Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Furqaan : 18
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى نَسُوا الذِّكْرَ١ۚ وَ كَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا
قَالُوْا : وہ کہیں گے سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے مَا كَانَ : نہ تھا يَنْۢبَغِيْ : سزاوار۔ لائق لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ : کہ نَّتَّخِذَ : ہم بنائیں مِنْ دُوْنِكَ : تیرے سوا مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : مددگار وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّتَّعْتَهُمْ : تونے آسودگی دی انہیں وَاٰبَآءَهُمْ : تونے آسودگی دی انہیں حَتّٰي : یہانتک کہ نَسُوا : وہ بھول گئے الذِّكْرَ : یاد وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونے والے لوگ
وہ کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ بات شایان نہ تھی کہ تیرے سوا اوروں کو دوست بناتے۔ لیکن تو نے ہی ان کو اور ان کے باپ دادا کو برتنے کو نعمتیں دیں یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے۔ اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے
قالوا سبحنک ما کان ینبغی لنا ان نتخذ من دونک من اولیآء وہ کہیں گے تو پاک ہے۔ ہمارے لئے تو تیرے سوا دوسروں کو کارساز قرار دینا جائز ہی نہیں تھا۔ قالواصیغۂ ماضی بمعنئ مستقبل ہے کیونکہ مستقبل میں ان کا یہ بات کہنا یقینی ہے۔ سُبْحٰنَکَ یعنی بطور تعجب وہ یہ لفظ کہیں گے کیونکہ معبودان باطل اگر ملائکہ یا انبیاء ہوں گے تو اس سوال پر ان کا تعجب ظاہر ہی ہے۔ اللہ نے ان کو معصوم بنایا تھا ان سے ایسا جرم کیسے سرزد ہوسکتا تھا اور اگر مخاطب ‘ جمادات اور پتھروں وغیرہ کو مانا جائے تب بھی ان کا تعجب صحیح ہے ان کو اللہ کی طرف سے تخلیقاً قدرت ہی نہیں دی گئی ‘ پھر وہ کیسے گمراہ کرسکتے تھے ان سے ایسا سوال تعجب انگیز تھا۔ یا ان کو اس بات پر تعجب اس وجہ سے ہوا کہ ہمارے متعلق تو فرما دیا گیا کہ ہم اللہ کی تسبیح وتحمید میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ نے فرما دیا ہے وَاِنْ مِّنْ شَیْ ءٍ الاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ ۔ پھر ہم کس طرح گمراہ کرسکتے ہیں اور کیونکر شرک کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ مَا کَاَن یَنْبَغِیْ لَنَاہمارے لئے تو یہ بھی جائز نہیں ‘ یعنی اللہ نے ہم کو معصوم بنایا ہے یا قدرت ہی نہیں دی ‘ اس لئے کسی دوسرے کو اللہ کے سوا ہم اپنا کارساز قرار دیں۔ یہ ہمارے لئے درست ہی نہیں ہے ‘ دوسروں کو بہکانے یا گمراہ کرنے کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ یہ جواب انبیاء ‘ ملائکہ اور جمادات کی طرف سے ہوگا ‘ لیکن جو لوگ خود معبود اور رب بن بیٹھے ہیں خواہ وہ انسان ہوں یا جنات ‘ ان کی طرف سے یہ جواب نہ ہوگا بلکہ وہ اس طرح کے جواب دیں گے واللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَقسم اللہ کی جو ہمارا رب ہے ‘ ہم مشرک نہیں تھے۔ شیطان کہے گا اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْنَّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِنْ سُلْطَانٍاللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا وہ سچا وعدہ تھا اللہ نے وہ پورا کیا اور میں نے جو تم سے وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا میرا تم پر کوئی جبر نہ تھا۔ الآیۃ۔ ولکن متعتہم وابآء ہم حتی نسوا الذکر وکانوا قوما بورا۔ و لیکن تم نے ان کو اور ان کے بڑوں کو آسودگی دی کہ وہ تیری یاد کو بھلا بیٹھے اور یہ لوگ خود ہی برباد ہوئے۔ مَّتَّعُتَہُمْیعنی تو نے ان کو عمر ‘ صحت اور طرح طرح کی نعمتوں سے اتنا نوازا کہ وہ خواہشات میں ڈوب گئے اور تیری یاد سے غافل ہوگئے۔ تیری نعمتوں کی یاد ان کو نہ رہی ‘ تیری آیات میں غور کرنے سے انہوں نے اعراض کیا اور بھول گئے کہ وہ تیرے محتاج ہیں۔ یا ذکر کو بھول جانے کا یہ مطلب ہے کہ نصیحت کو اور قرآن پر ایمان لانے کو انہوں نے ترک کردیا (انسان کے لئے ترک لازم ہے ملزوم بول کر لازم مراد لیا) ۔ (معتزلہ کہتے ہیں کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے گناہوں کے پیدا کرنے کی نسبت اللہ کی طرف سے نہیں کی جاسکتی چناچہ گمراہ کرنے اور گمراہ ہونے کی نسبت اس آیت میں بندوں کی طرف کی گئی ہے اس کا جواب مفسر (رح) نے یہ دیا کہ) ضلالت کی نسبت بندوں کی طرف اس لئے کی گئی کہ انسان کا سب گمراہی اور مرتکب گناہ ہے اور اللہ کی طرف ضلالت کی نسبت اس لئے کی گئی کہ اللہ گمراہی کا خالق ہے اور گمراہی کی تخلیق گمراہ ہونے پر آمادہ کرتی ہے اس صورت میں یہ آیت اہل سنت کے مسلک کی تائید کرتی ہے اور معتزلہ کے قول کی تردید۔ وَکَانُوْا یعنی تیرے ازلی فیصلے میں ہی یہ لوگ ہلاک ہونے والے تھے۔ بُوْرًامصدر ہے ‘ واحد پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور جمع پر بھی۔ بعض کے نزدیک بورا بائر کی جمع ہے جیسے عوذ ‘ عائذ کی جمع ہے۔
Top