Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Waaqia : 63
اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَؕ
اَفَرَءَيْتُمْ : کیا بھلا دیکھا تم نے۔ غور کیا تم نے مَّا تَحْرُثُوْنَ : جو بیج تم بوتے ہو
بھلا دیکھو تو جو کچھ تم بوتے ہو
63۔ 74۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اپنے رزاق ہونے کا ذکر فرمایا ہے حاصل معنی ان آیتوں کے یہ ہیں کہ انسان کے رزق کا دار مدار زمین کی پیداوار پر اور زمین کی پیداوار کا دار مدار مینہ کے برسنے پر ہے اور یہ سب کی آنکھوں کے سامنے کی بات ہے کہ کھیتی کرنے والے لوگ زمین میں بیج ڈال کر ایسے بےبس ہوجاتے ہیں کہ ایک سال بھی بیج ڈالنے کے بعد مینہ نہ برسے یا برسے تو سمندر کا سا کڑوا پانی بیج کا جلا دینے والا برسے تو بجائے ڈھیر کے ڈھیر اناج کے ایک دانہ بھی پیدا نہ ہو۔ اور پانی پینے تک کو لوگ ترس جائیں اور بیج کے نقصان پر طرح طرح کے افسوس و حسرت کی باتیں منہ سے نکالنے لگیں۔ اسی طرح رزق انسان کے منہ تک پہنچنے کے سامانوں میں ایک بڑا سامان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو دنیا میں پیدا کیا جس سے اناج طرح طرح سے پکا کر کھایا جاتا ہے اگر بالفرض ایک سال زمین کی پیداوار حسب دلخواہ ہو لیکن اس سال تمام روئے زمین کی آگ بجھ جائے تو جانروں کی طرح کوئی انسان بھی کچا اناج کھا کر تندرست نہ رہ سکے اوپر کی آیتوں کے اور ان آیتوں کے نازل فرمانے سے مشرکوں کو یوں قائل کرنا مقصود ہے کہ اپنے خالق اپنے رزاق کی تعظیم اور عبادت میں یہ لوگ غیروں کو جو شریک ٹھہراتے ہیں تو ان غیروں کو یہ رتبہ ان لوگوں نے آخر کس استحقاق سے دیا ہے کچھ بتائیں تو سہی۔ آخر کو اپنے رسول کو فرمایا کہ یہ کم عقل لوگ بتوں کی پوجا میں لگے رہیں تو تم ان کی کچھ پرواہ نہ کرو اور ہر وقت اللہ کی عبادت میں لگے رہو وقت مقررہ آنے پر ان کا کیا خود ان کے آگے آجائے گا۔ صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم کی ابوموسیٰ اشعری کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے زیادہ بردبار کون ہوگا کہ مشرک لوگ شرک کرتے ہیں اور وہ رزق پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو جو اپنی رزاقی صفت ان آیتوں میں جتلائی ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ اس ملک میں جس طرح بانس کا پیڑ ہے کہ وہ دو بانسوں کے رگڑنے سے آگ نکلتی ہے اسی طرح عرب میں بھی بعض درخت ہیں کہ ان کی دو لکڑیوں کے رگڑنے سے آگ نکلتی ہے ہری چیز میں سے آگ کا نکلنا یہ بھی اللہ کی قدرت کی بڑی نشانی ہے اسی طرح کی آگ سے جنگل میں مسافروں کے بہت کام نکلتے ہیں اس لئے مسافروں کا ذکر فرمایا۔ دنیا کی آگ کو جہنم کی آگ کی یاد دہی اس واسطے فرمایا کہ آدمی جب دنیا کی آگ کی بھی برداشت نہیں کرسکتا تو جو آگ اس سے انہتر درجہ بڑھ کر تیز ہے اس سے بچنے کی تدبیر سے غافل نہ رہنا چاہئے۔ (1 ؎ صحیح بخارب باب الصبر والاذیٰ ص 901 ج 2 و صحیح مسلم باب فی الکفار ص 374 ج 2۔ )
Top