Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 18
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى نَسُوا الذِّكْرَ١ۚ وَ كَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا
قَالُوْا : وہ کہیں گے سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے مَا كَانَ : نہ تھا يَنْۢبَغِيْ : سزاوار۔ لائق لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ : کہ نَّتَّخِذَ : ہم بنائیں مِنْ دُوْنِكَ : تیرے سوا مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : مددگار وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّتَّعْتَهُمْ : تونے آسودگی دی انہیں وَاٰبَآءَهُمْ : تونے آسودگی دی انہیں حَتّٰي : یہانتک کہ نَسُوا : وہ بھول گئے الذِّكْرَ : یاد وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونے والے لوگ
تو وہ عاجزانہ اور دست بستہ عرض کریں گے پاک ہے آپ کی ذات اے اللہ ہمیں تو کسی بھی طرح یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ ہم آپ کے سوا کسی اور کو کارساز بناتے، مگر آپ ہی نے جس آسودگی اور خوشحالی سے نوازا تھا ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادا کو تو اس سے یہ لوگ مست و مگن ہو کر کفران نعمت میں پڑگئے تھے یہاں تک کہ انہوں نے بھلا دیا تھا آپ کی یاد دلشاد کو اور یہ لوگ شامت زدہ ہو کر رہ گئے تھے
20 اللہ کے سوا دوسروں کو کارساز بنانے والے سخت خسارے میں : سو اس سے تصریح فرما دی گئی کہ یہ حضرات جن کو یہ مشرک لوگ دنیا میں پوجتے پکارتے رہے تھے اس روز حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کے اس سوال کے جواب میں صاف طور پر اس کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہمارے لیے روا نہیں تھا کہ ہم آپ کے سوا کسی کو اپنا کارساز بناتے۔ یعنی ہم نے جب ساری زندگی اپنے لئے آپ کے سوا کسی کو کارساز نہیں بنایا تو ان کو ایسی کوئی بات ہم کس طرح کہہ سکتے تھے ؟ اور دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ صرف یہی نہیں کہ وہ ان سے اس طرح اپنی براءت و بیزاری کا اعلان و اظہار کردیں گے اور بس۔ نہیں بلکہ وہ الٹا ان کے دشمن بن جائیں گے ۔ { کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَائً وَ کَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ } ۔ (الاحقاف : 6) ۔ نیز فرمایا گیا ۔ { کَلا سَیَکْفَرُوْنَ بِعِبَادَتِھِمَ وَیکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضدا } ۔ (مریم :82) ۔ نیز فرمایا گیا ۔ { یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ } ۔ نیز فرمایا گیا کہ وہ کہیں گے ۔ { تَبَرَّاْنَا اِلَیْکَ مَا کَانُوْا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ } ۔ (القصص : 63) ۔ تب یہ مشرک مارے افسوس کے اپنے ہاتھ کاٹ کھائیں گے کہ ہم نے اللہ کو چھوڑ کر ان کو اپنا معبود اور حاجت روا و مشکل کشا اور کارساز کیوں بنایا تھا ؟ مگر بےوقت کے اس افسوس کا ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا سوائے ان کی حسرت و یاس میں اضافے کے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور سورة سبا کی محولہ بالا آیات کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس روز اللہ ان سب کو جمع کرے گا۔ پھر فرشتوں سے پوچھے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری پوجا کرتے رہے تھے ؟ تو فرشتے اس کے جواب میں عرض کریں گے پاک ہے تو اے اللہ۔ ہمارا تعلق تو آپ سے تھا نہ کہ ان سے۔ یہ لوگ تو اصل میں شیطانوں کی پوجا کرتے تھے اور ان میں کے اکثر انہی پر ایمان رکھتے تھے۔ (سبا :40-41) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ 21 ایمان و یقین سے محرومی ہر خیر سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ایمان و یقین کی دولت سے محرومی کی صورت میں ملنے والا مال و متاع بھی باعث عذاب و ہلاکت ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان کی گمراہی کا اصل سبب یہ ہوا کہ اللہ پاک کی طرف سے اس دنیائے دوں کا ساز و سامان ان کو اور اس سے پہلے ان کے باپ داداؤں کو بھی خوب ملتا گیا۔ تو یہ مست و مگن ہوگئے اور انہوں نے اس کو اپنی حقانیت کی دلیل سمجھ لیا اور کہا کہ اگر ہم سچے نہ ہوتے، حق پر نہ ہوتے تو ہمیں یہ دنیا کیوں ملتی ؟ لہذا حساب کتاب وغیرہ کچھ نہیں ہونا۔ بلکہ یہی دنیا اور اس کے کے یہ مزے ہی سب کچھ ہیں اور بس۔ اور اگر کوئی حساب کتاب ہوا بھی تو ہم کو فلاں فلاں ہستیاں چھڑا لیں گی۔ بس ہم انہی کا لڑ پکڑ لیتے ہیں کہ جہاں سے اونٹ گزرے گا اس کی دم بھی گزر جائے گی۔ اس لئے ہم ان ہستیوں سے وابستہ ہو کر ان ہی کو نذریں نیازیں دیتے رہیں گے۔ اور یہ ہمارا کام بنادیں گی۔ سو اس طرح شیطان ان کو دھوکہ دیتا گیا اور یہ اس کا شکار ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ یہ شامت زدہ اور تباہ حال ہو کر رہے۔ اور فرصت عمر یونہی گزر گئی ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور اس کے نتیجے میں یہ اس ہولناک خسارے میں مبتلا ہو کر رہے جسکی تلافی اور تدارک کی کوئی صورت اب ان کیلئے ممکن نہیں رہی۔ اور یہ ہمیشہ کیلئے ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے میں گرگئے۔ سو نور ایمان و یقین سے محرومی کی صورت میں مال دولت کا ملنا انسان کی ہلاکت و تباہی کا ایک بنیادی سبب ہے کہ ایسا شخص اس کو اپنی صداقت و حقانیت کی دلیل سمجھنے لگتا ہے۔ اور اس طرح وہ اپنے کفر و باطل پر پکا ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جبکہ ایمان و یقین کی دولت سے سرفرازی و بہرہ مندی کے ساتھ ملنے والا مال و دولت انسان کیلئے خبر کی کمائی اور خیر و برکت میں اضافے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور ایسا شخص نور علی نور کے شرف سے مشرف ہوجاتا ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں مال کو " خیر " کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اور حدیث میں اس کو ایک بڑی نعمت قرار دیا گیا ہے۔ سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے جس کے بعد دنیا ملے بھی تو خیر اور نہ ملے تو بھی خیر۔ جبکہ ایمان و یقین سے محرومی کی صورت میں دنیا ملے تو بھی عذاب اور نہ ملے تو بھی عذاب۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top