Tafseer-e-Madani - Al-Waaqia : 59
ءَاَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَهٗۤ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ
ءَاَنْتُمْ : کیا تم تَخْلُقُوْنَهٗٓ : تم پیدا کرتے ہو اس کو اَمْ نَحْنُ : یا ہم ہیں الْخٰلِقُوْنَ : جو پیدا کرنے والے ہیں
کیا تم اس سے بچہ پیدا کرتے ہو یا ہم ہی ہیں پیدا کرنے والے ؟
[ 52] خلقت انسانی میں دعوت غور و فکر : سو انسان کی خلقت کے بارے میں دعوت غورفکر کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگوں نے کبھی اس بارے میں بھی غور و فکر سے کام لیا کہ جو منی تم گراتے ہو کیا اس سے بچہ تم لوگ پیدا کرتے ہو یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں ؟ اور ظاہر ہے کہ اس کو جواب ایک اور یقینا ایک ہی ہے، کہ یہ سب کچھ از اول تا آخر ہماری ہی قدرت و کارستانی کا نتیجہ ہے، ورنہ تمہیں تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ نطفہئِ منی اور قطرہئِ آب کہاں پہنچا اور بطن مادر میں اس پر کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اور وہ قطرہ آب کن کن مرحلوں سے گزرتا ہے اور خود اس ماں کو بھی اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی جس کے پیٹ کے اندر اور اس کے رحم میں یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ سو جب ہم اس طرح تمہیں ابتداء ً نعمت وجود بخش سکتے ہیں تو پھر دوبارہ کیوں پیدا نہیں کرسکتے ؟ اور جب تمہیں اس بات کا اقرار و اعتراف ہے کہ پہلی مرتبہ ہم پیدا کرتے اور عدم سے وجود میں ہم ہی لاتے ہیں، تو پھر ہماری طرف سے دوبارہ پیدا کیے جانے اور " بعث بعد الموت " کا آخر تم لوگ کیوں کیسے انکار کرتے ہو، سو تمہارا یہ وجود بذات خود بعث بعد الموت پر دلیل اور اس کا ایک بین اور واضح ثبوت ہے [ قرطبی، وغیرہ ] بہرکیف اس ارشاد میں انسان کو اس کی فطرت کی طرف متوجہ کر کے دعوت غور فکر دی گئی ہے کہ تم لوگ ذرہ سوچو کہ تم لوگ اتنا ہی تو کرتے ہو کہ پانی کی ایک بوند عورت کے رحم میں ٹپکا کر الگ ہوجاتے، آگے اس بوند کو تاریکیوں کے اندر گوناگوں مراحل سے گزار کر ایک بھلے چنگے بچے کی صورت میں مکمل کر کے عورت کے پیٹ سے باہر لانا، اور پھر اس کو بچپن، بلوغ، جوانی، اور بڑھاپے، کی مختلف منازل سے گزار کر اس کے آخری انجام تک پہنچانا آخر کس کا کام ہے ؟ سو جس قادر مطلق کی ذات یہ سب کچھ کرسکتی ہے اور بالفعل ایسا ہی کر رہی ہے، تو آخر اس کے لئے انسان کو دوبارہ پیدا کردینا کیوں اور کیا مشکل ہوسکتا ؟ جبکہ اس کی شان تو " کن فیکون " کی شان ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہم زدنا ایمانا بک ویقینا، وحبا فیک وخشوعا، وخذنا بنواصینا الٰی ما فیہ طاعتک ومرضاتک بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، بمحض منک وکرمک واحسانک، یا ذالجلال والاکرام،
Top