Jawahir-ul-Quran - Al-Waaqia : 76
وَ اِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌۙ
وَاِنَّهٗ لَقَسَمٌ : اور بیشک وہ البتہ ایک قسم ہے لَّوْ تَعْلَمُوْنَ : اگر تم جانتے ہو عَظِيْمٌ : بہت بڑی۔ عظیم
اور یہ قسم ہے27 اگر سمجھو تو بڑی قسم
27:۔ ” وانہ لقسم “ یہ قسم اور جواب قسم کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔ برائے بیان عظمت قسم یعنی اگر تمہیں اس کی حقیقت کا علم ہو تو یہ ایک نہایت عظیم الشان قسم اور شاہد ہے۔ ” انہ لقران الخ “ یہ جواب قسم ہے یہ قرآن نہایت اعلی اور احسن کتاب ہے جو دینی اور دنیوی منافع کا بیش بہا خزینہ ہے۔ فی کتاب مکنون، وہ لوح محفوظ میں محفوظ اور ہر قسم کے تغیر و تبدل سے مامون و مصئون ہے۔ ” لا یمسہ الا المطہرون “ جملہ کتاب مکنون کی صفت ہے۔ اور ” المطہرون “ سے مراد فرشتے ہیں جو ہر قسم کے گناہوں اور نجاستوں سے پاک ہیں۔ اور ” مس “ کنایہ ہے لوح محفوظ کے علوم پر اطلاع سے حاصل یہ ہوا کہ لوح محفوظ کے علوم پر فرشتوں کے سوا کوئی مطلع نہیں ہوسکتا۔ ونفی مسہ کنایۃ عن لازمہ وھو نفی الاطلاع علیہ وعلی ما فیہ (روح ج 27 ص 154) ۔ یا یہ ” قران “ کی صفت ہے اور المطہرون سے وہ لوگ مراد ہیں جو حدث اصغر اور حدث اکبر سے پاک ہوں اور نفی بمعنی نہی ہے اور مراد یہ ہے قرآن مجید کو صرف وہی لوگ ہاتھ لگائیں جو باوضو ہوں۔ المراد بالمطہرون، المطہرون عن الحدث الاصغر والحدث الاکبر والمعنی لا ینبغی ان یمس القران الا من ھو علی طہارۃ من الناس فالنفی بمعنی النھی بل ابلغ من النہی الصریح (روح ملخصاً ) ۔ اسی بناء پر جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ بےوضو آدمی قرآن مجید کو ہاتھ نہ لگائے امام بخاری (رح) اس کی اجازت دیتے ہیں۔
Top