Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
تم اللہ کا کس طرح انکار کرسکتے ہو ؟ حالانکہ تم محض بےجان تھے اس نے تمہیں زندگی عطا فرمائی، پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر وہی تمہیں (قیامت کے دن ) دوبارہ زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تمہیں لوٹنا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 28 تا 29 (کیف) : کیونکر، کس لئے، کیسے ؟ (اموات): مردے، بےجان (موتہ کی جمع ہے) ۔ (احیا): اس نے زندگی دی۔ (ثم) پھر، اس کے بعد ۔ (یمیت): وہ موت دے گا۔ (یحی) : وہ زندہ کرے گا۔ (الیہ) : اسی کی طرف (الیٰ ، طرف، تک ، ہ، وہ) ۔ (ترجعون): تم لوٹائے جاؤ گے۔ (ھو الذی) : وہی تو ہے (ھو، وہ ، الذی، جو، جس نے۔ ترجمہ ہوگا وہی تو ہے جس نے ) ۔ (جمیع): سب کا سب۔ (استوی): وہ برابر ہوا، اس نے توجہ کی۔ (سوی): اس نے برابر کیا۔ (سبع): اس نے برابر کیا۔ (سموت): آسمان (سماء کی جمع ہے ) ۔ (علیم): بہت زیادہ جاننے والا۔ تشریح : آیت نمبر 28 تا 29 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنی بےانتہا نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ تم بےجان تھے یعنی اس سے پہلے تمہارا وجود ہی نہ تھا اس نے تمہیں زندگی کی نعمت سے نوازا اور تمہاری زندگی وبقاء کے سارے سامان مہیا کر دئیے پھر وہ تمہیں موت کی نیند سلا دے گا، اگر دیکھا جائے تو جہاں زندگی ایک نعمت ہے موت بھی نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ عالم آخرت کی نعمتیں اور وہاں کی زندگی کی ابتداء موت سے ہی ہوتی ہے لہٰذا نعمت کا ذریعہ بھی نعمت ہی ہوا کرتا ہے۔ فرمایا کہ موت کے بعد وہ اللہ تمہیں (قیامت کے دن ) پھر ایک نئی زندگی دے گا جو بالاخر نیک اعمال کے سبب تمہیں جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار کر دے گی۔ فرمایا کہ اللہ نے انسان کو زندگی دی تو اس کی راحت کے سامان بھی پیدا کئے۔ زمین کو پیدا کیا تو سات آسمانوں کو مستحکم اور مضبوط قلعوں کی طرح تقسیم کردیا تا کہ نظام کائنات کو احسن طریقہ سے چلایا جاسکے۔ فرمایا کہ جس اللہ نے تمہارے جسم و جاں کے لئے زمین و آسمان پیدا کئے اور تمہاری روح کے لئے اپنے کلام کو عطا فرمایا تم تو اس کی ذات کا انکار کر ہی نہیں سکتے ۔ وہ ذات جس نے تمہیں ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے تو اس سے سرکشی اور بغاوت کر کے اور اس سے منہ موڑ کر سوائے جہالت کی تاریکیوں کے اور کہاں جاسکتے ہو۔ تمہیں روشنی اور نور اسی کے در سے ملے گا۔
Top