Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا آپ نے اِلَى : طرف الَّذِيْ : وہ شخص جو حَآجَّ : جھگڑا کیا اِبْرٰھٖمَ : ابراہیم فِيْ : بارہ (میں) رَبِّهٖٓ : اس کا رب اَنْ : کہ اٰتٰىهُ : اسے دی اللّٰهُ : اللہ الْمُلْكَ : بادشاہت اِذْ : جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّيَ : میرا رب الَّذِيْ : جو کہ يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے قَالَ : اس نے کہا اَنَا : میں اُحْيٖ : زندہ کرتا ہوں وَاُمِيْتُ : اور میں مارتا ہوں قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ :ابراہیم فَاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْتِيْ : لاتا ہے بِالشَّمْسِ : سورج کو مِنَ : سے الْمَشْرِقِ : مشرق فَاْتِ بِهَا : پس تو اسے لے آ مِنَ : سے الْمَغْرِبِ : مغرب فَبُهِتَ : تو وہ حیران رہ گیا الَّذِيْ كَفَرَ : جس نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ناانصاف لوگ
کیا آپ نے اس شخص کی طرف نہیں دیکھا ، جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ جھگڑا کیا تھا ، اس کے رب کے بارے میں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بادشاہی دی تھی ۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا پروردگار ہے ، جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ تو وہ شخص کہنے لگا ، میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔ ابراہیم نے کہا بیشک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی جانب سے لاتا ہے ، تم اس کو مغرب کی جانب سے لائو ، پس وہ شخص حیران ہوگیا جس نے کفر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والی قوم کو راہ نہیں دکھاتا
ربط آیات اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان اور کفار کا ذکر فرمایا تھا کہ اللہ ایمان والوں کا کار ساز ہے ، ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا ہے۔ ان کے ساتھ طاغوت یا شیطان ہیں ، جو انہیں ایمان کی روشنی سے نکال کر کفر کے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں ، گویا دو قسم کے گروہوں کا ذکر ہوا ۔ ایک اولیاء الرحمن یعنی وہ لوگ جن کا ولی اللہ تعالیٰ خود ہے۔ وہ رحمن کے دوست ہیں اور دوسرا گروہ اولیاء الشیطان کا ہے ، جنہوں نے طاغوت کو اپنا دوست بنا رکھا ہے۔ آج کے درس سے شروع ہونے والے رکوع میں اللہ جل جلالہٗ نے انہیں دو قسم کے گروہوں کے متعلق بات کی وضاحت کے لیے تین مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ ج میں مسئلہ توحید ، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حیات بعد الموت کا مسئلہ اچھی طرح سے سمجھایا ہے۔ پہلی آیت میں اللہ نے اپنی قدرت اور ضعف کو سمجھایا ہے اور ساتھ توحید خالص کی وضاحت فرمائی ہے ۔ دوسری اور تیسری آیت میں مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا مسئلہ بیان فرمایا ہے اور توحید کا ذکر کیا ہے اس طرح ان آیات کو پہلی آیات کے ساتھ ربط ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود میں مناظرہ آج کے درس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس مناظرے کا ذکر ہے ، جو انہوں نے بادشاہ وقت نمرود کے ساتھ کیا تھا اور جس میں آپ نے توحید باری تعالیٰ کے متعلق دلائل دیئے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ الم ترالی الذی حاج ابراہیم فی دربہ کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب کے متعلق جھگڑا کیا ۔ الم ترا اس سے پہلے بنی اسرائیل کے واقعہ میں بھی آ چکا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ رویت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک بصری اور دوسری قلبی یا علمی ، رویت بصری وہ ہے ، جسے آنکھوں سے دیکھا جائے اور پھر واقعہ بیان کیا جائے اور رویت علمی وہ ہے جو علم کے ذریعے حال ہو ، کسی واقعہ کو آنکھوں سے نہ دیکھا ہو ۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کا یہ واقعہ بھی حضور ﷺ کی بعثت سے تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے پیش آیا ۔ اس لیے رویت بصری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، البتہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا مشاہدہ علم کے ذریعہ کرایا اور اس کو اس طرح یاد کرایا ۔ الم تر کیا آپ نے نہیں دیکھا یا آپ کو نہیں معلوم ، مطلب یہ کہ آپ کو اچھی طرح اس واقعہ کا علم ہے کہ کس طرح اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے متعلق ابراہیم (علیہ السلام) سے مکالم کیا اور وہ شخص کون تھا۔ ان اتہ اللہ الملک جسے اللہ تعالیٰ نے ملک یعنی حکومت عطا کی ہوئی تھی وہ وقت کا بادشاہ تھا۔ نمرود کا شجرہ نسب اس شخص کے متعلق مختلف تفاسیر اور تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ اس کا نام نمرود 1 ؎ تھا۔ اس کے باپ کا نام کنعان بن کوش تھا ، لہٰذاوہ نمرود ابن کنعان کہلاتا تھا بعض اوقات اسے اپنے دادا کی طرف منسوب کر کے نمرود بن کوش بھی کہا جاتا ہے۔ بہر حال یہ شخص حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹوں حام ، سام اور یافث میں حام کی نسل میں سے تھا اور اس کا پایہ تخت عراق میں بابل کے مقام پر تھا۔ اس زمانے میں یہ بڑا مشہورو معروف شہر تھا۔ جو موجودہ بغداد سے ستر یا سو میل کے فاصلے پر تھا اس شہر سے بہت سی تہذ میں وابستہ ہیں ۔ نمرود ، کلدانی خاندان کا بادشاہ تھا۔ اس خاندان نے چار سو سال تک حکومت کی تفسیری روایات میں آتا ہے کہ نسل کے اعتبار سے یہ شخص ٹھیک نہیں تھا ، تا ہم یہ وہ شخص ہے ، جس نے سب سے پہلے سر پر تاج شاہی رکھا۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ چار شخص ایسے گزرے ہیں جن کی پوری دنیا پر حکمرانی تھی ، ان میں سے دو مسلمان تھے اور دو کافر مسلمان میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ذوالقرنین ہیں ۔ جن کا واقعہ سورة کہف میں ملتا ہے۔ کفار میں ایک نمرود اور دوسرا بخت نصر تھا۔ جس کا ذکر سورة بی اسرائیل میں آیا ہے۔ اس شخص نے بنی اسرائیل کو بالکل برباد اور ذلیل کردیا تھا۔ مناظرہ کب ہوا اس بات میں اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ مناظرہ ان کے آگ میں ڈالے جانے سے پہلے ہوا یا اس کے بعد بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ میں ڈالے جانے سے پہلے کا ہے جونہی ابراہیم (علیہ السلام) جوان ہوئے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کی تبلیغ شروع کردی ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اوائل عمر سے ہی رشد و ہدایت عطا کی تھی ۔ قرآن پاک میں موجود ہے ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ابتداء سے ہی رشد و ہدایت دی ۔ آپ کے والد آذر سرکاری ملازم تھے ، اس کے علاوہ وہ اس بڑے بت خانے کے انچارج تھے ۔ جسے بادشاہ کے حکم سے قائم کیا گیا تھا۔ یہ مناظرہ اس وقت ہوا اس کے بعد آپ کو آگ میں ڈالا گیا ۔ بعض دوسرے مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ مذکورہ مناظرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) 1 ؎۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 313 و قرطبی ص 283 ج 3 ۔ 2 ؎۔ تفسیر کبیر ص 23 ج 7 (فیاض) کے آگ میں ڈالے جانے کے بعد ہوا ، ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ سے زندہ بچ جانے کا معجزہ دیکھ کر بھی وہ آپ پر ایمان نہ لائے۔ فامن لہ لوط حضرت لوط (علیہ السلام) کے سوا کسی نے آپ کی تصدیق نہ کی ، البتہ گھر میں آپ کی بیوی سارہ تھی ۔ جسے ایمان کی دولت حاصل تھی ، ان ایام میں یہ مناظرہ ہوا ، آخر وہ وقت بھی آیا جب ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا وطن بابل بھی چھوڑناپڑا ۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ حضرت لوط (علیہ السلام) اور آپکی بیوی تھے۔ آپ عراق سے چل کر فلسطین پہنچے وہاں اپنے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تبلیغی مشن پر بحر لوط کے کنارے متعین کیا ، پھر آپ مصر پہنچے۔ وہاں سے مکہ مکرمہ پہچ کر بیت اللہ شریف کی تعمیر کی اور اپنے فرزند اسماعیل کو وہاں چھوڑا ۔ آپ واپس فلسطین آگئے اور وہیں آپ کا انتقال ہوا آپ کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) نے وہاں کے تبلیغی فرائض سنبھالے۔ مناظرے کا پس منظر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کے درمیا بحث و مباحثے کی نوبت کیوں پیش آئی ۔ اس کے متعلق مولانا شیخ الہند (رح) اور شاہ عبد القادر (رح) نے اپنی تفاسیر میں مختصر نوٹ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس سے پہلی آیت میں اہل ایمان اور اہل کفر کا تذکرہ تھا ۔ ان کے نور اور ظلمت کا بیان تھا اور اب اس آیت میں اسی سلسلہ میں بعض نظیریں پیش کی گئی ہیں اور اس پہلی نظیر میں نمرود اور حضرت ابراہیم کا ذکر ہے کہ جو کوئی شخص نمرود کے دربار میں جاتا تھا ۔ وہ سب سے پہلے اسے سجدہ کرتا تھا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) دربار نمرود میں پہنچے تو آپ سے بھی سجدہ کرنے کی توقع کی گئی مگر آپ نے نمرود کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، جس پر مناظرے کی مذکورہ صورت پیش آئی ۔ نمرود کا واقعہ تاریخ کی تمام پرانی کتابوں میں ملتا ہے مگر محض تاریخی روایات پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ تاریخ میں ہر قسم کے واقعات بلا تحقیق نقل کردیے جاتے ہیں ۔ پرانے مؤرخین میں ابن خلدون کو اونچا مقام حاصل ہے ، یہ آٹھویں صدی ہجری میں ہوئے ہیں اور تاریخ کے امام تصور کیے جاتے ہیں ۔ انہوں نے تاریخ کا ایک ضخیم مقدمہ قلمبند کیا ہے جس میں تاریخ کے مختلف موضوعات پر حاصل بحث کی ہے۔ اس نے پوری دنیا کو تاریخ کا فلسفہ سکھا دیا ہے ۔ یورپ اور ایشیاء کے تمام مؤرخین ابن خلدون کے شاگرد ہیں ۔ خود قاضی بھی تھے مگر تاریخی روایات کی صحت کے متعلق ان پر بھی مکمل انحصار نہیں کیا جاسکتا ، طبری کی تاریخ میں بھی صحیح اور غلط ہر قسم کے واقعات ملتے ہیں ۔ تاریخ دان کسی واقعہ کی پوری تحقیق نہیں کرتے ۔ یہ تو محدثین کو شرف حاصل ہے کہ کسی واقعہ کو نقل کرنے سے پہلے راویوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ ہر غلط ملط واقعہ درج نہیں کیا جاتا ، البتہ امام ابن کثیر (رح) نے اس ضمن میں کافی پیش رفت کی ہے ۔ آپ کا زمانہ آٹھویں صدی ہجری ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) کے شاگردوں میں ہیں ۔ آپ نے واقعات کی جانچ پڑتال کی کوشش کی ہے۔ روایات پر صحیح یا غلط ہونے کے متعلق جرح بھی کی ہے۔ آپ کی تاریخ کی کتاب ” البدایہ والنہایہ “ سولہ جلدوں میں ہے۔ جس میں آدم (علیہ السلام) سے سے لیکر اپنے زمانے تک کے واقعات تفصیل کے ساتھ قلمبند کیے ہیں ۔ یہ سب سے زیادہ مستند تاریخ تسلیم کی جاتی ہے ، بہرحال انہوں نے واقعات کی صحت کا کسی حد تک خیال رکھا ہے۔ آپ نے قرآن پاک کی ” تفسیر ابن کثیر “ لکھی ہے۔ جو اعلیٰ درجے کی تفسیر تسلیم کی جاتی ہے۔ تاریخی روایات کی صحت کی جانچ پڑتال میں امام مسعود بغوی (رح) کا نام سر فہرست ہے۔ آپ امام رازی (رح) سے بھی پہلے پانچویں صدی میں ہوئے ہیں ۔ آپ کا وطن خراسان میں بغات ہے۔ آپ اعلیٰ پائے کے محدث تھے۔ آپ کی حدیث کی کتاب ” مصابیح “ کے نام سے موجود ہے۔ جو علم حدیث کی بلندپایہ کتاب ہے۔ جسے صاحب مشکوٰۃ نے مزید شرح کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔ آپ مفسر قرآن بھی ہیں ۔ آپ کی تفسیر ” معالم التنزیل “ کے نام سے موجود ہے ، جو چار جلدوں میں ہے اور اس دور کی معتبر تفسیروں میں شمار ہوتی ہے ۔ بہر حال انہوں نے تاریخی واقعات میں صحت کا کسی قدر زیادہ التزام کیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کے واقعہ کے متعلق امام ابن کثیر (رح) اور امام بغوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے۔ جب کہ ملک میں قحط پڑگیا اور لوگ بھوکوں مرنے لگے ۔ اس وقت نمرود کے پاس غلے کا ذخیرہ موجود تھا ، لوگ اس کے پاس غلہ لینے کے لیے جاتے تھے ، اور دربار میں پہنچ کر سب سے پہلے سجدہ کرتے اور پھر اپنا مدعا بیان کرتے۔ اصل مناظرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی نمرود کے دربار میں پہنچے ، مگر آپ نے اسے سجدہ نہ کیا ۔ اس نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ نہیں کرتا ، نمرود نے کہا کہ رب تو میں ہوں لہٰذا مجھے سجدہ کرو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا ۔ تم محض حاکم وقت ہو ، رب نہیں ہو ، رب وہذات ہے ، جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ تمہارے اختیار میں یہ چیز نہیں ہے۔ لہٰذا تم رب نہیں ہوسکتے ۔ اس آیت پاک میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔ اذقال ابراھیم ربی الذی یحی ویمیت یعنی میرا رب ہے ۔ جو زندگی بخشتا ہے اور مارتا ہے نمرود فوراً بولا قال انا احی وامیت میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ، چناچہ اپنی طاقت کے مظاہرہ کے لیے اس نے دو قیدی منگوائے ۔ جو بےگناہ تھا اس کو قتل کروا دیا اور جو مجرم تھا اسے آزاد کردیا اور کہنے لگا ۔ دیکھو میں نے جس کو چاہا زندگی دے دی اور جسے چاہا موت کے حوالے کردیا ۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ یہ شخص عقل کا ایسا اندھا ہے کہ موت وحیات کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکا ۔ یہ گناہ گار کو چھوڑ دینے اور بےگناہ کو قتل کردینے کو زندگی اور موت سمجھ رہا ہے ، حالانکہ زندگی کا مالک تو وہ ہے جو بےجان چیز میں جان ڈال دے اور جاندار کی جان اپنے اختیار سے قبض کرلے اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود کو بیوقوف سمجھتے ہوئے اس نکتہ پر مزید بحث نہ کی۔ بلکہ ایک دوسری دلیل سے سمجھایا۔ قال ابراہیم فان اللہ یاتی بالشمس من المشرق میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے۔ فات بھا من المغرب تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا ۔ اب اس کے حواس درست ہوئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ایسا سوال کیا ہے جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا فبھت الذی کفر نمرود حیران ہوگیا گویا اللہ نے اس کی مت مار دی وہ لا جواب ہوگیا ۔ چناچہ اس نے مزید بحث نہ کی ، وہ سمجھ گیا کہ اگر ابراہیم (علیہ السلام) سے مزید مناظرہ کیا تو بات بالکل بگڑ جائیگی اور وہ جھوٹا ثابت ہوجائے گا لہٰذا وہ خاموش ہوگیا ۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ اس مقام پر مزید بحث و تمحیص ہو سکتی تھی فرض کرو اگر نمرود سورج کے طلوع و غروب کے متعلق ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ جواب دیتا کہ سورج کو مشرق سے تو میں طلوع کرتا ہوں تم اپنے رب سے کہو کہ مغرب سے نکالے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ یقینا ابراہیم (علیہ السلام) کو سچا کر دکھاتا اور سورج کو مغرب سے طلوع کردیتا ، مگر نمرود کو اپنی شکست کا یقین ہوگیا ، لہٰذا اس نے خاموشی اختیار کرنے میں یہ مصلحت جانی۔ غیر اللہ کو سجدہ غیر اللہ کو سجدہ کرنے کا دور برصغیر پاک و ہند میں بھی پیش آیا تھا۔ مغل بادشاہ جہانگیر بھی اپنے آپ کو سجدہ کرواتا تھا حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس کے سامنے سجدہ کیا جائے ۔ مخلوق میں سے کسی کے لائق نہیں کہ اسے سجدہ کیا جائے۔ چناچہ جہانگیر کے زمانے میں حضرت مجدد الف ثانی (رح) نے سجدہ کی علی الاعلان مخالفت کی ۔ بہر حال یہ آپ کی کوشش کا نتیجہ تھا کہ جہانگیر جیسا اکھڑمزاج بادشاہ بھی اس فعل سے تائب ہوگیا اور اس کا عقیدہ درست ہوگیا البتہ اسکی بیوی رافضیہ تھی ۔ مگر وہ رافضیوں کا طرفدار نہیں بنا اور صحیح دین اسلام پر قائم رہا ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ جہانگیر کے بعد شاہجان مزید دین کی طرف راغب ہوا اور پھر اور نگ زیب عالمگیر (رح) جیسا خوف خدا رکھنے والا بادشاہ بھی پیدا ہوا جس نے اگلی پچھلی ساری کسر نکال دی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ بہر حال جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اس نے آپ کو غلہ دینے سے انکار کردیا ۔ اور آپ کو خالی واپس آنا پڑا ، واپسی پر دل میں خیال آیا کہ گھر والوں کو خالی لوٹنے کا کیا جواب دونگا ۔ آپ نے راستے میں اپنا تھیلہ ریت سے بھر لیا تا کہ گھر والوں کو معلوم ہو کہ خالی ہاتھ واپس نہیں آئے ۔ گھر پہنچ کر تھیلہ گھر میں رکھا اور خود سو گئے بیوی نے سمجھا کہ آٹا لے آئے ہیں چناچہ وہ اٹھی تا کہ تھیلے میں سے آٹا لیکرروٹی تیار رکے تھیلہ کو کھولا تو اس میں واقعی آٹا تھا کھانا تیار کرنے کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کو جگایا کہ کھانا کھا لیں آپ نے پوچھا روٹی کس چیز سے پکائی ہے۔ بیوی نے عرض کیا ، اس آٹے سے جو آپ لائے ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص مہربانی کی ہے اور ریت کا آٹا بن جانا ایک معجزہ ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کو سمجھنا بڑا مشکل کام ہے۔ وہ کمال قدرت کا مالک ہے ، اس کی صفت اس کے فعل سے سمجھ میں آتی ہے ، جب کوئی عجیب و غریب فعل سر زد ہوتا ہے ، تو پھر پتہ چلتا ہے کہ یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور کوئی نہیں کرسکتا اور جب یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے تو پھر اس کی توحید کی پہچان ہوتی ہے کہ ایسی صفت کا مالک اور کمال قدرت اور کمال صفت کا مالک صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ گویا اس سارے واقعہ سے یہ بات نکلی کہ موت وحیات کا مالک اور نظام شمسی کو چلانے والا فقط اللہ تعالیٰ ہے ۔ وہ چاہے تو بڑے سے بڑا سرکش کو لا جواب کر دے اور چاہے تو ریت کو غلہ میں تبدیل کر دے ، یہ سب اس کی کمال قدرت کے کرشمے ہیں جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں۔ ظالم ہدایت سے محروم ہیں فرمایا اللہ تعالیٰ کی صفات کی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اگر کوئی شخص ایمان نہیں لاتا ، تو پھر وہ پرلے درجے کا ظالم ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے۔ واللہ لا یھدی القوم الظلمین اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا یعنی ان کی رہنمائی نہیں کرتا پہلی آیت میں بھی آ چکا ہے۔ والکفرون ھم الظلمون کہ کافر لوگ ہی ظالم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان نہیں لاتے۔ وہ مشرک ہیں اور شرک کی حقیقت یہ ہے۔ ان الشرک لظلم عظیم شرک بہت بڑا ظلم ہے اور اس کے مرتکب ظالم لوگ ہیں ۔ جو لوگ شرک جیسے ظلم عظیم میں پھنس جاتے ہیں ، اللہ ان کو راہ راست کی طرف رہنمائی نہیں کرتا ۔ یہ اللہ کا عام قانون ہے کہ جب تک کوئی ظلم سے ثابت نہیں ہوگا ، اسے ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی ۔ الغرض گزشتہ درس میں بیان ہونے والے اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطن کی مثال اس درس میں آگئی ۔ نمرود طاغوت کا پرستار تھا اور ابراہیم (علیہ السلام) حق پر قائم تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح نصیب فرمائی اور اپنی صفت کے ذریعے اپنی ذات کو پہچان کرائی۔
Top