Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ
: آپ کہ دیں
هُوَ
: وہ
الْقَادِرُ
: قادر
عَلٰٓي
: پر
اَنْ
: کہ
يَّبْعَثَ
: بھیجے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
عَذَابًا
: عذاب
مِّنْ
: سے
فَوْقِكُمْ
: تمہارے اوپر
اَوْ
: یا
مِنْ
: سے
تَحْتِ
: نیچے
اَرْجُلِكُمْ
: تمہارے پاؤں
اَوْ يَلْبِسَكُمْ
: یا بھڑا دے تمہیں
شِيَعًا
: فرقہ فرقہ
وَّيُذِيْقَ
: اور چکھائے
بَعْضَكُمْ
: تم میں سے ایک
بَاْسَ
: لڑائی
بَعْضٍ
: دوسرا
اُنْظُرْ
: دیکھو
كَيْفَ
: کس طرح
نُصَرِّفُ
: ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں
الْاٰيٰتِ
: آیات
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَفْقَهُوْنَ
: سمجھ جائیں
کہو ” وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے ‘ یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے ‘ یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ۔ “ دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ۔
(آیت) ” نمبر 65۔ اگر کوئی مصیبت سر کے اوپر آکر پڑتی ہے یا پاؤں کے نیچے سے کوئی مصیبت پھوٹتی ہے تو اس کا تصور دائیں بائیں سے آنے والی مصیبتوں سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے اس لئے کہ انسان کی قوت واہمہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ دائیں بائیں سے آنے والی مصیبت کا مقابلہ کرسکتا ہے لیکن جو عذاب سرکے اوپر سے نازل ہو یا جو عذاب پاؤں کے نیچے سے ابل پڑے وہ انسان کو ڈھانپ لیتا ہے ‘ اسے متزلزل کردیتا ہے ‘ اور انسان کی محدود قوت پر غالب آجاتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں ٹھہرنا اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ انداز بیان ایسا ہے جو انسان کے شعور واحساس میں اس قوی فیکٹر کو اجاگر کرتا ہے اور انسان یہ یقین کرلیتا ہے کہ اللہ کا عذاب جب چاہے اور جس طرح چاہے انسان کو اپنے گھیرے میں لے سکتا ہے ۔ اللہ کسی بھی وقت بندوں کو پکڑنے کی قدرت رکھتا ہے ۔ اس آیت میں عذاب کی ان قسموں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ‘ عذاب کی ان اقسام کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے جو نہایت ہی دھیمی رفتار سے اور طویل زمانے کے بعد انسان پر آتی ہیں ۔ ان اقسام کا عمل لمحہ بھر یا مختصر عرصے میں پورا نہیں ہوجاتا ۔ یہ اقسام انسان کی ساتھی بن جاتی ہیں ‘ انسان کی آبادی اور اس کی پوری زندگی میں رچ بس جاتی ہیں اور رات دن انسان کی رفیق سفر رہتی ہیں ۔ (آیت) ” اویلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض “۔ (6 : 65) ” یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ۔ “ اللہ کے دائمی اور طویل المدت عذاب کی یہ ایک اور شکل ہے ۔ یہ عذاب انسانوں پر خود اپنے ہاتھوں آتا ہے اور وہ خود اسے گھونٹ گھونٹ پیتے ہیں ‘ وہ یوں کہ اللہ انہیں گروہوں اور پارٹیوں میں تقیسم کردیتا ہے ‘ یہ گروہ اور احزاب ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوجاتے ہیں ‘ وہ ایک قسم کی پارٹیاں ہوتی ہیں ‘ عوام ان فرقوں کے اندر فرق و امتیاز بھی نہیں کرسکتے ۔ ان فرقوں کے درمیان جدل وجدال قائم رہتا ہے ۔ ایک طویل دشمنی قائم ہوجاتی ہے اور ان میں سے ایک فرقہ دوسرے کے لئے بلائے جان ہوتا ہے ۔ انسانیت نے اپنی تاریخ کے مختلف وقفوں میں اس قسم کے عذاب کو محسوس کیا ہے ۔ جب بھی انسان نے اپنی اجتماعی زندگی سے اسلامی نظام حیات کو بدر کیا ہے ‘ انسان اس عذاب میں مبتلا کردیا گیا ہے ۔ جب بھی اسلام کو ترک کر کے انسانوں نے اپنی خواہشات اور میلانات کی پیروی شروع کی ہے اور اپنی کوتاہیوں ‘ کمزوریوں اور جہالتوں کو اپنا اصول بنایا ہے وہ اس قسم کے عذاب سے دو چار ہوئے ہیں ۔ جب بھی لوگ راہ گم کردیتے ہیں اور اپنے لئے خود نظام زندگی بنانے لگتے ہیں ‘ اپنے لئے رسم و رواج اور اجتماعی قوانین خود بنانے لگتے ہیں اور حسن قبح کے پیمانے خود تجویز کرنے لگتے ہیں تو اس کے نتیجے میں انسانوں میں سے بعض لوگ بعض دوسرے انسانوں کے غلام بن جاتے ہیں ۔ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے تجویز کردہ نظام زندگی کی اطاعت کریں ۔ اور یوں وہ دوسروں کے غلام بن جائیں اور اس کے مقابلے میں بعض دوسرے لوگ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ یوں فریق اول ان مخالفین پر حتی المقدور مظالم ڈھانے لگتا ہے ۔ اب دو فریق میدان میں ہوتے ہیں ۔ ان دونوں کی خواہشات ‘ میلانات اور مقاصد ومفادات کے درمیان ٹکراؤ ہوجاتا ہے ۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں وہ ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھتے ہیں ۔ بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں ‘ ایک دوسرے پر غصہ ہوتے اور ان سب تضادات کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوں فریق کسی ایک پیمانے پر متفق نہیں ہوتے ۔ وہ پیمانہ معبود نے سب کے لئے تجویز کیا ہے جس کے مطابق تمام لوگ رب ذوالجلال کے بندے ہوتے ہیں ۔ اس رب کے سامنے کوئی بھی جھکنے سے نہیں کتراتا نہ وہ اس عبادت اور جھکنے میں اپنے لئے کوئی سبکی محسوس کرتا ہے ۔ اس کرہ ارض پر سب سے بڑا فتنہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ یہ مطالبہ لے کر اٹھیں کہ دوسرے لوگ انہیں الہ سمجھتے ہوئے انکی بندگی کریں اور ان کے حق حاکمیت کو تسلیم کریں ۔ یہ وہ فتنہ ہے جس کی وجہ سے انسان گروہوں میں بٹ کر باہم دست و گریبان ہوجاتے ہیں اس لئے کہ بظاہر تو وہ ایک ہی قوم اور ایک امت نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت ایک دوسرے کے غلام اور بندے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے بعض لوگوں کی ہاتھ میں اقتدار ہوتا ہے اور وہ اس اقتدار کے ساتھ چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ‘ اس لئے کہ اس اقتدار میں وہ اللہ کی شریعت کے پابند نہیں ہوتے ۔ بعض دوسرے جن کے ہاتھ میں اقتدار نہیں ہوتا ان کے دل میں اہل اقتدار کے لئے نفرت اور بغض ہوتا ہے یہ صاحبان اقتدار اور ان سے اقتدار چھیننے کی فکر کرنے والے متربصین (گھات میں بیٹھنے والے) ایک دوسرے کی طاقت اور دشمنی کا مزہ چکھتے ہیں ۔ یہ سب لوگ پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے نہ علیحدہ ہوتے اور نہ ہی ان کے درمیان کوئی فاصلہ ہوتا ہے ۔ وہ ایک ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں ۔ آج اس کرہ ارض پر تمام انسانیت اللہ کے اس عذاب میں مبتلا ہے اور یہ اللہ کا وہ عذاب ہے جو نہایت ہی دھیمی رفتار سے اپنا کام کرتا ہے ۔ اس وقت اس کرہ ارض پر اسلامی تحریک کا جو موقف ہے وہ قابل التفات ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اسلامی تحریک کے موقف کو دنیا پر چھائی ہوئی جاہلیت سے بالکل علیحدہ اور ممتاز کردیا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ جاہلیت ہے کیا ؟ ہر صورت حال ‘ ہر حکومت اور ہر معاشرہ جس پر اسلامی شریعت کی حکمرانی نہ ہو ‘ وہ جاہلیت ہے ۔ ہر وہ صورت حال جس میں اللہ وحدہ کی حاکمیت کو تسلیم نہ کیا جاتا ہو جاہلیت ہے ۔ اس جاہلیت اور اسلامی تحریک کے موقف کے درمیان مکمل جدائی ضروری ہے ۔ تحریک اسلامی کو ہر قوم اور ہر معاشرے کے اندر جو جاہلیت میں رہتی ہو اور جاہلی قوانین اور اقدار نافذ کرنا چاہتی ہو خود اپنا ایک مستقل اور جدا وجود اور تشخص قائم کرنا چاہئے اور اسے جدا نظر آنا چاہئے ۔ اسلامی تحریک عذاب الہی کی اس دھمکی کی زد سے صرف اس صورت میں نجات پاسکتی ہے کہ وہ شعوری نظریاتی اور اپنے نظام زندگی کے اعتبار سے اہل جاہلیت سے مکمل طور پر علیحدہ ہوجائے ، آیت کے یہ الفاظ ” یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں ۔ “ اور یہ مکمل جدائی اور علیحدہ تشخص اس وقت تک قائم رہے جب تک اللہ ہمیں دارالاسلام قائم کرنے کی توفیق نہیں دے دیتا ۔ اسلامی تحریک کے اندر یہ شعور زندہ رہنے چاہئے کہ وہی حقیقی امت مسلمہ ہے اور اس کے اردگرد جو معاشرہ عملا موجود ہے وہ ابھی تک اسلامی امت کا حصہ نہیں بنا ہے ۔ یہ لوگ حاملین جاہلیت ہیں ۔ اس نظریے اور اس منہاج پر تحریک اسلامی کو دوسرے لوگوں سے جدا ہونا چاہئے ۔ اس کے بعد اسے بارگاہ الہی میں دست بدعا ہونا چاہئے کہ اے اللہ ہمارے اور ہماری اس قوم اور اس معاشرے کے اندر حق کے اوپر فیصلہ کر دے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اگر تحریک اسلامی یہ امتیاز اور جدائی اختیار نہیں کرتی تو مذکورہ بالا وعید اور دھمکی کی مستوجب ہوگی ۔ وہ کسی مخصوص معاشرے میں ایک گروہ اور فرقہ بن جائے گی ‘ اور یہ فرقہ بھی دوسرے فرقوں کے ساتھ خلط ملط ہوگا ۔ اس کا کوئی علیحدہ تشخص نہ ہوگا اور نہ اپنے ماحول کے اندر ان کی کوئی امتیازی شان ہوگی ۔ اس پر بھی وہ عذاب نازل ہوگا جو دوسرے لوگوں پر ہوگا اور یہ ایک دائم اور طویل عذاب ہوگا ۔ اور یہ امید تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی فتح اور نصرت نصیب ہوگی جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے ۔ اپنے معاشرے سے مکمل جدائی اور امتیاز کی وجہ سے بعض اوقات بہت بڑی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور مصائب کے پہاڑ بھی ٹوٹے ہیں ۔ لیکن یہ مصائب اور نـقصانات ان مصائب اور نقصانات سے کہیں کم ہوتے ہیں جو اس صورت میں کسی اسلامی تحریک پر آتے جب وہ جاہلی معاشرے میں خلط ملط ہو اور اس کا موقف واضح اور ممتاز نہ ہو اور وہ جاہلی معاشرے میں مدغم اور پیوستہ رہے اور آخر کار ہر کہ درکان نمک رفت ۔ نمک شد ہوجائے ۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم انبیاء ورسل کی تاریخ کا مطالعہ کریں رسولوں کی تاریخ سے یہ بات نظر آتی ہے کہ جب تک رسولوں کے متبعین نے اس وقت کے موجود جاہلی معاشرے سے اپنے آپ کو مکمل طور پر علیحدہ نہیں کرلیا ‘ اس وقت تک انہیں وہ فتح اور نصرت حاصل نہیں ہوئی جس کا اللہ نے تمام رسولوں کے ساتھ وعدہ کیا ہوا ہوتا ہے کہ اہل ایمان اور رسول آخر کار غالب ہوں گے ۔ کسی امت کو بھی غلبہ اور کامیابی اس وقت تک نصیب نہیں ہوئی جب تک وہ اس وقت کے جاہلی معاشرے سے کٹ کر علیحدہ نہیں ہوگئی ۔ اور انہوں نے دوسرے لوگوں سے نظریہ اور نظم زندگی علیحدہ اور ممتاز نہیں کرلیا ۔ اس علیحدگی اور امتیاز سے مراد یہ نہیں ہے کہ اسلامی تحریک لوگوں سے معاشرتی بائیکاٹ کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اپنے نظریہ حیات اور اپنے دین اور نظام کے اعتبار سے ممتاز ہو ۔ یہ وہ یونٹ ہے جس سے اسلامی تحریکوں اور دوسرے لوگوں کی راہ جدا ہوجاتی ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دعوت اسلامی کا منہاج وہی ہوگا جس کے مطابق رسولوں نے دعوت دی ۔ اس راہ میں وہی مقامات ہیں جو رسولوں کو پیش آئے ۔ (آیت) ” انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ (65) ” دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ۔ “ درس نمبر 63 ایک نظر میں : سابق لہر میں اہل حق و باطل کے درمیان مکمل جدائی کے مضمون پر خاتمہ ہوا تھا ۔ اس لہر میں اس کی مزید تفصیل دی گئی ہے ۔ یہ حضور ﷺ کی قوم ہی تھی ۔ جس نے اس کتاب کو جھٹلایا جو آپ پر نازل ہوئی تھی اور وہ کتاب بڑحق تھی ۔ اسی نکتے پر حضور ﷺ اور آپ کی قوم کی راہیں جدا ہوگئیں اور آپ ﷺ نے ان سے علیحدہ ہو کر اپنی راہ لی ۔ آپ ﷺ کو اللہ نے حکم دیا کہ آپ ان سے علیحدہ ہوجائیں اور اعلانیہ کہہ دیں کہ میں تمہارا حوالہ دار نہیں ہوں اور یہ کہ اب میں تمہیں تمہاری تقدیر کے حوالے کرتا ہوں اور تم برے انجام تک پہنچنے والے ہو ‘ وہ عنقریب آنے والا ہے ۔ رسول ﷺ کو یہ بھی حکم دیا جاتا ہے کہ جب وہ اسلام پر نکتہ چینیاں کررہے ہوں تو آپ ان کی مجلس میں نہ بیٹھیں اس وقت جبکہ وہ دین اسلام کے ساتھ مذاق کررہے ہوں اور دین اسلام کا شایان شان احترام نہ کر رہے ہوں ۔ لیکن اس جدائی اور امتیاز کے ساتھ ساتھ حکم یہ ہے کہ انہیں انجام بد سے ڈرایا جاتا رہے اور وعظ وتبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رہے ۔ یہ صورتحال بہرحال موجود رہنی چاہئے کہ اہل دعوت اور اہل جاہلیت ایک قوم ہونے کے ساتھ ساتھ دو الگ فرقے ہوں ‘ دو علیحدہ امتیں ہوں ۔ اس لئے کہ اسلام میں رنگ ونسل اور خاندان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ یہاں تو اتحاد وافتراق کا مدار نظریے ‘ اور عقیدے کی اساس پر ہے ۔ یہ نظریہ اور عقیدہ ہی ہوتا ہے جو نکتہ اتفاق یا مقام افتراق ہوتا ہے ۔ جب دینی اساس پائی جائے تو لوگ متحد ہوجاتے ہیں اور جب دینی عنصر مفقود ہو تو تمام دوسرے روابط کٹ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس یہی اس لہر کا مختصر مضمون ہے ۔
Top