Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 70
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ١ۙ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَا١ؕ وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا ادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لیے رَبَّکَ : اپنا رب يُبَيِّنْ : وہ بتلادے لَنَا : ہمیں مَا هِيَ : وہ کیسی اِنَّ : کیونکہ الْبَقَرَ : گائے تَشَابَهَ : اشتباہ ہوگیا عَلَيْنَا : ہم پر وَاِنَّا : اور بیشک ہم اِنْ : اگر شَآءَ : چاہا اللّٰہُ : اللہ لَمُهْتَدُوْنَ : ضرور ہدایت پالیں گے
انہوں نے کہا کہ (اب کے) پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتا دے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو، کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، (پھر) خدا نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی
قَالوُادْ عُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ ( بولے اپنے رب سے ہمارے لیے پوچھ کہ ہمیں اچھی طرح سمجھادے کہ وہ کس قسم میں ہے) یہ پہلے ہی سوال کی تکرار ہے جو مزید انکشاف کی طلب کے لیے ہے۔ اِنَّ الْبََقَرَ تَشَابَہ عََلَیْنَا ( ہمیں گایوں میں شبہ پڑگیا) یہ مکرر سوال کرنے کا عذر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن صفات کی گائے ارشاد ہوئی ہے اس جیسی بہ کثرت پائی جاتی ہیں اس لیے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کونسی گائے سے ہمارا مقصود حاصل ہوگا اور تشابھت مؤنث کا صیغہ اس لیے نہیں استعمال کیا کہ لفظ بقر مذکر ہے ( اگرچہ مراد مؤنث ہے) ۔ وَ اِنَّا اِنْشَآء اللّٰہُ لَمُھْتَدُْنَ ( خدا نے چاہا تو ہم ٹھیک پتہ لگا لیں گے) یعنی اگر خدا نے چاہا تو ہم ایسی گائے ذبح کرنے کی طرف راہ یاب ہوں گے یا یہ مطلب کہ ہمیں قاتل مل جائے گا۔ آیت : وَ اِنَّا اِنْ شَاء اللّٰہُُ لَمُھْتَدُوْنَسے ہمارے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ جہاں جو واقعات ہوتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہوتے ہیں۔ معتزلہ اور کر امیہ نے یہ مستنبط کیا ہے کہ ارادہ خداوندی حادث ہے اہل سنت کی طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ : وَ اِنَّا اِنْ شَاء اللّٰہُ میں تعلیق باعتبار تعلق ہے۔ ( یعنی ارادہ جو جناب باری کی صفت ہے وہ تو قدیم ہی ہے لیکن واقعات کے ساتھ اس کا تعلق حادث ہے) جناب سرور کائنات علیہ افضل الصلوت والتحیات نے فرمایا ہے کہ اگر بنی اسرائیل لفظ انشاء اللہ نہ کہتے تو ابدالآباد تک اس گائے کا پتہ نہ چلتا ہے۔ اس حدیث کو بغوی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے اور ابن جریر نے اس کی سند کو معضل کہا ہے۔
Top