Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 62
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى فَلَوْ لَا تَذَكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق عَلِمْتُمُ : جان لیا تم نے النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى : پہلی دفعہ کی پیدائش کو فَلَوْلَا تَذَكَّرُوْنَ : تو کیوں نہیں تم نصیحت پکڑتے
اپنی پہلی پیدائش کو تم جانتے ہو، تو پھر کیوں سبق حاصل نہیں کرتے
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی فَلَوْلاَ تَذَکَّرُوْنَ ۔ (الواقعۃ : 62) (اپنی پہلی پیدائش کو تم جانتے ہو، تو پھر کیوں سبق حاصل نہیں کرتے۔ ) یعنی اگر تم نے عالم آخرت کو نہیں دیکھا جس میں انسان نئی زندگی پا کر پہنچے گا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم آخرت کا انکار کردو، اور اس کی تکذیب پر اصرار کرنے لگو۔ آخر تم نے دنیا کی زندگی کو تو دیکھا ہے اس سے سبق حاصل کیوں نہیں کرتے، اور وہ سبق یہ ہے کہ ہماری تخلیق اور ہماری یہ دنیا اور یہاں چلنے والے قوانین سب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اس کی قدرت کاملہ کا ظہور ہے۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو کرنے پر قادر ہے۔ لیکن اس کے بالکل برعکس یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ چونکہ یہاں کی ہر چیز فانی اور ختم ہونے والی ہے تو ہم آخر اس دنیا کو کیسے تسلیم کرلیں جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اس میں الجھن صرف اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم دنیا کو حتمی اور دائمی سمجھتے ہیں، اور اس میں ہونے والی ہر بات کو حالات کا تقاضا جانتے ہیں۔ لیکن اگر یہ بات سمجھ میں آجائے کہ یہ کچھ ہورہا ہے سراسر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہورہا ہے اور اس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ جس طرح دنیا بنا سکتا ہے، اسی طرح وہ آخرت بھی بنا سکتا ہے۔ ہمیں یہاں کوئی الجھن پیش نہیں آتی تو وہاں آخر کیوں آئے گی۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس دنیا کو ہم دیکھ رہے ہیں، وہ دنیا ہماری آنکھوں سے اوجھل اور عقل کی رسائی سے ماورا ہے۔
Top