Tafseer-e-Usmani - Al-Furqaan : 18
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى نَسُوا الذِّكْرَ١ۚ وَ كَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا
قَالُوْا : وہ کہیں گے سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے مَا كَانَ : نہ تھا يَنْۢبَغِيْ : سزاوار۔ لائق لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ : کہ نَّتَّخِذَ : ہم بنائیں مِنْ دُوْنِكَ : تیرے سوا مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : مددگار وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّتَّعْتَهُمْ : تونے آسودگی دی انہیں وَاٰبَآءَهُمْ : تونے آسودگی دی انہیں حَتّٰي : یہانتک کہ نَسُوا : وہ بھول گئے الذِّكْرَ : یاد وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونے والے لوگ
بولیں گے تو پاک ہے ہم سے بن نہ آتا تھا کہ پکڑلیں کسی کو تیرے بغیر رفیق7 لیکن تو ان کو فائدہ پہنچاتا رہا اور ان کے باپ دادوں کو یہاں تک کہ بھلا بیٹھے تیری یاد اور یہ تھے لوگ تباہ ہونے والے8
7 یعنی ہماری کیا مجال تھی کہ تجھ سے ہٹ کر کسی دوسرے کو اپنا رفیق و مددگار سمجھتے۔ پھر جب ہم اپنے نفس کے لیے تیرے سوا کوئی سہارا نہیں رکھتے تو دوسروں کو کیسے حکم دیتے کہ ہم کو اپنا معبود اور حاجت روا سمجھیں۔ 8 یعنی اصل یہ ہے کہ یہ بدبخت اپنی سوء استعداد سے خود ہی تباہ ہونے کو پھر رہے تھے ہلاکت ان کے لیے مقدر ہوچکی تھی، ظاہری سبب اس کا یہ ہوا کہ عیش و آرام میں پڑ کر اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر آپ کی یاد کو بھلا بیٹھے، کسی نصیحت پر کان نہ دھرا، پیغمبروں کی ہدایت و ارشاد کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کرلیں اور دنیاوی تمتع پر مغرور ہوگئے۔ آپ نے اپنی نوازش سے جس قدر ان کو اور ان کے باپ دادوں کو دنیا کے فائدے پہنچائے، یہ اسی قدر غفلت و نسیان میں ترقی کرتے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انعامات الٰہیہ کو دیکھ کر منعم حقیقی کی بندگی اور شکر گزاری اختیار کرتے، الٹے مغرور و مفتون ہو کر فکر و عصیان پر تل گئے۔ گویا جو امرت تھا، بدبختی سے ان کے حق میں زہر بن گیا۔
Top