Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
(کافرو ! ) تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے
استعجاب بر کفر ونافرمانی وتذکیر انعامات ربانی اور مبداء ومعاد کی یاد دھانی قال تعالیٰ کیف تکفرون باللہ۔۔۔ الی۔۔۔ ثم الیہ ترجعون حق جل شانہ جب دلائل توحید ونبوت و معاد بیان کرچکے اور عبادت کا حکم دے چکے تو اب آئندہ آیات میں اس پر تفریع فرماتے ہیں کہ ایسے قدیر وعظیم اور رحیم وکریم پروردگار سے سرکشی سراسر تعجب خیز ہے ان انعامات و احسانات کا مقتضی تو یہ تھا کہ تم شکر کرتے نہ کہ کفر۔ حیرت ہے کہ ان انعامات اور احسانات کے بعد تم کو کفر پر جرات کیسے ہوئی اور اس توبیخ اور عتاب میں دوسرے عنوان اور دوسرے رنگ میں اس دلیل سابق کا اعادہ فرمایا پھر اس سلسلہ تذکیر میں اولا نعم عامہ کو بیان فرمایا یعنی ان نعمتوں کا ذکر کیا جس کا تعلق عام بنی آدم سے ہے۔ اور ثانیاً نعم خاصہ کو بیان فرمایا یعنی ان نعمتوں کا ذکر کیا جن کا خاص بنی اسرائیل سے تعلق ہے اور دور تک سلسلہ کلام چلا گیا۔ چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ کس طرح اور کیسے تم اللہ جل شانہ کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم بےجان تھے۔ پس اس نے تم کو حیات اور زندگی عطاء کی اور پھر تم کو موت دیگا اور پھر قیامت کے وقت تم کو دوبارہ زندہ کرے گا پھر تم سب حساب و کتاب کے لیے اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے تاکہ دنیاوی زندگی میں تم نے جو کچھ کیا ہے تم کو اس کی جزاء اور سزا ملے۔ پہلی آیت (وکنتم امواتا فاحیاکم) میں وجود صانع کو ثابت کیا کہ خدا وہ ہے جس نے تم کو عدم سے نکال کر وجود عطاء کیا اور نیست سے ہست کیا اور دوسری آیت (ثم یحییکم) میں حشر ونشر کو ثابت کیا اور ساتھ ساتھ دلیل عقلی بھی بیان کی کہ جو ذات پاک پہلی مرتبہ تم کو موت کے بعد زندہ کرنے پر قادر ہے وہ دوسری مرتبہ بھی زندہ کرنے پر قادر ہے اور یہ امر بدیہی اور مسلم ہے کہ موت سے کسی کو چارہ نہیں۔ مرنا سب کو ضرور ہے تو سمجھ لو کہ مر کر خدا ہی کے پاس جانا ہے پس ان تمام باتوں کے جاننے کے بعد تم خدا کا کیسے انکار کرتے ہو۔ الحاصل۔ کنتم امواتاً فاحیاکم۔ میں وجود صانع کی دلیل بیان فرمائی کہ تم کو خدا کا انکار نہ کرنا چاہے کیونکہ تم پہلے مردہ اور معدوم تھے اللہ تعالیٰ نے تم کو وجود عطاء کیا اور جو خود بخود موجود ہو اور دوسروں کو وجود عطاء کرے وہی خدا ہے اور ثم یحییکم سے حیات ثانیہ کی حجت اور دلیل کی طرف اشارہ فرمایا کہ جس قادر مطلق نے پہلی مرتبہ تم کو چھوٹے چھوٹے ذروں اور حقیر و ذلیل نطفوں اور خون کے لوتھڑوں اور خون کے ٹکڑوں سے پیدا کیا اور احسن تقویم کا خلعت تم کو پہنایا کیا اس کی نسبت تمہارا یہ گمان باطل ہے کہ وہ دوبارہ بکھرے ہوئے ذرات کو جمع کر کے تم کو حیات عطاء نہیں کرسکتا۔ تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ تمہیں خدا کی قدرت کے انکار سے شرم نہیں آتی۔
Top