Al-Qurtubi - Al-Baqara : 70
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ١ۙ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَا١ؕ وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا ادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لیے رَبَّکَ : اپنا رب يُبَيِّنْ : وہ بتلادے لَنَا : ہمیں مَا هِيَ : وہ کیسی اِنَّ : کیونکہ الْبَقَرَ : گائے تَشَابَهَ : اشتباہ ہوگیا عَلَيْنَا : ہم پر وَاِنَّا : اور بیشک ہم اِنْ : اگر شَآءَ : چاہا اللّٰہُ : اللہ لَمُهْتَدُوْنَ : ضرور ہدایت پالیں گے
انہوں نے کہا (اب کے) پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتادے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، پھر خدا نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہوجائے گی
آیت نمبر 70 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان البقر تشبہ علینا انہوں نے چوتھا سوال کیا اور بیان کے بعد بھی حکم کی پیروی نہیں کی۔ یہاں البقر مذکر ذکر کیا کیونکہ یہ جمع کے معنی میں ہے۔ اسی وجہ سے فرمایا ان البقر تشبہ علینا۔ البقر کے لفظ کی تذکیر کی وجہ سے فعل کا صیغہ بھی مذکر ذکر فرمایا۔ قطرب نے کہا : البقرۃ کی جمع باقر، باقور اور بقرہ۔ اصمعی نے کہا : البأقر، جمع ہے باقرۃ کی۔ اور کہا : باقورۃ بھی بقر کی جمع بنائی جاتی ہے۔ یہ نحاس نے حکایت کیا ہے۔ زجاج نے کہا : اس کا معنی بقر کی جنس ہے۔ حسن نے اس کے مطابق پڑھا جو نحاس نے ذکر کیا ہے (2) اور اعرج نے اس کے مطابق جو ثعلبی نے ذکر کیا ہے۔ ان البقر تشبہ (تاء اور شین کی شد کے ساتھ) انہوں نے تشابہ کو فعل مضارع اور مؤنث بنایا ہے اصل میں تتشابہ تھا۔ پھر تا کو شین میں ادغام کیا گیا ہے۔ مجاہد نے تشبہ جیسا کہ ان دونوں کی قراءت ہے مگر بغیر الف کے پڑھا ہے۔ حضرت ابی بن کعب کے مصحف میں تشابھت (شین کی تشدید کے ساتھ) ہے۔ ابو حاتم نے کہا : یہ غلط ہے اس بات میں تا ادغام نہیں ہوتی مگر مضارع میں۔ یحییٰ بن یعمر نے ان الباقر یشابہ پڑھا ہے (3) ۔ انہوں نے اسے فعل مستقبل بنایا ہے بقرکو مذکر تصور کیا اور ادغام کیا۔ ان البقر تشابہ، شین کی تخفیف اور ھا کے ضمہ کے ساتھ۔ یہ ثعلبی نے حسن سے حکایت کیا ہے۔ نحاس نے کہا : یشابہ شین اور یا کی تخفیف کے ساتھ جائز نہیں ہے یہ تا میں جائز ہے کیونکہ اصل تتشابہ تھا دو تا کو اجتماع کی وجہ سے ایک کو حذف کردیا۔ البقر، الباقر، البیقور، البقیر یہ تمام لغتیں ہیں اور سب کا معنی ایک ہے عرب اس کو مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال کرتے ہیں۔ تشابہ میں مختلف قراءت کے معانی اس کی طرف لوٹتے ہیں۔ بعض نے فرمایا : ان البقر تشبہ علینا انہوں نے اس لئے کہا کیونکہ گائیوں کے رنگ ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں۔ اس سے حضرت حذیفہ بن یمان کی حدیث ہے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت فرمائی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : فتنے رات کے ٹکڑوں کی طرح اس طرح آئیں گے جیسے گائیوں کے چہرے۔ یعنی بعض، بعض کے مشابہ ہوں گے اور گائیوں کے چہرے متشابہ ہوتے ہیں اسی وجہ سے بنی اسرائیل نے کہا : گائے ہم پر متشابہ ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانأ ان شأء اللہ لمھتدون یہ ان کی طرف سے استثنا ہے۔ اس آخری میں استثنا کے ذکر کرنے میں ان کی طرف سے قبولیت اور پیروی ہے اور امر کی موافقت نہ کرنے پر شرمندگی کی دلیل ہے (1) ۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ انشاء اللہ نہ کہتے تو کبھی گائے کا پتا نہ پاتے (2) ۔ تقدیر کلام اس طرح ہے : انا لمھتدون ان شاء اللہ۔ اھتداء کو ذکر میں اس کے اہتمام کی وجہ سے مقدم فرمایا۔ شأء شرط کی جگہ میں ہونے کی وجہ سے محل جزم میں ہے۔ سیبویہ کے نزدیک اس کا جواب ان اور جس میں وہ عمل کر رہا ہے۔ اور ابو العباس المبرد کے نزدیک جزا محذوف ہے۔
Top