Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 154
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو لِمَنْ : اسے جو يُّقْتَلُ : مارے جائیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتٌ : مردہ بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ :زندہ ہیں وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم شعور نہیں رکھتے
اور نہ کہو ان کو جو مارے گئے خدا کی راہ میں کہ مردے ہیں288 بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو خبر نہیں
288 پہلے مصائب پر سبر کرنے کی تلقین فرمائی۔ اب یہاں بیان فرمایا کہ تحویل قبلہ کے معاملہ میں اگر کوئی مسلمان یہودیوں کے ہاتھوں شہید ہوجائے تو اس کی موت چونکہ اللہ کی راہ میں واقع ہوئی ہے۔ اس لیے اسے مردہ مت کہو اسی طرح جو لوگ اللہ کے دین کی خاطر کافروں سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہو کرداغِ جدائی دے گئے کیونکہ وہ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ہیں۔ انہیں بھی مردے مت کہو۔ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۔ بلکہ وہ تو زندہ ہیں۔ لیکن تمہیں اس کا ادراک نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شہداء کی ایک بہت بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے کہ ان کو دنیا سے رخصت ہوجانے اور فی سبیل اللہ مقتول ہو کر طبعی موت پاجانے کے بعد عالم برزخ میں ایک امتیازی زندگی اور حیات عطا کی جاتی ہے جو دوسرے غیر شہداء مومنین کو حاصل نہیں ہوتی اور اس حیات کا تعلق چونکہ عالم برزخ سے ہے۔ اس لیے اس کے متعلق ارشاد فرمایا کہ تم اپنے حواس ومشاعر سے اس کا ادراک نہیں کرسکتے۔ اس مسئلہ کی مکمل تحقیق سورة آل عمران میں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top