Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Waaqia : 62
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى فَلَوْ لَا تَذَكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق عَلِمْتُمُ : جان لیا تم نے النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى : پہلی دفعہ کی پیدائش کو فَلَوْلَا تَذَكَّرُوْنَ : تو کیوں نہیں تم نصیحت پکڑتے
اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے پھر تم سوچتے کیوں نہیں ؟
62۔ دنیا میں جب کوئی آدمی ایسا بڈھا یا ایسا بیمار ہوجاتا ہے کہ اس کو اپنی زیست کا بھروسہ کم ہوتا ہے تو زندگی کی راحت سے بسر کرنے کے جو سامان ہیں مثلاً مکان کا بنانا یا نوکری تجارت یا کسی اور دہندے کا کرنا اس طرح کا زیست سے ناامید اور بےبھروسہ آدمی پھر ان راحت کے سامانوں میں زیادہ دل نہیں لگاتا کیونکہ یہ سمجھتا ہے کہ جب جینا ہی بےبھروسہ ہے تو زیست کو راحت سے بسر کرنے کے سامان کی کیا ضرورت ہے کس لئے کہ جب زیست ہی نہیں تو زیست کو راحت سے بسر کرنے کا موقع کہاں ہے یہی حال منکرین حشر کا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زیست پر ان لوگوں کو پورا یقین نہیں ہے اس لئے دوبارہ زیست کو راحت سے بسر کرنے کے جو سامان ان کو بتائے جاتے ہیں کہ اللہ کو ایک جانو اللہ کی مرضی کے موافق کام کرو۔ کوئی کام برا اللہ تعالیٰ کی خلاف مرضی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی کی التجا کرو تو یہ باتیں ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اس خرابی کے دفع کرنے کے لئے شروع میں مرنے کے بعد پھر جینے پر ایمان لانا ضروری ٹھہرایا ہے اور منکرین حشر کو قرآن شریف میں جگہ جگہ طرح طرح کی مثالوں سے اللہ تعالیٰ نے قائل کیا ہے تاکہ پہلے ان لوگوں کے جی میں مرنے کے بعد پھر جینے کا یقین پور طور پر پیدا ہوجائے تو پھر اس دوبارہ زیست کی راحت سے بسر کرنے کے جو سامان ان لوگوں کو بتائے جائیں گے ان سامانوں کے بہم پہنچانے کا فکر بھی ان کے دل میں خودبخود پیدا ہوجائے گا اس آیت میں ایک سیدھی مثال سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سمجھایا ہے کہ پہلے تم بالکل نیست و نابود تھے ‘ ہم نے تم کو پیدا کیا تم مرو گے تو اس سے بڑھ کر اور کون سی بات ہوسکتی ہے کہ پہلے کی طرح تم بالکل نیست و نابود ہوجاؤگے۔ پھر کیا اتنی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ جس طرح ہم نے پہلی دفعہ تم کو پیدا کیا دوبارہ اسی طرح ہم کو پیدا کرنا کیا مشکل ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے آگے مشکل اور آسان کام سب یکساں ہیں لیکن یہ دنیا کے تجربہ کی ایک بات ہے کہ دفعہ جو کوئی ایک کام کرلے تو دوسری دفعہ اس کو وہ کام آسان ہوجاتا ہے۔ اسی واسطے سورة روم میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ بھی سمجھایا ہے کہ جب ایک دفعہ ہم نے تم کو پیدا کردیا تو اپنے دنیا کے تجربہ کے موافق تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ بہ نسبت پہلی دفعہ کے ہم کو دوسری دفعہ تمہارا پیدا کرنا بہت آسان ہے۔ قرآن شریف کی اکثر آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خالق اور رازق ہونے کے یہ مشرک لوگ قائل تھے۔ اس لئے ان لوگوں کی مانی ہوئی بات سے ان کو قائل کیا گیا ہے کہ بغیر کسی نمونہ کے جب ایک کام کا ایک دفعہ ہوجانا تم لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے جس کا تم لوگوں کو بھی اقرار ہے تو پھر اسی نمونہ کے موافق اس کام کے دوبارہ ہوجانے کو کوئی صاحب عقل مشکل نہیں بتا سکتا۔
Top