Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ
: کیا نہیں دیکھا آپ نے
اِلَى
: طرف
الَّذِيْ
: وہ شخص جو
حَآجَّ
: جھگڑا کیا
اِبْرٰھٖمَ
: ابراہیم
فِيْ
: بارہ (میں)
رَبِّهٖٓ
: اس کا رب
اَنْ
: کہ
اٰتٰىهُ
: اسے دی
اللّٰهُ
: اللہ
الْمُلْكَ
: بادشاہت
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
: ابراہیم
رَبِّيَ
: میرا رب
الَّذِيْ
: جو کہ
يُحْيٖ
: زندہ کرتا ہے
وَيُمِيْتُ
: اور مارتا ہے
قَالَ
: اس نے کہا
اَنَا
: میں
اُحْيٖ
: زندہ کرتا ہوں
وَاُمِيْتُ
: اور میں مارتا ہوں
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
:ابراہیم
فَاِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يَاْتِيْ
: لاتا ہے
بِالشَّمْسِ
: سورج کو
مِنَ
: سے
الْمَشْرِقِ
: مشرق
فَاْتِ بِهَا
: پس تو اسے لے آ
مِنَ
: سے
الْمَغْرِبِ
: مغرب
فَبُهِتَ
: تو وہ حیران رہ گیا
الَّذِيْ كَفَرَ
: جس نے کفر کیا (کافر)
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
لَا يَهْدِي
: نہیں ہدایت دیتا
الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
: ناانصاف لوگ
کیا آپ نے اس شخص کی طرف نہیں دیکھا ، جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ جھگڑا کیا تھا ، اس کے رب کے بارے میں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بادشاہی دی تھی ۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا پروردگار ہے ، جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ تو وہ شخص کہنے لگا ، میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔ ابراہیم نے کہا بیشک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی جانب سے لاتا ہے ، تم اس کو مغرب کی جانب سے لائو ، پس وہ شخص حیران ہوگیا جس نے کفر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والی قوم کو راہ نہیں دکھاتا
ربط آیات اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان اور کفار کا ذکر فرمایا تھا کہ اللہ ایمان والوں کا کار ساز ہے ، ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا ہے۔ ان کے ساتھ طاغوت یا شیطان ہیں ، جو انہیں ایمان کی روشنی سے نکال کر کفر کے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں ، گویا دو قسم کے گروہوں کا ذکر ہوا ۔ ایک اولیاء الرحمن یعنی وہ لوگ جن کا ولی اللہ تعالیٰ خود ہے۔ وہ رحمن کے دوست ہیں اور دوسرا گروہ اولیاء الشیطان کا ہے ، جنہوں نے طاغوت کو اپنا دوست بنا رکھا ہے۔ آج کے درس سے شروع ہونے والے رکوع میں اللہ جل جلالہٗ نے انہیں دو قسم کے گروہوں کے متعلق بات کی وضاحت کے لیے تین مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ ج میں مسئلہ توحید ، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حیات بعد الموت کا مسئلہ اچھی طرح سے سمجھایا ہے۔ پہلی آیت میں اللہ نے اپنی قدرت اور ضعف کو سمجھایا ہے اور ساتھ توحید خالص کی وضاحت فرمائی ہے ۔ دوسری اور تیسری آیت میں مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا مسئلہ بیان فرمایا ہے اور توحید کا ذکر کیا ہے اس طرح ان آیات کو پہلی آیات کے ساتھ ربط ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود میں مناظرہ آج کے درس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس مناظرے کا ذکر ہے ، جو انہوں نے بادشاہ وقت نمرود کے ساتھ کیا تھا اور جس میں آپ نے توحید باری تعالیٰ کے متعلق دلائل دیئے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ الم ترالی الذی حاج ابراہیم فی دربہ کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب کے متعلق جھگڑا کیا ۔ الم ترا اس سے پہلے بنی اسرائیل کے واقعہ میں بھی آ چکا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ رویت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک بصری اور دوسری قلبی یا علمی ، رویت بصری وہ ہے ، جسے آنکھوں سے دیکھا جائے اور پھر واقعہ بیان کیا جائے اور رویت علمی وہ ہے جو علم کے ذریعے حال ہو ، کسی واقعہ کو آنکھوں سے نہ دیکھا ہو ۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کا یہ واقعہ بھی حضور ﷺ کی بعثت سے تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے پیش آیا ۔ اس لیے رویت بصری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، البتہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا مشاہدہ علم کے ذریعہ کرایا اور اس کو اس طرح یاد کرایا ۔ الم تر کیا آپ نے نہیں دیکھا یا آپ کو نہیں معلوم ، مطلب یہ کہ آپ کو اچھی طرح اس واقعہ کا علم ہے کہ کس طرح اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے متعلق ابراہیم (علیہ السلام) سے مکالم کیا اور وہ شخص کون تھا۔ ان اتہ اللہ الملک جسے اللہ تعالیٰ نے ملک یعنی حکومت عطا کی ہوئی تھی وہ وقت کا بادشاہ تھا۔ نمرود کا شجرہ نسب اس شخص کے متعلق مختلف تفاسیر اور تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس کا نام نمرود 1 ؎ تھا۔ اس کے باپ کا نام کنعان بن کوش تھا ، لہٰذاوہ نمرود ابن کنعان کہلاتا تھا بعض اوقات اسے اپنے دادا کی طرف منسوب کر کے نمرود بن کوش بھی کہا جاتا ہے۔ بہر حال یہ شخص حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹوں حام ، سام اور یافث میں حام کی نسل میں سے تھا اور اس کا پایہ تخت عراق میں بابل کے مقام پر تھا۔ اس زمانے میں یہ بڑا مشہورو معروف شہر تھا۔ جو موجودہ بغداد سے ستر یا سو میل کے فاصلے پر تھا اس شہر سے بہت سی تہذ میں وابستہ ہیں ۔ نمرود ، کلدانی خاندان کا بادشاہ تھا۔ اس خاندان نے چار سو سال تک حکومت کی تفسیری روایات میں آتا ہے کہ نسل کے اعتبار سے یہ شخص ٹھیک نہیں تھا ، تا ہم یہ وہ شخص ہے ، جس نے سب سے پہلے سر پر تاج شاہی رکھا۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ چار شخص ایسے گزرے ہیں جن کی پوری دنیا پر حکمرانی تھی ، ان میں سے دو مسلمان تھے اور دو کافر مسلمان میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ذوالقرنین ہیں ۔ جن کا واقعہ سورة کہف میں ملتا ہے۔ کفار میں ایک نمرود اور دوسرا بخت نصر تھا۔ جس کا ذکر سورة بی اسرائیل میں آیا ہے۔ اس شخص نے بنی اسرائیل کو بالکل برباد اور ذلیل کردیا تھا۔ مناظرہ کب ہوا اس بات میں اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ مناظرہ ان کے آگ میں ڈالے جانے سے پہلے ہوا یا اس کے بعد بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ میں ڈالے جانے سے پہلے کا ہے جونہی ابراہیم (علیہ السلام) جوان ہوئے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کی تبلیغ شروع کردی ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اوائل عمر سے ہی رشد و ہدایت عطا کی تھی ۔ قرآن پاک میں موجود ہے ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ابتداء سے ہی رشد و ہدایت دی ۔ آپ کے والد آذر سرکاری ملازم تھے ، اس کے علاوہ وہ اس بڑے بت خانے کے انچارج تھے ۔ جسے بادشاہ کے حکم سے قائم کیا گیا تھا۔ یہ مناظرہ اس وقت ہوا اس کے بعد آپ کو آگ میں ڈالا گیا ۔ بعض دوسرے مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ مذکورہ مناظرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) 1 ؎۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 313 و قرطبی ص 283 ج 3 ۔ 2 ؎۔ تفسیر کبیر ص 23 ج 7 (فیاض) کے آگ میں ڈالے جانے کے بعد ہوا ، ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ سے زندہ بچ جانے کا معجزہ دیکھ کر بھی وہ آپ پر ایمان نہ لائے۔ فامن لہ لوط حضرت لوط (علیہ السلام) کے سوا کسی نے آپ کی تصدیق نہ کی ، البتہ گھر میں آپ کی بیوی سارہ تھی ۔ جسے ایمان کی دولت حاصل تھی ، ان ایام میں یہ مناظرہ ہوا ، آخر وہ وقت بھی آیا جب ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا وطن بابل بھی چھوڑناپڑا ۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ حضرت لوط (علیہ السلام) اور آپکی بیوی تھے۔ آپ عراق سے چل کر فلسطین پہنچے وہاں اپنے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تبلیغی مشن پر بحر لوط کے کنارے متعین کیا ، پھر آپ مصر پہنچے۔ وہاں سے مکہ مکرمہ پہچ کر بیت اللہ شریف کی تعمیر کی اور اپنے فرزند اسماعیل کو وہاں چھوڑا ۔ آپ واپس فلسطین آگئے اور وہیں آپ کا انتقال ہوا آپ کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) نے وہاں کے تبلیغی فرائض سنبھالے۔ مناظرے کا پس منظر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کے درمیا بحث و مباحثے کی نوبت کیوں پیش آئی ۔ اس کے متعلق مولانا شیخ الہند (رح) اور شاہ عبد القادر (رح) نے اپنی تفاسیر میں مختصر نوٹ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس سے پہلی آیت میں اہل ایمان اور اہل کفر کا تذکرہ تھا ۔ ان کے نور اور ظلمت کا بیان تھا اور اب اس آیت میں اسی سلسلہ میں بعض نظیریں پیش کی گئی ہیں اور اس پہلی نظیر میں نمرود اور حضرت ابراہیم کا ذکر ہے کہ جو کوئی شخص نمرود کے دربار میں جاتا تھا ۔ وہ سب سے پہلے اسے سجدہ کرتا تھا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) دربار نمرود میں پہنچے تو آپ سے بھی سجدہ کرنے کی توقع کی گئی مگر آپ نے نمرود کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، جس پر مناظرے کی مذکورہ صورت پیش آئی ۔ نمرود کا واقعہ تاریخ کی تمام پرانی کتابوں میں ملتا ہے مگر محض تاریخی روایات پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ تاریخ میں ہر قسم کے واقعات بلا تحقیق نقل کردیے جاتے ہیں ۔ پرانے مؤرخین میں ابن خلدون کو اونچا مقام حاصل ہے ، یہ آٹھویں صدی ہجری میں ہوئے ہیں اور تاریخ کے امام تصور کیے جاتے ہیں ۔ انہوں نے تاریخ کا ایک ضخیم مقدمہ قلمبند کیا ہے جس میں تاریخ کے مختلف موضوعات پر حاصل بحث کی ہے۔ اس نے پوری دنیا کو تاریخ کا فلسفہ سکھا دیا ہے ۔ یورپ اور ایشیاء کے تمام مؤرخین ابن خلدون کے شاگرد ہیں ۔ خود قاضی بھی تھے مگر تاریخی روایات کی صحت کے متعلق ان پر بھی مکمل انحصار نہیں کیا جاسکتا ، طبری کی تاریخ میں بھی صحیح اور غلط ہر قسم کے واقعات ملتے ہیں ۔ تاریخ دان کسی واقعہ کی پوری تحقیق نہیں کرتے ۔ یہ تو محدثین کو شرف حاصل ہے کہ کسی واقعہ کو نقل کرنے سے پہلے راویوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ ہر غلط ملط واقعہ درج نہیں کیا جاتا ، البتہ امام ابن کثیر (رح) نے اس ضمن میں کافی پیش رفت کی ہے ۔ آپ کا زمانہ آٹھویں صدی ہجری ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) کے شاگردوں میں ہیں ۔ آپ نے واقعات کی جانچ پڑتال کی کوشش کی ہے۔ روایات پر صحیح یا غلط ہونے کے متعلق جرح بھی کی ہے۔ آپ کی تاریخ کی کتاب ” البدایہ والنہایہ “ سولہ جلدوں میں ہے۔ جس میں آدم (علیہ السلام) سے سے لیکر اپنے زمانے تک کے واقعات تفصیل کے ساتھ قلمبند کیے ہیں ۔ یہ سب سے زیادہ مستند تاریخ تسلیم کی جاتی ہے ، بہرحال انہوں نے واقعات کی صحت کا کسی حد تک خیال رکھا ہے۔ آپ نے قرآن پاک کی ” تفسیر ابن کثیر “ لکھی ہے۔ جو اعلیٰ درجے کی تفسیر تسلیم کی جاتی ہے۔ تاریخی روایات کی صحت کی جانچ پڑتال میں امام مسعود بغوی (رح) کا نام سر فہرست ہے۔ آپ امام رازی (رح) سے بھی پہلے پانچویں صدی میں ہوئے ہیں ۔ آپ کا وطن خراسان میں بغات ہے۔ آپ اعلیٰ پائے کے محدث تھے۔ آپ کی حدیث کی کتاب ” مصابیح “ کے نام سے موجود ہے۔ جو علم حدیث کی بلندپایہ کتاب ہے۔ جسے صاحب مشکوٰۃ نے مزید شرح کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔ آپ مفسر قرآن بھی ہیں ۔ آپ کی تفسیر ” معالم التنزیل “ کے نام سے موجود ہے ، جو چار جلدوں میں ہے اور اس دور کی معتبر تفسیروں میں شمار ہوتی ہے ۔ بہر حال انہوں نے تاریخی واقعات میں صحت کا کسی قدر زیادہ التزام کیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کے واقعہ کے متعلق امام ابن کثیر (رح) اور امام بغوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے۔ جب کہ ملک میں قحط پڑگیا اور لوگ بھوکوں مرنے لگے ۔ اس وقت نمرود کے پاس غلے کا ذخیرہ موجود تھا ، لوگ اس کے پاس غلہ لینے کے لیے جاتے تھے ، اور دربار میں پہنچ کر سب سے پہلے سجدہ کرتے اور پھر اپنا مدعا بیان کرتے۔ اصل مناظرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی نمرود کے دربار میں پہنچے ، مگر آپ نے اسے سجدہ نہ کیا ۔ اس نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ نہیں کرتا ، نمرود نے کہا کہ رب تو میں ہوں لہٰذا مجھے سجدہ کرو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا ۔ تم محض حاکم وقت ہو ، رب نہیں ہو ، رب وہذات ہے ، جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ تمہارے اختیار میں یہ چیز نہیں ہے۔ لہٰذا تم رب نہیں ہوسکتے ۔ اس آیت پاک میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔ اذقال ابراھیم ربی الذی یحی ویمیت یعنی میرا رب ہے ۔ جو زندگی بخشتا ہے اور مارتا ہے نمرود فوراً بولا قال انا احی وامیت میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ، چناچہ اپنی طاقت کے مظاہرہ کے لیے اس نے دو قیدی منگوائے ۔ جو بےگناہ تھا اس کو قتل کروا دیا اور جو مجرم تھا اسے آزاد کردیا اور کہنے لگا ۔ دیکھو میں نے جس کو چاہا زندگی دے دی اور جسے چاہا موت کے حوالے کردیا ۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ یہ شخص عقل کا ایسا اندھا ہے کہ موت وحیات کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکا ۔ یہ گناہ گار کو چھوڑ دینے اور بےگناہ کو قتل کردینے کو زندگی اور موت سمجھ رہا ہے ، حالانکہ زندگی کا مالک تو وہ ہے جو بےجان چیز میں جان ڈال دے اور جاندار کی جان اپنے اختیار سے قبض کرلے اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود کو بیوقوف سمجھتے ہوئے اس نکتہ پر مزید بحث نہ کی۔ بلکہ ایک دوسری دلیل سے سمجھایا۔ قال ابراہیم فان اللہ یاتی بالشمس من المشرق میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے۔ فات بھا من المغرب تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا ۔ اب اس کے حواس درست ہوئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ایسا سوال کیا ہے جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا فبھت الذی کفر نمرود حیران ہوگیا گویا اللہ نے اس کی مت مار دی وہ لا جواب ہوگیا ۔ چناچہ اس نے مزید بحث نہ کی ، وہ سمجھ گیا کہ اگر ابراہیم (علیہ السلام) سے مزید مناظرہ کیا تو بات بالکل بگڑ جائیگی اور وہ جھوٹا ثابت ہوجائے گا لہٰذا وہ خاموش ہوگیا ۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ اس مقام پر مزید بحث و تمحیص ہو سکتی تھی فرض کرو اگر نمرود سورج کے طلوع و غروب کے متعلق ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ جواب دیتا کہ سورج کو مشرق سے تو میں طلوع کرتا ہوں تم اپنے رب سے کہو کہ مغرب سے نکالے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ یقینا ابراہیم (علیہ السلام) کو سچا کر دکھاتا اور سورج کو مغرب سے طلوع کردیتا ، مگر نمرود کو اپنی شکست کا یقین ہوگیا ، لہٰذا اس نے خاموشی اختیار کرنے میں یہ مصلحت جانی۔ غیر اللہ کو سجدہ غیر اللہ کو سجدہ کرنے کا دور برصغیر پاک و ہند میں بھی پیش آیا تھا۔ مغل بادشاہ جہانگیر بھی اپنے آپ کو سجدہ کرواتا تھا حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس کے سامنے سجدہ کیا جائے ۔ مخلوق میں سے کسی کے لائق نہیں کہ اسے سجدہ کیا جائے۔ چناچہ جہانگیر کے زمانے میں حضرت مجدد الف ثانی (رح) نے سجدہ کی علی الاعلان مخالفت کی ۔ بہر حال یہ آپ کی کوشش کا نتیجہ تھا کہ جہانگیر جیسا اکھڑمزاج بادشاہ بھی اس فعل سے تائب ہوگیا اور اس کا عقیدہ درست ہوگیا البتہ اسکی بیوی رافضیہ تھی ۔ مگر وہ رافضیوں کا طرفدار نہیں بنا اور صحیح دین اسلام پر قائم رہا ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ جہانگیر کے بعد شاہجان مزید دین کی طرف راغب ہوا اور پھر اور نگ زیب عالمگیر (رح) جیسا خوف خدا رکھنے والا بادشاہ بھی پیدا ہوا جس نے اگلی پچھلی ساری کسر نکال دی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ بہر حال جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اس نے آپ کو غلہ دینے سے انکار کردیا ۔ اور آپ کو خالی واپس آنا پڑا ، واپسی پر دل میں خیال آیا کہ گھر والوں کو خالی لوٹنے کا کیا جواب دونگا ۔ آپ نے راستے میں اپنا تھیلہ ریت سے بھر لیا تا کہ گھر والوں کو معلوم ہو کہ خالی ہاتھ واپس نہیں آئے ۔ گھر پہنچ کر تھیلہ گھر میں رکھا اور خود سو گئے بیوی نے سمجھا کہ آٹا لے آئے ہیں چناچہ وہ اٹھی تا کہ تھیلے میں سے آٹا لیکرروٹی تیار رکے تھیلہ کو کھولا تو اس میں واقعی آٹا تھا کھانا تیار کرنے کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کو جگایا کہ کھانا کھا لیں آپ نے پوچھا روٹی کس چیز سے پکائی ہے۔ بیوی نے عرض کیا ، اس آٹے سے جو آپ لائے ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص مہربانی کی ہے اور ریت کا آٹا بن جانا ایک معجزہ ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کو سمجھنا بڑا مشکل کام ہے۔ وہ کمال قدرت کا مالک ہے ، اس کی صفت اس کے فعل سے سمجھ میں آتی ہے ، جب کوئی عجیب و غریب فعل سر زد ہوتا ہے ، تو پھر پتہ چلتا ہے کہ یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور کوئی نہیں کرسکتا اور جب یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے تو پھر اس کی توحید کی پہچان ہوتی ہے کہ ایسی صفت کا مالک اور کمال قدرت اور کمال صفت کا مالک صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ گویا اس سارے واقعہ سے یہ بات نکلی کہ موت وحیات کا مالک اور نظام شمسی کو چلانے والا فقط اللہ تعالیٰ ہے ۔ وہ چاہے تو بڑے سے بڑا سرکش کو لا جواب کر دے اور چاہے تو ریت کو غلہ میں تبدیل کر دے ، یہ سب اس کی کمال قدرت کے کرشمے ہیں جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں۔ ظالم ہدایت سے محروم ہیں فرمایا اللہ تعالیٰ کی صفات کی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اگر کوئی شخص ایمان نہیں لاتا ، تو پھر وہ پرلے درجے کا ظالم ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے۔ واللہ لا یھدی القوم الظلمین اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا یعنی ان کی رہنمائی نہیں کرتا پہلی آیت میں بھی آ چکا ہے۔ والکفرون ھم الظلمون کہ کافر لوگ ہی ظالم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان نہیں لاتے۔ وہ مشرک ہیں اور شرک کی حقیقت یہ ہے۔ ان الشرک لظلم عظیم شرک بہت بڑا ظلم ہے اور اس کے مرتکب ظالم لوگ ہیں ۔ جو لوگ شرک جیسے ظلم عظیم میں پھنس جاتے ہیں ، اللہ ان کو راہ راست کی طرف رہنمائی نہیں کرتا ۔ یہ اللہ کا عام قانون ہے کہ جب تک کوئی ظلم سے ثابت نہیں ہوگا ، اسے ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی ۔ الغرض گزشتہ درس میں بیان ہونے والے اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطن کی مثال اس درس میں آگئی ۔ نمرود طاغوت کا پرستار تھا اور ابراہیم (علیہ السلام) حق پر قائم تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح نصیب فرمائی اور اپنی صفت کے ذریعے اپنی ذات کو پہچان کرائی۔
Top