Mufradat-ul-Quran - Al-Waaqia : 86
فَلَوْ لَاۤ اِنْ كُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِنْ كُنْتُمْ : اگر ہو تم غَيْرَ مَدِيْنِيْنَ : نہیں اختیار میں۔ نہیں جزا دیئے ہوئے۔ زیر فرمان
پس اگر تم کسی کے بس میں نہیں ہو
فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْـنِيْنَ۝ 86 ۙ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے مَدِينِينَ فَلَوْلا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ [ الواقعة/ 86] ، أي : غير مجزيّين . والمدین والمدینة : العبد والأمة : قال (أبو زيد) : هو من قولهم : دِينَ فلان يُدَانُ : إذا حمل علی مکروه وقیل : هو من دنته : إذا جازیته بطاعته، وجعل بعضهم المدینة من هذا الباب . اور آیت کریمہ : ۔ فَلَوْلا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ [ الواقعة/ 86] میں غیر مدینین کے معنی غیر مجزیین کے ہیں ۔ یعنی اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا نہیں دی جائے گی المدین والمدینۃ ( ایضا ) کے معنی غلام اور لونڈی کے بھی آتے ہیں ۔ ابو زید نے کہا ہے کہ یہ دین فلان یدان سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی ناپسند کام پر مجبور کئے جانیکے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ دنتہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی طاعت کی جزا دینے کے ہیں بعض نے لفظ مدینۃ ( شہر ) بھی اسی معنی سے لیا ہے
Top