Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 152
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠   ۧ
فَاذْكُرُوْنِيْٓ : سو یاد کرو مجھے اَذْكُرْكُمْ : میں یاد رکھوں گا تمہیں وَاشْكُرُوْا لِيْ : اور تم شکر کرو میرا وَلَا : اور نہ تَكْفُرُوْنِ : ناشکری کرو میری
لہٰذا تم مجھے یاد رکھو ، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو ، کفران نعمت نہ کرو۔ “
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ ” تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ “ یہ وہ کرم ہے جس کا صدور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ہوسکتا ہے جس کے خزانوں میں کمی نہیں ، جس کے خزانوں پر کوئی چوکیدار نہیں اور جس کی دادوہش کا نہ حساب ہے ، نہ محاسب ۔ اس کے خزانوں سے طلب اور بلاسبب دادوہش ہوتی رہتی ہے ، اس لئے نہیں کہ ضرورت مند ہے ، بلکہ اس کے وہ معطی ہے ، وہ فیاض ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے :” جس نے مجھے دل میں یاد کیا میں بھی اسے دل میں یاد کروں گا ، جس نے مجھے بھری مجلس میں یاد کیا میں بھی اسے ایسے لوگوں میں یاد کروں گا ، جو اس کے لوگوں سے افضل واخیر ہوں گے۔ “ (حدیث صحیح) ایسی ہی ایک دوسری حدیث شریف کا مضمون ہے !” رسول اللہ فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے بنی آدم ! اگر تو نے مجھے دل میں یاد کیا میں بھی تجھے دل میں یاد کروں گا اور اگر تونے مجھے لوگوں میں یاد کیا تو میں بھی تجھے ملائکہ میں یاد کروں گا۔ “ بعض روایات میں آتا ہے ” ایسے لوگوں میں جو ان سے بہتر ہوں گے ۔ اگر تو ایک بالشت میرے قریب آئے گا میں ایک ہاتھ تیرے قریب آؤں گا ۔ اگر تم ایک ہاتھ میرے قریب آؤگے تو میں دوہاتھ تیرے قریب آؤں گا ۔ اگر تو میری طرف چل کر آئے گا تو میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔ “ یہ ہے وہ فضل وکرم جس کا بیان الفاظ میں نہیں ہوسکتا ۔ اس کا شکر ، سوائے اس کے کہ دل اپنی گہرائیوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوجائے ، ادا نہیں ہوسکتا۔ اللہ کی یاد کیسے ہو ، الفاظ ضروری نہیں ہیں ، یہ تو دل کی توجہ ہے ۔ دل کا اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے ، چاہے الفاظ ساتھ ہوں یا نہ ہوں ۔ یاد تو ایک دلی شعور ہے اور انفعال ہے اور اس شعور وانفعال کے ادنیٰ اثرات یہ ہوں کہ انسان اللہ کی اطاعت پر آمادہ ہوجائے اور اعلیٰ اثرات یہ ہوں کہ انسان کو اللہ کا دیدار نصیب ہو ، جو لوگ وصول الی اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں اور جو ذوق دیدار چکھ لیتے ہیں ان کے پیش نظر اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ صرف دیداریار۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ ” میرا شکر ادا کرو اور کفر نہ کرو۔ “ شکر کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں ۔ پہلا یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اقرار کرے ۔ اور پھر اس کی نافرمانی سے حیا کرے ۔ اور آخری درجہ یہ ہے کہ انسان مجسمہ شکر بن جائے ۔ بدن کی ہر حرکت ، زبان کا ہر لفظ ، دل کی ہر دھڑکن اور دماغ کا ہر تصور نمونہ شکر ہو ۔ کفر سے روکا گیا ہے ۔ اشارہ اس آخری مقام کی طرف ہے ، جس تک آخرکار ایک ناشکر گزار انسان پہنچ جاتا ہے ۔ لاتکفرون سے وہ آخری نکتہ بتایا گیا ہے جہاں ناشکری کے خط کی انتہا ہوجاتی ہے ۔ العیاذ باللہ ۔ تحویل قبلہ کے موقع پر اشتباہ اور ہدایات بالکل واضح اور مناسب ہیں ۔ ذکر الٰہی وہ نقطہ ہے جہاں آکر مومن کا دل اللہ کی عبادت کے لئے تیار ہوتا ہے ۔ پھر وہ ایک خالصتاً اللہ کا ہوجاتا ہے اور اسی نسبت سے منسوب ہوتا ہے ، یعنی بندگی کی وجہ سے بندہ ہوجاتا ہے۔ یہودی سازشوں سے خبردار کرنے کے موقع پر بھی فکر وشکر کی ہدایت دینا مناسب ہے ۔ ہم کہہ آئے ہیں کہ یہودیوں کا آخری مقصد یہ تھا کہ مومنین کو دوبارہ کفر میں داخل کردیں ۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے یہ نعمت چھن جائے ، جو بطور خاص اللہ نے انہیں دی تھی ۔ کیا نعمت ؟ نعمت ایمان ۔ وہ بلند ترین نعمت جو کسی فرد یا کسی جماعت کو دی جاسکتی ہے ۔ خصوصاً عربوں کے لئے تو یہ ایک عظیم نعمت سے بھی عظیم تر تھی ۔ اسی سے تو عربوں کا وجود قائم ہوا۔ تاریخ آدمیت میں عربوں نے ایک عظیم رول ادا کیا ، ان کا نام اس نظریہ حیات سے منسلک ہوگیا جس کے وہ حامل تھے اور جسے انہوں نے بنی نوع آدم تک پہنچانا تھا۔ اسی نعمت کے بغیر عرب کچھ نہ تھے ۔ گمنام تھے ، اب بھی گمنام ہیں اور اگر وہ نہ ہو۔ آئندہ بھی گمنام ہوں گے اگر اسے نہ اپنائیں گے ۔ اسلامی نظریہ حیات کے سوا ان کے پاس تھا ہی کیا ؟ جس کے ذریعے وہ دنیا میں کوئی نام پیدا کرتے ، کیا کسی نظریہ حیات کے بغیر کوئی قوم دنیا میں مقام قیادت حاصل کرسکتی ہے ؟ مقام قیادت کے لئے ایسی فکر کی ضرورت ہے جو پوری زندگی کی قیادت کرتے ۔ انسانی حیات کو ترقی کی راہ دکھائے ۔ اسلامی نظریہ حیات دراصل زندگی کا پورا نظام ہے ۔ وہ صرف ایک نعرہ ہی نہیں ہے جس کے پیچھے مثبت عمل نہ ہو بلکہ ایسا عمل ہے جو اس نظریہ کی تائید کرے ۔ اسلام کے کلمہ طیبہ کے ساتھ ساتھ عمل طیب بھی ضروری ہے جو کلمہ کا مصداق ہو۔ امت کے لئے ضروری بلکہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کو یاد رکھے تاکہ اللہ اسے یاد رکھے ۔ اور اللہ اسے نسیاً منسیاً نہ کردے اور جسے اللہ نے بھلادیا سمجھو وہ ڈوب گیا ۔ زمین پر اس کا ذکر خیر نہ رہے گا ۔ آسمانوں پر اس کا کوئی خیرخواہ نہ رہے گا۔ اور جو اللہ کو یاد کرے گا اللہ اسے یاد کرے گا ۔ آسمانوں پر بھی اس کا ذکر ہوگا ، اور طویل و عریض کائنات میں بھی اس کا ذکر خیر گونج اٹھے گا ۔ ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے اللہ کو یاد کیا ۔ پھر اللہ نے بھی انہیں یاد کیا۔ پھر کیا تھا ؟ ان کا نام پوری کائنات میں بلند ہوگیا ، دنیا کی قیادت صالح قیادت ان کے سپرد ہوگئی ۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے رب ذوالجلال کو بھلادیا ۔ تو اس نے بھی ان کو بھلادیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مہمل بن گئے ۔ ضائع ہوگئے ۔ وہ اقوام کی برادری میں حقیر تابع کے مقام تک جاگرے ۔ علاج اب بھی موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ بلاتا ہے ” تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ میرا شکر ادا کرو اور کفر اختیار نہ کرو۔ “ درس 9 ایک نظر میں تحویل قبلہ کے بعد اور امت مسلمہ کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت دینے اور ایسا تشخص عطا کرنے کے بعد ، جو اس امت کے ممتازنظریہ حیات کے ساتھ مناسب تھا ، مسلمانوں کو پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ وہ صبر وصلوٰۃ سے مددلیں کیونکہ انہیں ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ یہ منصب بڑی بڑی قربانیاں چاہتا ہے ۔ شہداء کو خون پیش کرنا ہوگا۔ جانی نقصان ، مالی نقصان ، متاع وثمرات کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔ وہ بھوک کے دن دیکھیں گے اور خوفناک راتوں سے دوچار ہوں گے۔ اس کے علاوہ انہیں بیشمار قربانیاں دینی ہوں گی ۔ ان سب قربانیوں کے لئے انہیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔ انہیں اپنے نفس سے اور اس پوری دنیا سے اسلامی نظام کے قیام کے لئے جہاد کرنا ہوگا ۔ اس عظیم جہاد کی خوفناکیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور مقابلہ اور تیاری اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اہل ایمان صبر وصلوٰۃ سے امداد حاصل کریں۔ انہیں اس امت کا دل اللہ سے جوڑنا ہوگا ۔ اپنے قلوب کو اللہ کے لئے خالص کرنا ہوگا اور اپنے تمام کاموں میں اللہ اور رسول اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ کس لئے کیا کس انعام کے لالچ میں آیا اللہ کی رضامندی کے حصول کے لئے ؟ اس کی رحمت وہدایت کی طلبگاری کی خاطر ؟ کس قدر عظیم اجر ہے یہ ؟ اس کی قدر و قیمت دل مومن ہی سے پوچھئے !
Top