Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
تم کس طرح اللہ کا انکار کرسکتے ہو ؟ جب کہ تمہارا وجود نہ تھا ، اس نے تم کو زندگی بخشی پھر وہی ہے جو موت طاری کردیتا ہے پھر دوبارہ زندگی بخشے گا بالآخر تم سب کو اسی کے حضور لوٹنا ہے
اللہ کے انکار کا مطلب رسول کی رسالت کا انکار ہے : 64: مخاطب وہی لوگ ہیں جو عہد تو ڑنے والے اور فساد فی الارض کرنے والے ہیں۔ ان لوگوں نے اگرچہ بظاہر اللہ کا انکار نہیں کیا مگر یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا یا تو اقرار ہی نہیں کیا اور اگر اقرار کیا تو بھی سچے دل سے اقرار کرنے والے نہ تھے یہی وجہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا انکار کرنے والوں کو اللہ ہی کا انکار کرنے والے قرار دیا اور پھر مخاطب فرما کر پوچھا کہ تم اللہ کا کیسے انکار کرتے ہو ؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تم کو زندہ کیا یعنی پیدا کیا۔ تم مردہ تھے یعنی تمہارا وجود موجود نہ تھا۔ اگر انسان اوّل کے لحاظ سے وجود موجود نہ تھا تو مطلب یہ ہو انسان کے وجود کی ابتداء بےجان ذرّات ہیں جو کچھ منجمد چیزوں کی شکل میں کچھ مائع یعنی بہنے والی چیزوں میں کچھ غذاؤں کی صورت میں تمام دنیا میں پھیلے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان بےجان ذرّات کو کہاں کہاں سے جمع فرمایا پھر اپنے قانون کے مطابق ان میں جان ڈالی اور زندہ و تابندہ انسان بنادیا۔ یہ اس کی ابتدائی پیدائش کا ذکر ہے۔ موت کی دوسری صورت ہر انسان کے ساتھ ملحق ہے یعنی ہر انسان اس سے دوچار ہوتا ہے جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا کہ : ہَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْـًٔا مَّذْكُوْرًا 001 (الدھر : 1) ” اس بات میں کوئی شق و شبہ نہیں کہ زمانے میں انسان پر ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا۔ “ اس لحاظ سے ہر ایک انسان پر ایسا وقت گزرتا ہے کہ وہ کوئی شی مذکور یعنی قابل ذکر چیز بلحاظ شکل و صورت موجود نہیں ہوتا۔ پھر قانون الٰہی کے مطابق وہ کئی ادوار میں سے گزرتا ہوا بالآخر انسان کی صورت سے وجود میں آجاتا ہے پھر پیدائش کے دونوں طریقوں کے لحاظ سے یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اس کا خلق کرنے والا یعنی پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے کوئی اور نہیں خواہ اس کی تخلیق اول ہو یا تکوینی قانون الٰہی کے مطابق تخلیق دوم اور تخلیق دوم سے مراد نطفہ امشاج سے تخلیق کرنا ہے یعنی ماں باپ سے بچے کا پیدا ہونا۔ زندگی و موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے : 65: پھر وہی ہے جو حیات کے بعد موت طاری کرتا ہے یعنی جس نے پہلی مرتبہ تمہارے بےجان ذرّات کو جمع کر کے ان میں جان پیدا کی وہ اس عالم یعنی عالم دنیا میں بھی تمہاری عمر کا مقررہ وقت پورا ہونے کے بعد پھر تمہیں موت دے گا اور پھر ایک عرصہ کے بعد یعنی قیامت میں اس طرح تمہارے جسم کے بےجان اور منتشر ذرّات کو حیات عطا فرمائے گا یعنی زندہ کرے گا۔ اس طرح ایک موت یعنی بےجان ہونا تمہاری ابتداء میں تھا پھر اللہ نے تمہیں زندہ کیا دوسری موت دنیا کی پوری عمر ہونے کے وقت اور دوسری زندگی یعنی حیات قیامت کے روز ہوگی۔ مختصر یہ کہ اس آیت میں دنیا کی زندگی اور موت کے بعد صرف ایک حیات کا ذکر ہے جو قیامت کے روز ہونے والی ہے جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس کے علاوہ موت وحیات کے الفاظ جہاں کہیں بھی بولے جائیں گے وہاں حقیقی موت یا حقیقی حیات نہیں ہوگی بلکہ ہر اس جگہ جو اس موت وحیات کے علاوہ یہ الفاظ استعمال ہوں ان کا مفہوم موت وحیات کا مفہوم ثانی ہی مراد لیا جاسکتا ہے جس کو سکنڈری معانی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ موت شکست یا کفر کی موت ہوگی اور وہ حیات فتح و اسلام کی حیات ماننا پڑے گی۔ کہیں موت سے نیند اور حیات سے بیداری بھی مراد ہوسکتی ہے اور سیاق کلام خود معانی متعین کر دے گا۔ قبر یعنی برزخ کی زندگی جس کے ذریعہ قبر کے سوال و جواب اور قبر یعنی برزخ میں ثواب و عذاب ہونا جو قرآن کریم کی بعض آیات سے استدلالاً اور صحیح احادیث سے ثابت ہے اس کا اس جگہ ذکر نہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ برزخی زندگی اس طرح کی زندگی نہیں ہے جو انسان کو دنیا میں حاصل ہے یا آخرت میں پھر ہوگی۔ بلکہ یہ ایک درمیانی صورت مثل خواب کی زندگی کے ہے اس کو دنیا کا تکملہ بھی کہا جاسکتا ہے اور آخرت کی زندگی کا مقدمہ بھی۔ کیونکہ یہ کوئی مستقل زندگی نہیں ہے جس کا جداگانہ ذکر کیا جائے۔ یہ ایک خیالی چیز ہے اور خیالی وجود تسلیم شدہ ہے۔ حشر اجساد انسانی کا مسئلہ : 66: ” بالآخر تم سب کو اس کے حضور لوٹنا ہے “ اس سے مراد حشر و نشر اور قیامت کا وقت ہے۔ قرآن کریم کی اس طرح کی عبارات سے انسان کا مکلف ہونا ثابت ہے اور اپنے کئے کا جواب دہ ہونا لازم آتا ہے۔ جو اسلامی عقائد سے آخری عقیدہ ہے۔ مجموعی طور پر اس آیت میں اللہ نے اپنے اس انعام و احسان کا ذکر کیا ہے جو ہر انسان کی اپنی ذات سے متعلق ہے اور جو سارے انعامات و احسانات کا مدار ہے یعنی زندگی ، دنیا و آخرت اور زمین و آسمان کی جتنی نعمتیں انسان کو حاصل ہیں وہ سب اسی زندگی پر موقوف ہیں۔ زندگی نہ ہو تو کسی نعمت سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ زندگی کا نعمت ہونا ظاہر ہے مگر اس آیت میں موت کو بھی نعمتوں میں شمار اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ دنیا کی موت دروازہ ہے اس دائمی زندگی کا جس کے بعد موت نہیں اس لحاظ سے موت بھی ایک نعمت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر دنیوی زندگی کے ساتھ موت نہ ہوتی تودنیوی زندگی کی ساری نعمتیں بھی بیکار ہوجاتیں۔
Top