Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 61
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس قَالَ : اس نے کہا ءَاَسْجُدُ : کیا میں سجدہ کروں لِمَنْ : اس کو جسے خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا طِيْنًا : مٹی سے
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا بولا بھلا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔
ذکر عداوت شیطان با بنی نوع انسان قال اللہ تعالیٰ : واذ قلنا للملئکۃ اسجدوا لادم .... الیٰ .... وکفی بربک وکیلا۔ (ربط) گزشتہ آیات میں کافروں کی سرکشی اور عناد اور آنحضرت ﷺ سے ان کی مخالفت اور عداوت کا ذکر فرمایا اب ان آیات میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور شیطان کا قصہ ذکر فرماتے ہیں جس سے مقصود یہ ہے کہ شیطان تمہارا قدیمی دشمن ہے تم اس کے بہکائے میں نہ آنا اور اس کے بہکانے سے ہمارے نبی ﷺ کی مخالفت نہ کرنا شیطان کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کی شبہات ڈالتا ہے تاکہ لوگ اللہ کے حکم سے برگشتہ ہوجائیں۔ آدم (علیہ السلام) کا مفصل قصہ اور اس کی تفسیر سورة بقرہ اور سورة اعراف میں گزر چکی ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ اور وہ وقت قابل یاد ہے کہ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تاکہ خلیفہ خداوندی کی فضیلت اور برتری سب پر عیاں ہوجائے تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور جب حق تعالیٰ نے پوچھا کہ تو نے سجدہ کیوں نہ کیا تو ڈھٹائی سے بولا کہ میں اس شخص کو سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے۔ اس پر حق تعالیٰ نے اس پر لعنت کی اور اس کو اپنی بارگارہ قرب سے نکال دیا اس پر ابلیس دوبارہ بولا مجھے بتلا تو سہی یہی وہ خاکی پتلہ ہے جس کو تو نے مجھ پر فضیلت اور بزرگی دی ہے۔ حالانکہ وہ خاک ہے اور میں آگ سے ہوں خیر اگر میں اس کی وجہ سے مردود ہوا ہوں تو آپ اگر میری درخواست کے مطابق روز قیامت تک مجھے مہلت دیدیں اور میری موت میں تاخیر کردیں تو میں سوائے تیرے تھوڑے خاص بندوں کے اولاد آدم کی جڑ کاٹ کر پھینک دوں گا یعنی اولاد آدم کو اغوا کرکے بہشت سے ان کی جڑ اکھاڑ دوں گا مگر تھوڑے آدمیوں کو تیری عصمت اور حفاظت کی وجہ سے گمراہ نہ کرسکوں گا۔ یعنی انبیاء اور اولیاء جو شیطان کے داؤ میں نہیں آتے فرمایا اچھا جا اور راہ لے جو تیرت سے ہو سکے وہ کر۔ پس جو شخص ان میں سے تیری پیروی کرے گا اور تیرے پیچھے چلے گا تو بیشک تم سب کی سزا دوزخ ہے پوری جزاء یعنی جا ہم کو تیری کوئی پرواہ نہیں۔ ہم تجھ کو اور تیرے متبعین کو سب کو جہنم میں ڈال دیں گے اور ان میں سے جس کو اپنی آواز سے بچلا سکے اس کو بچلا یعنی جس طرح تو اللہ کی معصیت کی طرف بلا سکتا ہے بلا دنیا میں جو آواز اور پکار اللہ کی نافرمانی کی طرف دی جاتی ہے وہ درحقیقت شیطان کی آواز ہوتی ہے جیسے راگ اور باج کی آواز۔ اور کھینچ لا اور چڑھالا ان پر اپنے سوار اور پیادے یعنی ان کے بہکانے میں اپنی پوری قوت صرف کر ڈال اور جتنا زور تجھ سے لگایا جاسکے لگا لے اور مالوں اولادوں میں انکا شریک ہوجا۔ جو مال و اولاد معصیت کا باعث بنے اس میں شیطان ان کا شریک ہے اور علیٰ ھذا جو عمل خالص اللہ کے لیے نہ ہو اس میں بھی نفس اور شیطان شریک ہے۔ زجاج (رح) کہتے ہیں کہ سوار اور پیادوں کے چڑھا لانے کا مطلب یہ ہے کہ جتنی تیری قدرت ہو اتنے مکائد اور مکرو فریب کے جال اور وسائل جمع کرنے اور ان کو غوایت اور ضلالت پر آمادہ کرلے اور حسب مقدر ان میں اپنا تصرف کر یہ امر تہدید کے لیے ہے جیسے کہا کرتے ہیں کہ اچھا جو تجھ سے بن سکے کر گزر عنقریب اس کا انجام تجھ کو معلوم ہوجائے گا (انتہی) یعنی جیسا کرے گا ویسا بھرے گا اور تیرا جو چاہے اولاد آدم سے جھوٹے وعدے کر کہ جہنم اور جنت کچھ نہیں شیطان جب کسی کو معصیت کی طرف بلاتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ جنت و دوزخ حشر و نشر سب غلط ہے جو کچھ بھی ہے دنیا کی زندگی ہے۔ کیوں اپنی لذت و سرور کو چھوڑتا ہے اور عبادت میں پڑ کر کیوں مشقت کرتا ہے۔ یہ مراد ہے ” شیطان کے وعدے دینے سے “۔ اور نہیں وعدہ دیتا شیطان لوگوں کو مگر دھوکہ اور فریب کا یعنی شیطان کے سب وعدے دھوکہ اور فریب ہیں باطل اور خطا کو حق اور ثواب کی صورت میں دکھلاتا ہے جس سے بہت سے لوگ دھوکہ میں آجاتے ہیں اب اگلی آیت میں پھر شیطان کو خطاب فرماتے ہیں کہ اے شیطان تحقیق میرے خالص بندوں پر جن کو مجھ سے خالص تعلق ہے کہ تیرا کوئی زور نہیں وہ بندے انبیاء اور اولیاء ہیں۔ شیطان کو ان کے اغواء پر قدرت نہیں ان پر شیطان کا قابو نہیں چلتا اور اے نبی ﷺ تیرا پروردگار اپنے خاص بندوں کو کافی کارساز ہے اور اپنے خاص بندوں کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھتا ہے شیطان کا فتنہ بہت سخت ہے اور انسان ضعیف اور ناتواں ہے بدون اللہ کی عصمت اور حفاظت کے معصیت سے نہیں بچ سکتا اور بدون اللہ کی اعانت اور قوت کے طاعت نہیں کرسکتا ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم اور خاتمہ پر یہ فرمایا وکفی بربک وکیلا : اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جو بندہ خدا پر توکل اور بھروسہ کرے شیطان اس کا کچھ نہیں نگاڑ سکتا۔
Top