Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 154
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو لِمَنْ : اسے جو يُّقْتَلُ : مارے جائیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتٌ : مردہ بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ :زندہ ہیں وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم شعور نہیں رکھتے
اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔
شہادت کی موت تشریح : اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مارا جائے اس کو شہید کہتے ہیں اور اللہ فرماتا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ دراصل مرتا نہیں بلکہ وہ زندہ رہتا ہے اور رزق سے نوازا جاتا ہے، اس کا شعور واقعی انسان کو ہرگز نہیں ہوسکتا، مگر مجاہد کے اوصاف اتنے اعلیٰ ، لازوال اور بلند ہوتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر سوچا جاسکتا ہے کہ اسے انسان تو کیا موت بھی شکست نہیں دے سکتی۔ مجاہد کے اوصاف اس کو ایک عام انسان سے بہت بلند کردیتے ہیں چناچہ ایک مجاہد مندرجہ ذیل صفات کا حامل ہوتا ہے۔ خلوص، شوق آخرت، شجاعت، صبر و استقامت، ظلم سے پرہیز، اطاعت امیر اور سب سے بڑھ کر اللہ اور رسول ﷺ کی محبت میں فنا ہوتا ہے، جو شخص یہ تمام صفات اپنے اندر لے کر میدان جہاد میں نکلے گا تو بھلا ایسے شخص کو شکست کیونکر ہوسکتی ہے اور پھر جس مقصد کے لئے بھی وہ نکلے یعنی دین کی سربلندی، اسلام کی تبلیغ، اپنے ملک و قوم اور نسل کی حفاظت کے لیے تو یہ تمام جذبات محض خلوص اور قربانی پر ہی مبنی ہیں۔ بھلا جو اتنی بڑی قربانی دے اور اپنی جان عزیز کو بھی داؤ پر لگا دے اللہ جل شانہ اس کو ضرور ابدی انعامات سے نوازے گا اور نوازتا بھی ہے جو بھی شخص حق کی پاسداری میں جان دیتا ہے اس کا اجر بھی حق کی طرح کبھی ختم نہ ہونے والا ہوتا ہے۔ اس کی نوعیت رب العزت کے پاس کیا ہے اس سے انسان بیخبر ہے۔ بس یہی جان سکتا ہے کہ شہید کبھی مرتا نہیں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ البتہ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ حقیقت میں ایک مجاہد جب میدان جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کو اپنے خالق پر اس قدر اعتماد اور توکل ہوتا ہے کہ انتہائی مشکل حالات میں بھی وہ صبر، بہادری اور امید کی چٹان ہوتا ہے۔ موت بھی اسے خوفزدہ نہیں کرسکتی ہے اس وقت اسے، بیوی، بچے، والدین اور دنیاوی سازو سامان کا کوئی خیال نہیں آتا ہے۔ بس ایک دیوانگی، ایک لگن اور ایک شوق شہادت ہوتا ہے جس میں وہ جھوم رہا ہوتا ہے یہ سب میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سنا ہے، کیونکہ 1965 ء اور 1971 ء کی جنگ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو خالصتاً کفر و اسلام کی جنگ تھی۔ وہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں تو جو انسان یوں اللہ تعالیٰ اس کے رسول، اس کی کتاب اور اس کے دین کے لئے بےخود ہو کر جان دے دے گا تو بھلا اس کا اجر بےحساب اور بےاندازہ کیوں نہ ہوگا ؟ اس کا شعور واقعی انسان کی عقل سے باہر ہے۔ حدیث میں یہاں تک آیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا ” کہ جس نے صدق دل سے اللہ کی راہ میں قتل ہوجانے کی دعا کی، اللہ اسے شہید کا اجر عطا فرمائے گا “ (ترمذی۔ ازحاشیہ بنت اسلام اسوہ حسنہ ص 402) صرف دعا ہی سے اتنا اجر مل سکتا ہے تو پھر شہید کا اجر تو بےمثال ہی ہوگا۔ یہ شوق شہادت، جان نثاری اور محبت الٰہی ہی تو ہے جو مسلمان کو بےخوف اور بہادر بنا دیتا ہے اور پھر ہمارے سو جوان کافروں کے ہزار جوانوں پر بھاری ہوتے ہیں، جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں : شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی ایک اور جگہ فرماتے ہیں : دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی اسی طرح ایک مرتبہ فرمایا : موت کو سمجھتے ہیں غافل اختتام زندگی ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی اقبال کے اس دعائیہ شعر کے ساتھ اختتام کرتی ہوں۔ دل مرد مومن میں پھر زندہ کردے وہ بجلی کہ تھی نعرئہ لاتذر میں شعرکا مطلب یہ ہے کہ شاعر نے طارق (مجاہد) کا ہم زبان ہو کر دعا کی ہے کہ یا اللہ مسلمان کے دل اور ضمیر میں وہ بجلیاں بھر دے جو کفر کی ساری قوتوں کو جلا کر راکھ کردیں اور دنیا میں اللہ کا کوئی ایک منکر بھی نہ رہے۔ ( آمین)
Top