Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ
: کس طرح
تَكْفُرُوْنَ
: تم کفر کرتے ہو
بِاللہِ
: اللہ کا
وَكُنْتُمْ
: اور تم تھے
اَمْوَاتًا
: بےجان
فَاَحْيَاكُمْ
: سو اس نے تمہیں زندگی بخشی
ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ
: پھر وہ تمہیں مارے گا
ثُمَّ
: پھر
يُحْيِیْكُمْ
: تمہیں جلائے گا
ثُمَّ
: پھر
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
تُرْجَعُوْنَ
: لوٹائے جاؤگے
(کافرو ! ) تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے
آیت نمبر 28 ترجمہ : اے مکہ والو ! تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیوں اختیار کرتے ہو ؟ حالانکہ تم پشتوں میں بےجان نطفے تھے، اس نے ماؤں کے رحموں میں اور دنیا میں تمہارے اندر روح پھونک کر تم کو زندگی بخشی، اور استفہام ان کے کفر پر اظہار تعجب کے لئے ہے اور توبیخ کے لئے ہے، قیام دلیل کے باوجود پھر وہ تم کو موت دے گا، تمہاری مدت حیات ختم ہونے کے وقت پھر تم کو وہی مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر زندہ ہونے کے بعد اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، سو وہ تم کو تمہارے اعمال کی جزاء دے گا، چناچہ جب انہوں نے بعث بعد الموت کا انکار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس پر دلیل کے طور پر فرمایا، وہی تو ہے، جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا فرمائیں یعنی زمین اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ تم اس سے استفادہ کرو اور عبرت حاصل کرو پھر (یعنی) زمین پیدا کرنے کے بعد وہ آسمان کی جانب متوجہ ہوا اور سات آسمان استوار کئے، ھُنَّ ، کی ضمیر اَلسَّمَاء کی طرف راجع ہے اس لئے کہ : اَلسَّماء ماَ یؤل کے اعتبار سے جمع کے معنی میں ہے (سَوّٰہُمَّ ) معنیٰ میں صَیَّرَہَا، جیسا کہ دوسری آیت میں فَقَضٰہُنَّ سِبْعَ سَمٰوٰتٍ ہے اور وہ ہر چیز کا اجمالی اور تفصیلی علم رکھنے والا ہے کیا تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ جو ذات ان (مذکورہ) چیزوں کے ابتداء پیدا کرنے پر قادر ہے جو تم سے عظیم تر ہے تمہارے دوبارہ پیدا کرنے پر (بطریق اولیٰ ) قادر ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ یا اہل مکة، کَیْفَ ، حرف استفہام ہے حالت سے سوال کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر قرآن میں زیادہ تر اناکر اور جرأت پر اظہار تعجب کے لئے مستعمل ہے۔ قولہ : وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا : واؤ حالیہ ہے اور کنتم امواتًا، تکفرون کی ضمیر سے حال ہے مفسر علام نے قَدْ کا اضافہ کرکے ایک سوال مقدر کا جواب دیا ہے۔ سوال : ماضی کا بغیر قد کے حال واقع ہونا صحیح نہیں ہے۔ جواب : قد کا لفظوں میں ہونا ضروری نہیں ہے اگر قد مقدر ہو، تب بھی ماضی حال واقع ہوسکتی ہے، یہاں قد مقدر ہے جیسا کہ مفسر علام نے قد مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے۔ دوسرا جواب : بغیر قد کی تقدیر کے بھی حال بننا درست ہے اس لئے کہ حال محض کنتم امواتاً ہی نہیں ہے بلکہ ما بعد، ترجعون، تک جملہ ہو کر حال ہے، کما جزم صاحب الکشاف، گویا کہ یوں کہا : کیفَ تکفرون ؟ وقصتکم ھذہ۔ قولہ : نُطَقًا فِی الْاَصْلَابِ ، ای اصلاب الرجال، نُطَفْ نُطْفَة، کی جمع ہے صاف پانی، تھوڑا پانی، ٹپکنے والی چیز یہاں مرد کا نطفہ منی مراد ہے۔ قولہ : فَاَحْیَاکُمْ ، یہ محذوف پر مرتب ہے تقدیری عبارت ہے : '' وَکُنْتُمْ عَلَقَةً فمضغةً فَاحْیَاکم '' اس تقدیر کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ نطفہ کے فوراً بعد حیات عطا نہیں ہوتی، بلکہ رحم مادر میں 120، ایام میں مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد حیات عطا ہوتی ہے۔ قولہ : فی الأرحام، وفی الدنیا بنفخ الروح، ظرفیت کا تعلق صرف ارحام سے ہے، بنفخ الروح میں باء سببیہ ہے یعنی اعطاء حیات رحم مادر میں نفخ روح کے سبب سے ہوتی ہے غالباً دنیا کا ذکر حیات رحم اور حیات دنیا میں فرق کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے اس لئے کہ دونوں زندگیوں میں نوعیت کا فرق ہے۔ (ترویح الارواح) قولہ : وَالاستدہام للتعجب من کفرہم : یعنی اتنے سارے انعامات کے باوجود کفر و انکار پر جرأت کرنا باعث حیرت و تجب ہے، یا پھر استفہام توبیخ کے لئے ہے جیسا کہ مفسر (رح) تعالیٰ نے ارشاد کیا ہے کہ معروف معنی میں تعجب مراد نہیں ہے، اس لئے کہ معروف معنی میں تعجب اسباب کے مخفی ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے اور یہ معنی خدا تعالیٰ کے لئے متصور نہیں ہیں، اس لئے کہ باری تعالیٰ سے کسی بھی شئی کے اسباب مخفی نہیں ہیں۔ قولہ : لَاِنَّہَا فی معنی الجمع اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : ثُمَّ اسْتَویٰ اِلَی السَّمَآئِ فَسَوَّاہُنَّ ، میں ہُنَّ کی ضمیر اَلسَّماء کی طرف راجع ہے اور السّماء مفرد ہے اور ضمیر جمع ہے، لہٰذا مرجع اور ضمیر میں مطابقت نہیں ہے۔ جواب : السَّماء مایؤل کے اعتبار سے جمع ہے اس لئے کہ استویٰ کے بعد سات آسمان ہونے والے ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے دَحْوِارض کے بعد سات آسمان بنائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : '' فَقَضٰہُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ '' یہ جواب بھی دیا جاسکتا ہے کہ السّماء میں الف لام جنس کا ہے لہٰذا جمع پر اطالق درست ہے۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : گذشتہ آیات میں خدا کے وجود، توحید و رسالت کے دلائل واضحہ اور منکرین و مخالفین کے خیالات باطلہ کا رد مذکور تھا، ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات اور انعامات کا ذکر کرکے اس بات پر اظہار تعجب کیا ہے کہ اتنے احسانات کے ہوتے ہوئے یہ بظاہر کیسے کفر و انکار کی جرأت کرتا ہے ؟ نیز اس بات پر بھی تنبیہ ہے کہ اگر دلائل میں غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا تو کم از کم محسن کا احسان ماننا اس کی تعظیم اور اطاعت کرنا تو ہر شریف انسان کا طبعی اور فطری تقاضہ ہے حتیٰ کہ ایک بےعقل جانور بھی اپنے محسن کا، احسان مند اور مشکور ہوتا ہے، مگر یہ انسان عقل و فہم کا مدعی ہونے کے باوجود اپنے محسن حقیقی کی احسان فراموشی کی جرأت کیسے کرتا ہے۔ تخلیق انسان کی سرگزشت کے ادوار : کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا (الآیة) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کی سرگذشت بیان فرمائی ہے، اور فرمایا کہ ابتداء میں انسان عدم محض تھا، پھر موجود ہوا پھر معدوم ہوگا، پھر مکرر زندہ ہو کر خدا کے سامنے جوابدہی کرے گا، یہ ہے انسان کی پیدائش کی سرگذشت اور مبداء و منتہیٰ ۔ مذکورہ آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ ہے، پہلی موت سے مراد عدم مطلق ہے اور پہلی زندگی بطن مادر سے نکلنے کے بعد بعد موت سے ہم کنار ہونے کے وقت تک ہے دنیوی مدت حیات پوری ہونے کے بعد پھر موت آئے گی، اس کے بعد آخرت کی زندگی کا آغاز ہوگا، جس زندگی کا منکرین قیامت سے انکار کرتے ہیں وہ یہی ہے، شوکانی نے بعض علماء کی رائے ذکر کی ہے کہ قبر کی زندگی دنیوی زندگی ہی کا حصہ ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ برزخی زندگی حیات آخرت کا مقدمہ اور دنیوی زندگی کا تتمہ ہے، یعنی دونوں زندگیوں کے درمیان ایک واسطہ ہے، گو اس کا تعلق عالم آخرت کے مقابلہ میں عالم دنیا سے زیادہ ہے۔ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ : یعنی جس ذات نے پہلی مرتبہ تمہارے بےجان ذرات کو حیات بخشی وہ اس عالم میں تمہاری عمر کا وقت پورا ہونے کے بعد تمہاری اس حیات مستعار کو سلب کرلے گا، پھر ایک عرصہ کے بعد قیامت میں اسی طرح تمہارے جسم بےجان اور منتشر ذرات کو جمع کرکے تمہیں زندہ کرے گا اسی طرح ایک مدت یعنی حالت عدم ابتداء میں تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو حیات بخشی یعنی تم عدم سے وجود میں آئے، دوسری دنیوی زندگی پوری ہونے کے بعد تمہارے اوپر طاری ہوتی ہے، اور پھر دوسری زندگی قیامت کے روز عطا ہوگی۔ (معارف ملخصا) پہلی موت اور زندگی کے درمیان چونکہ کئی فاصلہ نہیں تھا، اس لئے اس میں حرف فاء استعمال کیا گیا یعنی فَاحْیَاکُمْ ، اور چونکہ دنیا کی موت وحیات کے درمیان اور اسی طرح اس موت اور بروز قیامت زندگی کے درمیان فاصلہ ہے، اس لئے لفظ ثم اختیار کیا گیا، یعنی ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ، اس لئے کہ لفظ ثُمَّ بعد مدت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ سوال : اس آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر ہے مگر عالم برزخ (عالم قبر) کی زندگی کا ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ برزخی زندگی نہ تو اس دنیوی زندگی کی طرح مستقل زندگی ہے اور نہ آخرت کی زندگی کے مانند مستقل زندگی ہے، بلکہ مشل خواب، موت وحیات کے مانند ایک درمیانی کیفیت ہے، اس کو دنیوی زندگی کا تکملہ اور آخرت کی زندگی کا مقدمہ بھی کہا جاسکتا ہے یہ چونکہ کوئی مستقل زندگی نہیں کہ اس کا مستقل ذکر کیا جائے اسی وجہ سے اس آیت میں برزخی زندگی کا مستقل ذکر نہیں ہے۔ عالم برزخ : لغت میں برزخ کے معنی ہیں دو چیزوں کے درمیان کی حد، روک، سورة الرحمن، آیت : 120، اور سورة الفرقان آیت 52، میں شیریں اور شور دریاؤں کے درمیان کے حجاب کو برزخ کہا گیا ہے اور اصلاح شریعت میں موت سے حشر تک کی مدت کا نام ہے سورة المؤمنون آیت 100 میں برزخ کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عالم برزخ کو عالم قبر اور قبر کی زندگی بھی کہتے ہیں، شریعت کی اصطلاح میں قبر صرف مٹی کے گڑھے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک عالم ہے، مرنے کے بعد ہر شخص اس عالم میں پہنچ جاتا ہے مرنے کے بعد اس عالم میں پہنچنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے، خواہ مرنے کے بعد قبر میں دفن کیا جائے، یا نہ کیا جائے، اس لئے کہ مر کر انسان ختم نہیں ہوجاتا بلکہ وہ انتقال مکانی کرتا ہے یعنی اس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہوجاتا ہے اور یہ انتقال مکانی روحانی طور پر ہوتا ہے جسم تو اسی دنیا میں گل سڑ کر ختم ہوجاتا ہے یا جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔ عالم برزخ میں مجازات : عالم برزخ کو اگر تمثیلاً گہری نیند سے تعبیر کردیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا، نیند کو اخوالموت کہا جاتا ہے، جس طرح نیند، موت اور زندگی کے درمیان ایک واسطہ ہے، اسی طرح عالم دنیا اور عالم آخرت کے درمیان عالم برزخ بھی ایک واسطہ ہے۔ عالم دنیا اور عالم آخرت تو حقیقةً موجود فی الخارج ہے اور ان کی جزاء و سزا بھی حقیقی اور خارجی ہے، بخلاف عالم برزخ کے کہ وہ مثالی عالم ہے، جو موجود فی الخارج نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی جزاء و سزا بھی موجود فی الخارج نہیں ہوتی، بلکہ تمثیلی ہوتی ہے جیسا کہ سونے والا شخص خواب میں تکلیف دہ اور راحت رساں خیالی واقعات دیکھتا ہے اور ان واقعات سے رنج و راحت محسوس بھی کرتا ہے اور خواب میں پیش آنے والے واقعات کو واقعی اور حقیقی سمجھتا ہے، حالانکہ وہ واقعات نہ حقیقی ہوتے ہیں اور نہ واقعی اور نہ موجود فی الخارج خواب دیکھنے والا جب بیدار ہوتا ہے، تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو خواب تھا ورنہ تو وہ ان واقعات کو واقعی سمجھتا ہے۔ برزخی زندگی اور خواب میں فرق : خواب اور برزخی زندگی میں فرق یہ ہے کہ خوابیدہ شخص جب بیدار ہوجاتا ہے، تو خواب میں پیش آنے والے واقعات سے رنج و راحت کا خیالی تصور جس کو وہ حقیقت اور موجود فی الخارج سمجھے ہوئے تھا، ختم ہوجاتا ہے، مگر عالم برزخ میں جن مثالی اور خیالی تکلیف دہ یا راحت رساں حالات میں مبتلا ہوگا وہ تاقیامت ختم نہ ہوں گے، اس لئے کہ برزخ میں کوئی شخص نفخہء ثانیہ سے پہلے بیدار ہونے والا نہیں ہے، نفخہ ثانیہ کے وقت مجرم : '' مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا '' ( سورة یٰسین) (ہم کو ہماری خوابگاہ سے کس نے اٹھایا ؟ ) کہتا ہوا اٹھے گا، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم برزخ میں برزخیوں کی کیفیت مدت دراز تک (تاقیامت) سونیوالوں کی سی ہوگی، سو نیوالے کے خواب میں پیش آنے والے واقعات سے رنج و راحت کا تعلق سونے والے کی روح سے ہوتا ہے نہ کہ جسد خاکی سے، یہی وجہ ہے کہ سونے والے کو خواب میں جو رنج و راحت کے واقعات پیش آتے ہیں ان کا اثر عام طور پر جسم پر ظاہر نہیں ہوتا اور نہ پاس میں موجود لوگوں کو سونے والے کے رنج و راحت کا احساس ہوتا ہے۔ حالت نوم میں روح کا تعلق جسم سے پوری طرض منقطع نہیں ہوتا : حالت نوم میں روح کا تعلق ہونے کے باوجود کسی نہ کسی درجہ میں باقی رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات خواب میں پیش آنے والے واقعات کا اثر سونے والے کے جسم پر بھی ظاہر ہوجاتا ہے اگر کوئی شخص خواب میں کسی خوفناک چیز کو دیکھتا ہے تو ڈر کر چیخ مار کر بیدار ہوجاتا ہے اور گھبرایا ہوا ہوتا ہے، اس کے برخلاف اگر کوئی مسرور کن واقعہ خواب میں دیکھتا ہے تو اس کے چہرے پر ہنسی اور مسکراہٹ کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ چھوٹا بچہ سونے کی حالت میں ہنستا اور کبھی روتا محسوس ہوتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچہ ڈرانے یا ہنسانے والے خواب دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح مرنے کے بعد روح حیوانی (نسمہ) کا تدبیری تعلق بدن سے منقطع ہوجاتا ہے، مگر وہی یعنی خیالی تعلق باقی رہتا ہے، جیسے ایک ٹیلیفون کا بیشمار ٹیلیفونوں سے بیک وقت تعلق قائم رہتا ہے، مگر جب کسی نمبر کو ڈائل کرتے ہیں، تو اس نمبر سے حقیقی رابطہ قائم ہوجاتا ہے، اس محسوس مثال سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آگئی کہ اگر جسم و روح کے درمیان حقیقی رابطہ منقطع ہوگیا ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ خیالی رابطہ بھی منقطع ہوجائے۔ ( (رح) الواسعہ ملخصا) عالم برزخ میں روح کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا اثر جسم پر بعض اوقات ظاہر ہوجاتا ہے اسی طرح عالم برزخ میں جب مردہ کی روح کے ساتھ اچھایا برا معاملہ ہوتا ہے، تو بعض اوقات ان واقعات کا اثر مردہ کے جسد خاکی پر ظاہر ہوجاتا ہے، بعض روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، ایک روایت میں یہ مضمون وارد ہے کہ آپ ﷺ نے ایک قبر میں مردے کو عذاب ہونے کی اطلاع دی اور آپ نے ہری ٹہنی اس قبر پر گاڑ دی جس سے مردے کے عذاب میں تخفیف ہوگئی، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ روح کا تعلق جسم سے بالکلیہ منقطع نہیں ہوتا۔ عالم برزخ میں مجازات : عالم برزخ میں عذاب وثواب کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ انسان دنیوی زندگی میں جو اچھے یا برے اعمال کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ان اعمال ہی کو تکلیف دہ یا راحت رساں چیزوں کی مثالی شکل میں متشکل کردیتا ہے، جیسا کہ اچھے برے اعمال کا اچھی بری شکلوں میں متشکل ہونا روایات سے ثابت ہے چناچہ ایک درندہ صفت ظالم شخص عالم برزخ میں دیکھتا ہے کہ اسے کوئی درندہ نوچ رہا ہے، اور بخیل آدمی جس نے مالی حقوق واجبہ ادا کرنے میں کوتاہی کی ہوگی تو وہ اپنے مال کو سانپ، بچھو کی شکل میں اپنے اوپر مسلط دیکھتا ہے۔ عالم برزخ میں پوری جزاء یا سزا نہیں ہوگی : عالم برزخ چونکہ عبوری اور عارضی وقفہ ہے ابھی مقدمہ عدالت خداوندی میں فیصل نہیں ہوا، اس کو باقاعدہ مجرم، یا جرم سے بری قرار نہیں دیا گیا اس لئے سزا یا جزاء کا معاملہ ابھی نہیں کیا جاتا دنیاوی قانون کی اصطلاح میں اس کو حوالات کا زمانہ کہا جاتا ہے، مگر ابتدائی انٹرویو سے مقدمہ کا رخ متعین ہوجاتا ہے، یہ انٹرویو (قبر) عالم برزخ میں فکر و نکیر لیتے ہیں جس میں مختصر طور پر تین سوال ہوتے ہیں، (1) مَنْ رَّبُّکَ ؟ (2) مَادِیْنُکَ ؟ (3) مَنْ ھٰذَا الرَّجُلُ ؟ اگر مردہ ان سوالات کا جواب صحیح صحیح دیدیتا ہے، تو اس سے کہا جاتا ہے : '' نَمْ کَنَوْمَةِ العُروس '' تو دلہن کی طرح آرام سے سو جا اور اس کی طرف جنت کے دریچوں میں سے ایک دریچہ کھول دیا جاتا ہے، جس کے ذریعہ جنت کی خوشبوئیں، ٹھنڈی ہوائیں اس تک پہنچتی رہتی ہیں، گویا کہ وہ اشارہ ہوتا ہے اس کی کامیابی کی طرف، اور اگر منکر و نکیر کے سوالوں کا جواب صحیح نہ دے گا بلکہ گھبراہٹ کے عالم میں اس کی زبان سے : '' ھَاء ہَاء لا ادری '' نکلا تو اسکی طرف جہنم کے دریچوں میں سے ایک دریچہ کھول دیا جاتا ہے، پوری سزا مقدمہ فیصل ہونے کے بعد ہوگی۔ فائدہ : عالم برزخ میں منکر و نکیر کے سوالوں اور مردے کے جوابوں اور اس کے نتیجے سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ اول : یہ کہ برزخی زندگی سونے والے کی حالت کے مانند ہے، اس لئے کہ فرشتے انٹرویو میں کامیاب ہونے والے شخص سے کہیں گے : '' نَمْ کَنَوْمَةِ الْعُرُوْسِ '' تو دلہن کے مانند سو جا یعنی اب تجھ کو قیامت تک کوئی اٹھانے والا نہیں، اس حدیث میں برزخی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے اسی کی تائید روز قیامت اٹھائے جانے والے مجرم کے مقولہ : '' مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا '' سے ہوتی ہے۔ دوم : دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عالم برزخ کا مل مجازات کی جگہ نہیں ہے اس لئے کہ حدیث شریف میں جنت کی یا دوزخ کی جانب سے دریچہ کھولنے کا ذکر ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عالم برزخ کا آخرت سے بہت خفیف اور معمولی تعلق ہے، اس لئے کہ عالم برزخ کوئی مستقل عالم نہیں ہے بلکہ دو عالم کے درمیان حد فاصل ہے، جس طرح کہ دھوپ اور چھاؤں دو مستقل چیزیں ہیں اور جہاں دھوپ اور چھاؤں کا التقاء ہوتا ہے، وہ جگہ دونوں کے درمیان حد فاضل ہوتی ہے دونوں کے اثرات وہاں ظاہر ہوتے ہیں، مگر چونکہ عالم برزخ عالم دنیا کا تتمہ اور ضمیمہ ہے، اس لئے یہ عالم، عالم دنیا سے قریب ہوتا ہے اور برزخ میں عالم آخرت کے اثرات بہت خفیف ظاہر ہوتے ہیں، اسی کو حدیث شریف میں کھڑکی کھولنے سے تعبیر کیا گیا ہے، واللہ اعلم بالصواب (رحمة اللہ الواسعة شرح حجة اللہ البالغہ اول از حضرت مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری استاذ حدیث دار العلوم دیوبند) ۔ نوٹ : بنیادی فکر حجة اللہ البالغة سے ماخوذ ہے، الفاظ اور تعبیر مع اضافہ احقر کی طرف سے ہے۔
Top