Tafseer-e-Madani - Al-Waaqia : 81
اَفَبِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَۙ
اَفَبِھٰذَا الْحَدِيْثِ : کیا بھلا اس بات کے بارے میں اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ : تم معمولی سمجھنے والے ہو۔ انکار کرنے والے ہو
تو کیا تم لوگ اسی کلام (صدق نظام) سے لاپرواہی برت رہے ہو ؟1
[ 69] منکرین قرآن کے رویے پر اظہار تعجب و افسوس : سو ارشاد فرمایا گیا اور منکرین کے رویے پر تعجب اور افسوس کے اظہار کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگ اس کلام کے بارے میں لاپرواہی برتتے ہو ؟ کہ کوئی اس کی توہین و تکذیب کرے اور تمہیں ٹس سے مس نہ ہو، کیا ایسے لازوال و بےمثال اور عظیم الشان کلام کا متقضاء یہی ہے ؟ والعیاذ باللّٰہ، " مدھنون، ادھان " سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی چیز کے بارے میں اغماض، لاپرواہی، بےنیازی، اور سہل انگاری برتنے کے آتے ہیں، سو قرآن حکیم کی عظمت شان کو واضح کرنے کے بعد بانداز تعجب یہ سوال کیا گیا کہ کیا تم لوگ اس کلام حق ترجمان کے بارے میں ایسی لاپرواہی برتت ہو اور اس کو تم کاہنوں کی طرح کا کلام قرار دے کر نظر انداز کرتے ہو، تم لوگ کتنے بدذوق، بےبصیرت، اور بےانصاف اور ناشکرے لوگ ہو، اور اپنے اس طرز عمل سے تم لوگ اپنے لیے کس قدر سخت محرومی اور ہولناک خسارے کا سامان کرتے ہو ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے منکرین کے رویے پر اظہار افسوس و تعجب کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ جس کتاب کو تمہارے رب نے اس قدر اہتمام کے ساتھ اور تمہاری ہدایت و راہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے اس سے تم لوگ اس طرح منہ موڑتے اور لاپرواہی برتتے ہو۔ یہ کس قدر بےقدری اور کتنی بڑی ناشکری اور محرومی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔
Top