں بخش دے گا۔ اللہ اللہ یہ کیسی تصویر کشی ہے آج کے گمراہ معاشرے کی جو اپنے کرتوتوں کے ساتھ اپنے اسلام کا بھی مدعی ہے۔ فرمایا میاں ! سیدھی سی بات ہے کہ کسے باشد ، کوئی بھی ہو عالم ہو یا جاہل ، مرد ہو یا عورت شاہ ہو یا گدا ، جو برائی اور خطا کوئی کرتا رہے اور یہاں تک کہ وہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن جائے اور اس میں نیکی کا اثر تک نہ رہے وہ دوزخ کا رہنے والا ہے جہاں ابد تو رہے گا کہ گناہ کی زد آخر ایمان پر پڑتی ہے اگر کوئی مسلسل گناہ کرتا رہے تو ایک روز اس کا عقیدہ بھی چلا جاتا ہے جب عقیدہ گیا تو پہلی نیکیاں بھی ضائع ہوگئیں اور آئندہ اگر کوئی اچھا کام بھی کر بیٹھاتو عنداللہ مقبول نہ ہوا تو گویا اس کے وجود میں ذرہ برابر نیکی کا اثر باقی نہ رہا۔ اور وہ ہمیشہ کا دوزخی بن گیا۔ ہاں ایسے لوگ والذین امنوا……جو نبی ﷺ کی بات پر یقین رکھتے ہیں توحید ، کلام باری ، دین خدا یا طریق عبادت فرائض ہوں یا نوافل سب کیا ہے ؟ ارشادات رسول ﷺ دنیا ہو کہ عقبیٰ ، جنت ہو یا دوزخ ، حشر ہو کہ نشر یا میزان سے تمام امور اور ان سے متعلق علم اور عقیدہ ، یہ سب کیا ہے ؟ محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کا نام ہے۔ تو جو صدق دل سے اس پر یقین کرے اور عملاً اپنے کو حضور ﷺ کے احکام کا تابع بنالے وہ عملوالصلحت کو اچھے کام کرے تو اچھا کام بھی سنت خیرالانام ﷺ کا ہی نام ہے۔ سو جس میں ایمان ہو اور نیکی کرے۔ وہ ہے جنت کے قابل اور ایسے لوگوں کو جنت نصیب ہوگی جہاں وہ ابدالآباد رہیں گے۔
Top