Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 154
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو لِمَنْ : اسے جو يُّقْتَلُ : مارے جائیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتٌ : مردہ بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ :زندہ ہیں وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم شعور نہیں رکھتے
اور ان کو جو اللہ کے راستے میں قتل کیے جائیں، مردے مت کہو، بلکہ زندہ ہیں اور لیکن تم نہیں سمجھتے۔
جہاد میں سب سے بڑی مصیبت جان کا جانا ہے، اس پر صبر کی تلقین اس طرح فرمائی کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مت کہو کہ مردے ہیں، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم اس زندگی کو نہیں سمجھتے۔ آل عمران (169) میں شہداء کی اس زندگی کے عیش و آرام کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں، نہ ہم اسے سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعد برزخ (قبر) میں ہر شخص کو زندگی حاصل ہے۔ (دیکھیے مومن : 11، 46۔ نوح : 25۔ ابراہیم : 27) مگر مومن کی روح راحت میں ہے اور کافر کی روح کو عذاب ہو رہا ہے۔ احادیث کے مطابق قبر ہی میں ان کے لیے جنت یا دوزخ کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ یہ زندگی انبیاء کو سب سے بڑھ کر کامل حالت میں حاصل ہے، مگر شہداء کی عزت افزائی کے لیے قرآن نے انھیں خاص طور پر ”اَحْيَاۗءٌ“ کہا ہے، تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں قتل ہوگیا، اس سے زندگی کا عیش و آرام چھن گیا۔ اَمْوَاتٌ) اس پر رفع اس لیے آیا ہے کہ اس کا مبتدا ”ھُمْ“ محذوف ہے، اسی طرح ”اَحْيَاۗءٌ“ کا مبتدا بھی محذوف ہے۔ سورة آل عمران (169) میں ”اَمْوَاتًا“ پر ”وَلَا تَحْسَبَنَّ“ کا مفعول ہونے کی وجہ سے نصب آیا ہے۔
Top