Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
(کافرو ! ) تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے
آیت نمبر 28 ترجمہ : اے مکہ والو ! تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیوں اختیار کرتے ہو ؟ حالانکہ تم پشتوں میں بےجان نطفے تھے، اس نے ماؤں کے رحموں میں اور دنیا میں تمہارے اندر روح پھونک کر تم کو زندگی بخشی، اور استفہام ان کے کفر پر اظہار تعجب کے لئے ہے اور توبیخ کے لئے ہے، قیام دلیل کے باوجود پھر وہ تم کو موت دے گا، تمہاری مدت حیات ختم ہونے کے وقت پھر تم کو وہی مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر زندہ ہونے کے بعد اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، سو وہ تم کو تمہارے اعمال کی جزاء دے گا، چناچہ جب انہوں نے بعث بعد الموت کا انکار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس پر دلیل کے طور پر فرمایا، وہی تو ہے، جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا فرمائیں یعنی زمین اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ تم اس سے استفادہ کرو اور عبرت حاصل کرو پھر (یعنی) زمین پیدا کرنے کے بعد وہ آسمان کی جانب متوجہ ہوا اور سات آسمان استوار کئے، ھُنَّ ، کی ضمیر اَلسَّمَاء کی طرف راجع ہے اس لئے کہ : اَلسَّماء ماَ یؤل کے اعتبار سے جمع کے معنی میں ہے (سَوّٰہُمَّ ) معنیٰ میں صَیَّرَہَا، جیسا کہ دوسری آیت میں فَقَضٰہُنَّ سِبْعَ سَمٰوٰتٍ ہے اور وہ ہر چیز کا اجمالی اور تفصیلی علم رکھنے والا ہے کیا تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ جو ذات ان (مذکورہ) چیزوں کے ابتداء پیدا کرنے پر قادر ہے جو تم سے عظیم تر ہے تمہارے دوبارہ پیدا کرنے پر (بطریق اولیٰ ) قادر ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ یا اہل مکة، کَیْفَ ، حرف استفہام ہے حالت سے سوال کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر قرآن میں زیادہ تر اناکر اور جرأت پر اظہار تعجب کے لئے مستعمل ہے۔ قولہ : وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا : واؤ حالیہ ہے اور کنتم امواتًا، تکفرون کی ضمیر سے حال ہے مفسر علام نے قَدْ کا اضافہ کرکے ایک سوال مقدر کا جواب دیا ہے۔ سوال : ماضی کا بغیر قد کے حال واقع ہونا صحیح نہیں ہے۔ جواب : قد کا لفظوں میں ہونا ضروری نہیں ہے اگر قد مقدر ہو، تب بھی ماضی حال واقع ہوسکتی ہے، یہاں قد مقدر ہے جیسا کہ مفسر علام نے قد مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے۔ دوسرا جواب : بغیر قد کی تقدیر کے بھی حال بننا درست ہے اس لئے کہ حال محض کنتم امواتاً ہی نہیں ہے بلکہ ما بعد، ترجعون، تک جملہ ہو کر حال ہے، کما جزم صاحب الکشاف، گویا کہ یوں کہا : کیفَ تکفرون ؟ وقصتکم ھذہ۔ قولہ : نُطَقًا فِی الْاَصْلَابِ ، ای اصلاب الرجال، نُطَفْ نُطْفَة، کی جمع ہے صاف پانی، تھوڑا پانی، ٹپکنے والی چیز یہاں مرد کا نطفہ منی مراد ہے۔ قولہ : فَاَحْیَاکُمْ ، یہ محذوف پر مرتب ہے تقدیری عبارت ہے : '' وَکُنْتُمْ عَلَقَةً فمضغةً فَاحْیَاکم '' اس تقدیر کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ نطفہ کے فوراً بعد حیات عطا نہیں ہوتی، بلکہ رحم مادر میں 120، ایام میں مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد حیات عطا ہوتی ہے۔ قولہ : فی الأرحام، وفی الدنیا بنفخ الروح، ظرفیت کا تعلق صرف ارحام سے ہے، بنفخ الروح میں باء سببیہ ہے یعنی اعطاء حیات رحم مادر میں نفخ روح کے سبب سے ہوتی ہے غالباً دنیا کا ذکر حیات رحم اور حیات دنیا میں فرق کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے اس لئے کہ دونوں زندگیوں میں نوعیت کا فرق ہے۔ (ترویح الارواح) قولہ : وَالاستدہام للتعجب من کفرہم : یعنی اتنے سارے انعامات کے باوجود کفر و انکار پر جرأت کرنا باعث حیرت و تجب ہے، یا پھر استفہام توبیخ کے لئے ہے جیسا کہ مفسر (رح) تعالیٰ نے ارشاد کیا ہے کہ معروف معنی میں تعجب مراد نہیں ہے، اس لئے کہ معروف معنی میں تعجب اسباب کے مخفی ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے اور یہ معنی خدا تعالیٰ کے لئے متصور نہیں ہیں، اس لئے کہ باری تعالیٰ سے کسی بھی شئی کے اسباب مخفی نہیں ہیں۔ قولہ : لَاِنَّہَا فی معنی الجمع اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : ثُمَّ اسْتَویٰ اِلَی السَّمَآئِ فَسَوَّاہُنَّ ، میں ہُنَّ کی ضمیر اَلسَّماء کی طرف راجع ہے اور السّماء مفرد ہے اور ضمیر جمع ہے، لہٰذا مرجع اور ضمیر میں مطابقت نہیں ہے۔ جواب : السَّماء مایؤل کے اعتبار سے جمع ہے اس لئے کہ استویٰ کے بعد سات آسمان ہونے والے ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے دَحْوِارض کے بعد سات آسمان بنائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : '' فَقَضٰہُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ '' یہ جواب بھی دیا جاسکتا ہے کہ السّماء میں الف لام جنس کا ہے لہٰذا جمع پر اطالق درست ہے۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : گذشتہ آیات میں خدا کے وجود، توحید و رسالت کے دلائل واضحہ اور منکرین و مخالفین کے خیالات باطلہ کا رد مذکور تھا، ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات اور انعامات کا ذکر کرکے اس بات پر اظہار تعجب کیا ہے کہ اتنے احسانات کے ہوتے ہوئے یہ بظاہر کیسے کفر و انکار کی جرأت کرتا ہے ؟ نیز اس بات پر بھی تنبیہ ہے کہ اگر دلائل میں غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا تو کم از کم محسن کا احسان ماننا اس کی تعظیم اور اطاعت کرنا تو ہر شریف انسان کا طبعی اور فطری تقاضہ ہے حتیٰ کہ ایک بےعقل جانور بھی اپنے محسن کا، احسان مند اور مشکور ہوتا ہے، مگر یہ انسان عقل و فہم کا مدعی ہونے کے باوجود اپنے محسن حقیقی کی احسان فراموشی کی جرأت کیسے کرتا ہے۔ تخلیق انسان کی سرگزشت کے ادوار : کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا (الآیة) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کی سرگذشت بیان فرمائی ہے، اور فرمایا کہ ابتداء میں انسان عدم محض تھا، پھر موجود ہوا پھر معدوم ہوگا، پھر مکرر زندہ ہو کر خدا کے سامنے جوابدہی کرے گا، یہ ہے انسان کی پیدائش کی سرگذشت اور مبداء و منتہیٰ ۔ مذکورہ آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ ہے، پہلی موت سے مراد عدم مطلق ہے اور پہلی زندگی بطن مادر سے نکلنے کے بعد بعد موت سے ہم کنار ہونے کے وقت تک ہے دنیوی مدت حیات پوری ہونے کے بعد پھر موت آئے گی، اس کے بعد آخرت کی زندگی کا آغاز ہوگا، جس زندگی کا منکرین قیامت سے انکار کرتے ہیں وہ یہی ہے، شوکانی نے بعض علماء کی رائے ذکر کی ہے کہ قبر کی زندگی دنیوی زندگی ہی کا حصہ ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ برزخی زندگی حیات آخرت کا مقدمہ اور دنیوی زندگی کا تتمہ ہے، یعنی دونوں زندگیوں کے درمیان ایک واسطہ ہے، گو اس کا تعلق عالم آخرت کے مقابلہ میں عالم دنیا سے زیادہ ہے۔ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ : یعنی جس ذات نے پہلی مرتبہ تمہارے بےجان ذرات کو حیات بخشی وہ اس عالم میں تمہاری عمر کا وقت پورا ہونے کے بعد تمہاری اس حیات مستعار کو سلب کرلے گا، پھر ایک عرصہ کے بعد قیامت میں اسی طرح تمہارے جسم بےجان اور منتشر ذرات کو جمع کرکے تمہیں زندہ کرے گا اسی طرح ایک مدت یعنی حالت عدم ابتداء میں تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو حیات بخشی یعنی تم عدم سے وجود میں آئے، دوسری دنیوی زندگی پوری ہونے کے بعد تمہارے اوپر طاری ہوتی ہے، اور پھر دوسری زندگی قیامت کے روز عطا ہوگی۔ (معارف ملخصا) پہلی موت اور زندگی کے درمیان چونکہ کئی فاصلہ نہیں تھا، اس لئے اس میں حرف فاء استعمال کیا گیا یعنی فَاحْیَاکُمْ ، اور چونکہ دنیا کی موت وحیات کے درمیان اور اسی طرح اس موت اور بروز قیامت زندگی کے درمیان فاصلہ ہے، اس لئے لفظ ثم اختیار کیا گیا، یعنی ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ، اس لئے کہ لفظ ثُمَّ بعد مدت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ سوال : اس آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر ہے مگر عالم برزخ (عالم قبر) کی زندگی کا ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ برزخی زندگی نہ تو اس دنیوی زندگی کی طرح مستقل زندگی ہے اور نہ آخرت کی زندگی کے مانند مستقل زندگی ہے، بلکہ مشل خواب، موت وحیات کے مانند ایک درمیانی کیفیت ہے، اس کو دنیوی زندگی کا تکملہ اور آخرت کی زندگی کا مقدمہ بھی کہا جاسکتا ہے یہ چونکہ کوئی مستقل زندگی نہیں کہ اس کا مستقل ذکر کیا جائے اسی وجہ سے اس آیت میں برزخی زندگی کا مستقل ذکر نہیں ہے۔ عالم برزخ : لغت میں برزخ کے معنی ہیں دو چیزوں کے درمیان کی حد، روک، سورة الرحمن، آیت : 120، اور سورة الفرقان آیت 52، میں شیریں اور شور دریاؤں کے درمیان کے حجاب کو برزخ کہا گیا ہے اور اصلاح شریعت میں موت سے حشر تک کی مدت کا نام ہے سورة المؤمنون آیت 100 میں برزخ کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عالم برزخ کو عالم قبر اور قبر کی زندگی بھی کہتے ہیں، شریعت کی اصطلاح میں قبر صرف مٹی کے گڑھے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک عالم ہے، مرنے کے بعد ہر شخص اس عالم میں پہنچ جاتا ہے مرنے کے بعد اس عالم میں پہنچنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے، خواہ مرنے کے بعد قبر میں دفن کیا جائے، یا نہ کیا جائے، اس لئے کہ مر کر انسان ختم نہیں ہوجاتا بلکہ وہ انتقال مکانی کرتا ہے یعنی اس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہوجاتا ہے اور یہ انتقال مکانی روحانی طور پر ہوتا ہے جسم تو اسی دنیا میں گل سڑ کر ختم ہوجاتا ہے یا جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔ عالم برزخ میں مجازات : عالم برزخ کو اگر تمثیلاً گہری نیند سے تعبیر کردیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا، نیند کو اخوالموت کہا جاتا ہے، جس طرح نیند، موت اور زندگی کے درمیان ایک واسطہ ہے، اسی طرح عالم دنیا اور عالم آخرت کے درمیان عالم برزخ بھی ایک واسطہ ہے۔ عالم دنیا اور عالم آخرت تو حقیقةً موجود فی الخارج ہے اور ان کی جزاء و سزا بھی حقیقی اور خارجی ہے، بخلاف عالم برزخ کے کہ وہ مثالی عالم ہے، جو موجود فی الخارج نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی جزاء و سزا بھی موجود فی الخارج نہیں ہوتی، بلکہ تمثیلی ہوتی ہے جیسا کہ سونے والا شخص خواب میں تکلیف دہ اور راحت رساں خیالی واقعات دیکھتا ہے اور ان واقعات سے رنج و راحت محسوس بھی کرتا ہے اور خواب میں پیش آنے والے واقعات کو واقعی اور حقیقی سمجھتا ہے، حالانکہ وہ واقعات نہ حقیقی ہوتے ہیں اور نہ واقعی اور نہ موجود فی الخارج خواب دیکھنے والا جب بیدار ہوتا ہے، تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو خواب تھا ورنہ تو وہ ان واقعات کو واقعی سمجھتا ہے۔ برزخی زندگی اور خواب میں فرق : خواب اور برزخی زندگی میں فرق یہ ہے کہ خوابیدہ شخص جب بیدار ہوجاتا ہے، تو خواب میں پیش آنے والے واقعات سے رنج و راحت کا خیالی تصور جس کو وہ حقیقت اور موجود فی الخارج سمجھے ہوئے تھا، ختم ہوجاتا ہے، مگر عالم برزخ میں جن مثالی اور خیالی تکلیف دہ یا راحت رساں حالات میں مبتلا ہوگا وہ تاقیامت ختم نہ ہوں گے، اس لئے کہ برزخ میں کوئی شخص نفخہء ثانیہ سے پہلے بیدار ہونے والا نہیں ہے، نفخہ ثانیہ کے وقت مجرم : '' مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا '' ( سورة یٰسین) (ہم کو ہماری خوابگاہ سے کس نے اٹھایا ؟ ) کہتا ہوا اٹھے گا، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم برزخ میں برزخیوں کی کیفیت مدت دراز تک (تاقیامت) سونیوالوں کی سی ہوگی، سو نیوالے کے خواب میں پیش آنے والے واقعات سے رنج و راحت کا تعلق سونے والے کی روح سے ہوتا ہے نہ کہ جسد خاکی سے، یہی وجہ ہے کہ سونے والے کو خواب میں جو رنج و راحت کے واقعات پیش آتے ہیں ان کا اثر عام طور پر جسم پر ظاہر نہیں ہوتا اور نہ پاس میں موجود لوگوں کو سونے والے کے رنج و راحت کا احساس ہوتا ہے۔ حالت نوم میں روح کا تعلق جسم سے پوری طرض منقطع نہیں ہوتا : حالت نوم میں روح کا تعلق ہونے کے باوجود کسی نہ کسی درجہ میں باقی رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات خواب میں پیش آنے والے واقعات کا اثر سونے والے کے جسم پر بھی ظاہر ہوجاتا ہے اگر کوئی شخص خواب میں کسی خوفناک چیز کو دیکھتا ہے تو ڈر کر چیخ مار کر بیدار ہوجاتا ہے اور گھبرایا ہوا ہوتا ہے، اس کے برخلاف اگر کوئی مسرور کن واقعہ خواب میں دیکھتا ہے تو اس کے چہرے پر ہنسی اور مسکراہٹ کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ چھوٹا بچہ سونے کی حالت میں ہنستا اور کبھی روتا محسوس ہوتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچہ ڈرانے یا ہنسانے والے خواب دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح مرنے کے بعد روح حیوانی (نسمہ) کا تدبیری تعلق بدن سے منقطع ہوجاتا ہے، مگر وہی یعنی خیالی تعلق باقی رہتا ہے، جیسے ایک ٹیلیفون کا بیشمار ٹیلیفونوں سے بیک وقت تعلق قائم رہتا ہے، مگر جب کسی نمبر کو ڈائل کرتے ہیں، تو اس نمبر سے حقیقی رابطہ قائم ہوجاتا ہے، اس محسوس مثال سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آگئی کہ اگر جسم و روح کے درمیان حقیقی رابطہ منقطع ہوگیا ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ خیالی رابطہ بھی منقطع ہوجائے۔ ( (رح) الواسعہ ملخصا) عالم برزخ میں روح کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا اثر جسم پر بعض اوقات ظاہر ہوجاتا ہے اسی طرح عالم برزخ میں جب مردہ کی روح کے ساتھ اچھایا برا معاملہ ہوتا ہے، تو بعض اوقات ان واقعات کا اثر مردہ کے جسد خاکی پر ظاہر ہوجاتا ہے، بعض روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، ایک روایت میں یہ مضمون وارد ہے کہ آپ ﷺ نے ایک قبر میں مردے کو عذاب ہونے کی اطلاع دی اور آپ نے ہری ٹہنی اس قبر پر گاڑ دی جس سے مردے کے عذاب میں تخفیف ہوگئی، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ روح کا تعلق جسم سے بالکلیہ منقطع نہیں ہوتا۔ عالم برزخ میں مجازات : عالم برزخ میں عذاب وثواب کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ انسان دنیوی زندگی میں جو اچھے یا برے اعمال کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ان اعمال ہی کو تکلیف دہ یا راحت رساں چیزوں کی مثالی شکل میں متشکل کردیتا ہے، جیسا کہ اچھے برے اعمال کا اچھی بری شکلوں میں متشکل ہونا روایات سے ثابت ہے چناچہ ایک درندہ صفت ظالم شخص عالم برزخ میں دیکھتا ہے کہ اسے کوئی درندہ نوچ رہا ہے، اور بخیل آدمی جس نے مالی حقوق واجبہ ادا کرنے میں کوتاہی کی ہوگی تو وہ اپنے مال کو سانپ، بچھو کی شکل میں اپنے اوپر مسلط دیکھتا ہے۔ عالم برزخ میں پوری جزاء یا سزا نہیں ہوگی : عالم برزخ چونکہ عبوری اور عارضی وقفہ ہے ابھی مقدمہ عدالت خداوندی میں فیصل نہیں ہوا، اس کو باقاعدہ مجرم، یا جرم سے بری قرار نہیں دیا گیا اس لئے سزا یا جزاء کا معاملہ ابھی نہیں کیا جاتا دنیاوی قانون کی اصطلاح میں اس کو حوالات کا زمانہ کہا جاتا ہے، مگر ابتدائی انٹرویو سے مقدمہ کا رخ متعین ہوجاتا ہے، یہ انٹرویو (قبر) عالم برزخ میں فکر و نکیر لیتے ہیں جس میں مختصر طور پر تین سوال ہوتے ہیں، (1) مَنْ رَّبُّکَ ؟ (2) مَادِیْنُکَ ؟ (3) مَنْ ھٰذَا الرَّجُلُ ؟ اگر مردہ ان سوالات کا جواب صحیح صحیح دیدیتا ہے، تو اس سے کہا جاتا ہے : '' نَمْ کَنَوْمَةِ العُروس '' تو دلہن کی طرح آرام سے سو جا اور اس کی طرف جنت کے دریچوں میں سے ایک دریچہ کھول دیا جاتا ہے، جس کے ذریعہ جنت کی خوشبوئیں، ٹھنڈی ہوائیں اس تک پہنچتی رہتی ہیں، گویا کہ وہ اشارہ ہوتا ہے اس کی کامیابی کی طرف، اور اگر منکر و نکیر کے سوالوں کا جواب صحیح نہ دے گا بلکہ گھبراہٹ کے عالم میں اس کی زبان سے : '' ھَاء ہَاء لا ادری '' نکلا تو اسکی طرف جہنم کے دریچوں میں سے ایک دریچہ کھول دیا جاتا ہے، پوری سزا مقدمہ فیصل ہونے کے بعد ہوگی۔ فائدہ : عالم برزخ میں منکر و نکیر کے سوالوں اور مردے کے جوابوں اور اس کے نتیجے سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ اول : یہ کہ برزخی زندگی سونے والے کی حالت کے مانند ہے، اس لئے کہ فرشتے انٹرویو میں کامیاب ہونے والے شخص سے کہیں گے : '' نَمْ کَنَوْمَةِ الْعُرُوْسِ '' تو دلہن کے مانند سو جا یعنی اب تجھ کو قیامت تک کوئی اٹھانے والا نہیں، اس حدیث میں برزخی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے اسی کی تائید روز قیامت اٹھائے جانے والے مجرم کے مقولہ : '' مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا '' سے ہوتی ہے۔ دوم : دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عالم برزخ کا مل مجازات کی جگہ نہیں ہے اس لئے کہ حدیث شریف میں جنت کی یا دوزخ کی جانب سے دریچہ کھولنے کا ذکر ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عالم برزخ کا آخرت سے بہت خفیف اور معمولی تعلق ہے، اس لئے کہ عالم برزخ کوئی مستقل عالم نہیں ہے بلکہ دو عالم کے درمیان حد فاصل ہے، جس طرح کہ دھوپ اور چھاؤں دو مستقل چیزیں ہیں اور جہاں دھوپ اور چھاؤں کا التقاء ہوتا ہے، وہ جگہ دونوں کے درمیان حد فاضل ہوتی ہے دونوں کے اثرات وہاں ظاہر ہوتے ہیں، مگر چونکہ عالم برزخ عالم دنیا کا تتمہ اور ضمیمہ ہے، اس لئے یہ عالم، عالم دنیا سے قریب ہوتا ہے اور برزخ میں عالم آخرت کے اثرات بہت خفیف ظاہر ہوتے ہیں، اسی کو حدیث شریف میں کھڑکی کھولنے سے تعبیر کیا گیا ہے، واللہ اعلم بالصواب (رحمة اللہ الواسعة شرح حجة اللہ البالغہ اول از حضرت مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری استاذ حدیث دار العلوم دیوبند) ۔ نوٹ : بنیادی فکر حجة اللہ البالغة سے ماخوذ ہے، الفاظ اور تعبیر مع اضافہ احقر کی طرف سے ہے۔
Top