Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 260
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰى١ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ١ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا١ؕ وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّ : میرے رب اَرِنِيْ : مجھے دکھا كَيْفَ : کیونکر تُحْيِ : تو زندہ کرتا ہے الْمَوْتٰى : مردہ قَالَ : اس نے کہا اَوَلَمْ : کیا نہیں تُؤْمِنْ : یقین کیا قَالَ : اس نے کہا بَلٰي : کیوں نہیں وَلٰكِنْ : بلکہ لِّيَطْمَئِنَّ : تاکہ اطمینان ہوجائے قَلْبِىْ : میرا دل قَالَ : اس نے کہا فَخُذْ : پس پکڑ لے اَرْبَعَةً : چار مِّنَ : سے الطَّيْرِ : پرندے فَصُرْھُنَّ : پھر ان کو ہلا اِلَيْكَ : اپنے ساتھ ثُمَّ : پھر اجْعَلْ : رکھ دے عَلٰي : پر كُلِّ : ہر جَبَلٍ : پہاڑ مِّنْهُنَّ : ان سے (انکے) جُزْءًا : ٹکڑے ثُمَّ : پھر ادْعُهُنَّ : انہیں بلا يَاْتِيْنَكَ : وہ تیرے پاس آئینگے سَعْيًا : دوڑتے ہوئے وَاعْلَمْ : اور جان لے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
پھر اس واقعہ پر غور کرو جب ابراہیم نے کہا تھا کہ اے رب ! مجھے دکھا دے کہ تو (کفر کی موت) مرے ہوؤں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ اللہ نے فرمایا کیا تمہیں اس کا یقین نہیں ہے ؟ عرض کیا ضرور ہے لیکن یہ اس لیے چاہتا ہوں تاکہ میرے دل کو قرار آجائے اس پر ارشاد الٰہی ہوا ، اچھا یوں کرو کہ پرندوں میں سے چار پرندے پکڑ لو اور انہیں اپنے پاس رکھ کر اپنے ساتھ مانوس کرو یعنی ان کو ہلا لو پھر ان چاروں میں سے ہر ایک کو ایک ایک پہاڑ پر بٹھا دو ، پھر انہیں بلاؤ وہ تمہاری طرف اڑتے ہوئے چلے آئیں گے ، یاد رکھو اللہ غالب ہے اور اپنے تمام کاموں پر حکمت رکھنے والا ہے
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک رؤیا کا ذکر : 449: جس طرح پچھلی آیت کے سیاق کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا قصہ ایک رویا کا واقعہ تھا اسی طرح اس قصہ کا بھی رویا میں واقع ہونا پایا جاتا ہے اول تو اس وجہ سے کہ سب سے اول جو قصہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ بیان ہوا وہ ظاہر صورت میں ایک واقعہ تھا اس سے ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو علیحدہ کر کے اس قصہ کے بعد بیان کیا ہے جو رویا میں واقع ہوا تھا ۔ دوسرے یہ کہ کیفیت احیائے موتی امر مشاہد بالعین نہیں ہے اور اس لفظ ” اَرِنِیْ “ سے کسی ایسے امر سے مراد نہیں ہے جو وقوع فی المشاہدہ ہو بلکہ ارادت قلبی مراد ہے پس گویا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ کہنا کہ ” اے رب ! میرے دل کو بتادے کہ مردے کسی طرح زندہ ہوں گے۔ تیسرے یہ کہ اس طرح کے ترددات جو بزرگوں کو اور اہل دل کو واقع ہوتے ہیں ان کا رفع اور تسلی اس طریق سے ہوتی ہے جس کو مشاہدات یا مکاشفات یا رؤیا سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو فطرت انسانی کے بالکلیہ مطابق ہے۔ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں پیدا ہوا تھا اس کا رفع ہوناچاہا تھا اس کا رفع ہونا دنیاوی مشاہدہ اور ان ظاہری آنکھوں کے دیکھنے سے علاقہ نہیں رکھتا تھا ۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ جو یہاں مذکورہوا ہے وہ ایک رؤیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے۔ انہوں نے رؤیا میں اللہ تعالیٰ سے فرمایا کہ اے اللہ ! مجھ کو دکھلا یا بتا کہ تو کس طرح مردے زندہ کرے گا۔ پھر خواب ہی میں اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے انہوں نے چار پرندہ جانور لیے اور ان کو ہلا کر اور مانوس کر کے پہاڑ پر رکھ دیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے چار پہاڑوں پر رکھا گیا ہو۔ پھر ان کو ایک ایک کر کے بلایا تو وہ سب جانور الگ الگ زندہ ہو کر چلے آئے اور اس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کو مردوں کے زندہ ہونے سے جن کے اجزاء بعد مرنے کے عالم میں مخلوط اور منتشر ہوتے ہیں ، طمانیت ہوگئی۔ مسلمان علماء کرام اور قدیم مفسرین کو بھی اس بات پر یقین نہیں تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سچ مچ جانوروں کا قیمہ کر کے پہاڑ پر رکھ دیا تھا اور اس لیے اس آیت کی نسبت مفسرین کی تین رائیں قائم ہوتی ہیں : ایک وہ لوگ ہیں جن کی رائے یہ ہے کہ درحقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جانوروں کا قیمہ کر کے پہاڑوں پر رکھ دیا اور پھر جب بلایا تو وہ زندہ ہو کر چلے آئے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو ” صُرْهُنَّ “ کے معنی قیمہ کرنے کے نہیں لیتے بلکہ اپنے سے ہلا لینے یعنی مانوس کرلینے کے لیتے ہیں اور جزء کے معنی ہر ایک جانور کے جزء کے نہیں لیتے بلکہ چار کُل میں سے ایک کے جزء ہونے کے لیتے ہیں کیونکہ جب مجموعہ چار ہے تو ایک اس کا جزء ہی ہے جس سے آیت کا مطلب صرف یہ رہ جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چند جانور اپنے سے ہلائے یعنی مانوس کیے اور پھر کوئی جانور کسی پہاڑ پر اور کوئی کسی پہاڑ پر چھوڑ دیا اور پھر جب بلایا تو سب چلے آئے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جانوروں کا قیمہ کرنا اور پہاڑوں پر رکھنا واقع نہیں ہوا بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایسا کرنے کا حکم دیا تو اس حکم سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کو طمانیت ہوگئی پھر انہوں نے نہ جانور پکڑے ، نہ ان کا قیمہ کیا یا ہلایا اور مانوس کیا ، نہ پہاڑوں پر رکھا ، نہ اس کی ضرورت باقی رہی۔ ہمارے خیال میں ان تینوں گروہوں نے رؤیا کے واقعات کو ظاہری واقعات سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ عیسائی بحث کرنے والوں نے ہمارے مفسرین کے ان اقوال کو غنیمت سمجھا اور بلا تحقیق اصل مطلب کے قرآن کریم پر اعتراض کرنے شروع کردیئے اور ان کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ جن الفاظ پر وہ بحث کر رہے ہیں وہ الفاظ قرآن کریم کے نہیں بلکہ مفسرین کے ہیں ، جن الفاظ کا قرآن کریم متحمل ہی نہیں ہے اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ ان کی اپنی کتابوں میں کیا کیا تحریر ہے ؟ چناچہ کتاب حزقیل میں حضرت حزقیل کے رؤیا کا ذکر ہے کہ : ” وہ ایک جنگل میں جس میں آدمیوں کی بہت سی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں ، خدا نے کہا کہ کیا یہ ہڈیاں زندہ ہو سکتی ہیں ، پھر حزقیل نے ان ہڈیوں سے خدا کے حکم سے کہا کہ تم زندہ ہوگی ، تم پر رگ اور گوشت آجاوے گا اور جان پڑجاوے گی اور تم زندہ ہوجاؤ گے۔ چناچہ وہ ہڈیاں ہلیں اور گوشت و چمڑہ پیدا ہوا ، پھر وہ سب اسی طرح زندہ ہوگئیں “ اور توریت کتاب پیدائش باب 15 میں لکھا ہے کہ : ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بیٹا پیدا ہونے کی بشارت کے وقت خدا نے کہا تھا کہ چار جانور لے اور ان کے دو دو ٹکڑے کیے مگر پرندوں کے ٹکڑے کو اس کے مقابل رکھ دے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چارپایوں کے ٹکڑے ٹکڑے کیے مگر پرندوں کے ٹکڑے نہیں کیے اور پھر اس کو نیند آگئی اور وہ سو گیا “ پس عیسائیوں نے ہمارے مفسرین کی ناتحقیق روایتوں کو تو دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ دونوں قصے جو قرآن کریم میں موجود ہیں اور جن کے ساتھ مفسرین کی ناتحقیق روایتیں ملائی ہیں وہ ان دونوں قصوں سے جو تورات میں موجود ہیں بنائی گئی ہیں لیکن ہم کو اس وقت ناقابل فہم قصوں پر جو تورات میں اور کتاب حزقیل میں مذکور ہیں بحث کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اس قدر بتانا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں جو یہ دونوں قصے مذکور ہیں ان سے اور کتاب حزقیل اور تورات کے مندرجہ قصوں سے کچھ تعلق نہیں ہے بلکہ ہمارے بعض مفسرین کی سادگی اور عیسائیوں کی چالاکی کا یہ نتیجہ ہے۔ زیر بحث آیت میں علاوہ ازیں مفہوم کی بھی گنجائش موجود ہے۔ ہمارا بیان صحیح ہے تو وہ اللہ کا احسان ہے اور اگر اس میں غلطی یا کمی ہے تو وہ میری کم علمی کی وجہ سے ہے اور میری دعا ہے کہ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا 00 سیّدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی التجاء بدرگاہ الٰہی : 450: سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ اے میرے رب ! میں نے ان لوگوں کو بہت سمجھایا جو کفر کی موت مر چکے ہیں لیکن انہوں نے میری بات پر ذرا دھیان نہ دیا اب تو ہی بتا کہ ان کو ایمان کی زندگی کیونکر ملے گی اور کس طرح یہ زندہ ہوں گے ؟ یہ سوال یوں پیدا ہوا کہ اللہ نے فرمایا تھا : ” تیری نسل ایک عظیم الشان قوم بن جائے گی “ میں نے بہت مدت تک ان کو دعوت دی لیکن بےاثر رہی اب اس کا خیال آنا فطرت انسانی کے مطابق ہے کہ یہ کس طرح ہوگا ؟ اور کب ہوگا ؟ یہی وجہ ہے کہ جب آپ سے کہا گیا کہ ” کیا تمہیں یقین نہیں ہے ؟ “ عرض کی ضرور ہے : ” وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَىِٕنَّ قَلْبِیْ 1ؕ “ لیکن یہ اس لیے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار ہوجائے۔ یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ یہ آپ کو احیائے موتیٰ پر شک نہیں بلکہ ان معاندین کے متعلق دل میں صرف ایک خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ وقت کب آنے والا ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے کہ : ” تیری نسل ایک عظیم الشان قوم بن جائے گی “ چناچہ بالکل اس سے ملتے جلتے الفاظ تورات میں بھی موجود ہیں ، جب یہ وعدہ آپ کو دیا گیا۔ ” کہ کنعان کا ملک آپ کو دیا جائے گا تو آپ نے دریافت کیا اے خداوند خدا ! میں کس طرح جانوں کہ میں اس کا وارث ہوں گا۔ “ (پیدائش 15 : 5) آپ خود غور فرما لیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے قیامت کو مردے زندہ ہونے کے بارے میں سوال کیا یا ان مردہ لوگوں کے زندہ ہونے کے بارے میں جن پر آپ کی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا اور وہ قوت ایمانی ضائع کر کے اور کفر کی روش اپنا کر زندگی ہی میں مر چکے تھے۔ ان دو احتمالوں میں سے جو احتمال بھی آپ کے پیش نظر ہے اس کا جواب اس آیت میں موجود ہے۔ عام مفہوم جو سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ : ابراہیم (علیہ السلام) کو ان چار پرندوں کو پکڑ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے یا قیمہ کردینے کا حکم ہوا اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر ان پارہ ہائے گوشت یا قیمہ شدہ گوشت کو چار حصوں میں تقسیم کر کے چار پہاڑوں پر رکھ دیا اور پھر ان کے ناموں سے جو ان کے ابراہیم (علیہ السلام) نے رکھے تھے یا جن ناموں سے وہ معروف تھے ان کو بلایا گیا تو وہ دوڑ کر ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچنے لگے جس سے ابراہیم (علیہ السلام) کو یقین آگیا یا شک دور ہوگیا۔ حالانکہ یہ تفہیم کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ہے کیونکہ نہ تو قرآن کریم کے الفاظ اس کے متحمل ہیں اور نہ ہی کوئی صحیح حدیث اس سلسلہ میں موجود ہے بلکہ اس طرح مفہوم قرار دینے میں بہت کچھ اپنے پاس سے ملانے کی ضرورت پیش آتی ہے جو خواہ مخواہ قرآن کریم سے زیادتی ہے۔ ” فَصُرْهُنَّ “ کے معنی ٹکڑے ٹکڑے (Torn into pieces) کرنا یا قیمہ کرنا نہ لغت کے اعتبار سے صحیح ہے اور نہ ہی سیاق وسباق اس کا ساتھ دیتا ہے بلکہ اس کے صحیح معنی سدھا لینے (Tame them) ، ہلا لینے اور مانوس کرلینے کے ہیں۔ ” ادْعُهُنَّ “ میں جو ضمیر ہے وہ ذی روح کے لیے ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ پرندے جن کو بلانے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اگر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے یا قیمہ کوٹ لینے کے بعد بھی وہ زندہ تھے تو پھر صحیح ہے ورنہ اس کا یہ مفہوم لینا سراسر قرآنی الفاظ کے ساتھ زیادتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس آیت کا واضح مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ اگر تم چار پرندوں کو لو اور ان کو خوب مانوس کرلو کہ وہ تم سے اچھی طرح مانوس ہوجائیں جس طرح شکاری پرندے شکار کرنے والے یا سدھانے والے سے مانوس ہوجاتے ہیں پھر ان کو الگ الگ پہاڑ پر چھوڑ دو جو درحقیقت ان کا اصل مسکن ہے اور اس طرح اب تم ان کو آزاد کرنے کے بعد بلاؤ تو وہ بےساختہ آزادی کو چھوڑ کر تمہاری طرف چلے آئیں گے کیونکہ وہ تم سے اس قدر مانوس ہوچکے ہیں کہ اب ان کو آزاد رہنا گویا پسند ہی نہیں ہے تو پھر یہ چار عناصر سے مرکب انسان جو اس قدر مردہ دل ہوچکے ہیں کہ آپ کی زندہ کردینے والی تعلیم کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اگر آپ ان کو اخلاق حسنہ سے مسلسل تعلیم کے ساتھ مانوس کرلیں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی تعلیم وبلیغ کا اثر قبول نہ کریں ؟ آپ ان کی تعلیم کا خیال رکھیں ، ان کو مانوس کرنے کی پوری کوشش جاری رکھیں اور بددل (Dis heart) نہ ہوں وہ دن دور نہیں کہ تمہاری اس تبلیغ کا اثر ہو کر رہے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو تبلیغ کا ایک ایسا ڈھنگ اور ایسا بہترین طریقہ سکھا دیا جس کے اچھے نتیجہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مفسرین ہی میں سے وہ بھی ہیں جو اس طرح تفسیر کرتے چلے آ رہے ہیں اگرچہ وہ کم ہوں۔ پھر اس سے اس کی تائید ہوجاتی ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو نہ تو کبھی احیائے موتیٰ میں شک ہوا اور نہ ہی ظاہری آنکھوں سے مشاہدہ کی کوئی ضرورت۔ وہ تو دو سرے انسانوں کی نسبت ایمان بالغیب کے زیادہ پابند ہوتے ہیں بلکہ ان کا ایمان بالغیب اتنا قوی اور اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ عام انسانوں کا مشاہدہ کرلینے کے بعد بھی اتنا قوی نہیں ہو سکتا۔ پھر کشف حجاب کا سوال کیسا ؟ اور ایسے جواب کی ضرورت ہی کیا ؟ دراصل یہ سب ہمارے مفسرین اور ذی علم لوگوں کا اپنا تخیل ہے یہی وجہ ہے کہ پرندوں کی بحث کہیں سے کہیں نکل گئی جس کا اصل مطلب سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ارشاد نبوی ﷺ بھی پیش کیا جاتا ہے اس کا حال بھی سنتے جائیں تاکہ حقیقت واضح ہوجائے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی بخاری (حدیث : 630) و مسلم (حدیث : 424) دونوں میں موجود ہے کہ : ” نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّکِّ مِنْ إِبْرَاہِیمَ ..... “ اس کا مطلب نہایہ ابن الاثیر ، مجمع البحار ، فتح الباری ، نووی ، مشکل الآثار طحاوی ص : 135 ج اوّل میں امام بیہقی (رح) نے کتاب الاسماء والصفات میں ، امام خطابی (رح) اور امام مزنی (رح) نے عبداللہ بن مبارک ، سعید بن جبیر ، عبداللہ بن عباس ؓ سے نقل فرمایا ہے کہ انبیاء کرام کے لیے احیاء موتیٰ میں شک مستحیل ہے اگر وہ نبوت کے منافی نہ ہوتا تو ہم بھی کرسکتے تھے مگر جب ہمیں شک نہیں تو ابراہیم (علیہ السلام) کو کیسے شک ہو سکتا ہے۔ فتح الباری میں ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حدیث میں ” نَحْنُ “ سے مراد مسلمانوں کی جماعت ہے کہ ہم مسلمانوں کو جب شک نہیں تو ابراہیم (علیہ السلام) جیسے اولو العزام نبی کو کیسے ہو سکتا ہے ؟ لیکن اس فقرہ کا مطلب اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ان الفاظ کو قرآن کریم کے الفاظ کے بالمقابل رکھ دیا جائے اور مطلب خود بخود واضح ہوجائے گا۔ چناچہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں : ” نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ “ (البقرہ 2 : 247) کہ جو لوگ ملک کے حقدار ہیں ان کو تو ملک دیا نہیں اور جو اس کے حقدار نہیں تھے ان کو دیدیا گیا اور یہ کیسی بےانصافی ہے۔ بالکل اسی طرح اب حدیث کے اس فقرہ کا ترجمہ کر کے دیکھو۔ ہماری طرف تو ان نادانوں نے کوئی شک منسوب نہیں کیا جن کے ساتھ ان کا اصل تنازع ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف انہوں نے شک منسوب کردیا جو کہ ان کے تسلیم شدہ نبی بھی ہیں ، یہ کیسی بےانصافی ہے۔ کیا آسان کو مشکل اور پھر مشکل ترین بنانا تفسیر ہے ؟ 451: ” ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى کُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا “ پھر ان کا ایک ایک حصہ پہاڑ پر رکھ دیجیے۔ ” پھر ان چاروں میں سے ہر ایک کو ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو “ غور کرو کہ ” کُل “ چار ہو تو ایک اس ” کُل “ کا جز نہیں ہوتا ؟ کتنی آسان بات ہے جس کو جان بوجھ کر مشکل کردیا یعنی ان میں سے ایک ایک حصہ کہہ کر ثابت کیا کہ پہلے اس کُل کو جو چار ہیں قطع و برید کر کے ملاؤ یا ان کو کوٹ کوٹ کر ان کا قیمہ کرو ، پھر ان قطع و برید کیے گئے ٹکڑوں میں سے ہر ایک کا ایک ایک حصہ یا اس پورے قیمہ کا چوتھا حصہ لے کر پہاڑ پر رکھو۔ یہ اتنی بڑی لمبی چوڑی عبارت کیوں بنائی گئی ؟ کیا آیت قرآنی اسکی متحمل ہے ؟ اس آسان کو مشکل کیوں کیا گیا ؟ محض اس وجہ سے کہ ایک مفہوم خود اخذ کرلیا جس مفہوم کے قرآنی الفاظ متحمل نہ تھے ، اس لیے اس کو اتنا پھیلا دیا گیا تاکہ متعین مفہوم کی ترجمانی ہو سکے۔ ورنہ بات بالکل آسان تھی کہ ان چاروں میں سے ایک ایک کو الگ الگ پہاڑ پر رکھو تم جس کو بلاؤ گے وہ تمہارے پاس دوڑتا آئے گا ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کا تمہارے پاس آنا اس بات پر دلیل ہے کہ تم نے ان کو مانوس کرلیا۔ پھر کہا گیا کہ ” مِّنْهُنَّ جُزْءًا “ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ملے جلے ہوئے گوشت کا ایک ایک حصہ لو۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ” جُزْءًا “ کے اصل معنی ہی عربی میں ٹکڑے کے ہیں ، جس کا فارسی مترادف پارہ ہے جو ” جُزْءًا “ یعنی پارہ پارہ کردن۔ یہ تکلیف کیوں برداشت کرنا پڑی کہ ” کُل “ چار کا ” ایک “ جز نہ ہوجائے تاکہ ان کا اختیار کیا ہوا مفہوم گڈمڈ نہ ہو اور پارہ اور ٹکڑا میں اس بات کو لٹکا کر رکھ دو تاکہ نہ چار ” کُل “ کا ” ایک جزء “ ہوگا اور نہ بات صاف ہو کر ختم ہوگی۔ ماشاء اللہ بہت محنت کی ہمارے علمائے کرام اور مقررین عظام نے لیکن اس ” کُل “ اور ” جزء “ کو ذرا قرآن کریم کی زبان میں پڑھ کر دیکھ لو پھر یار زندہ صحبت باقی۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِیْنَ۫ۙ0043 لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ 1ؕ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ (رح) 0044 (الحجر 15 : 43۔ 44) ” اور ان سب کے لیے جہنم کے عذاب کا وعدہ ہے۔ اس کے لیے سات دروازے ہیں ان کی ہر ٹولی کے حصہ میں ایک دروازہ آئے گا جس سے جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ اب جہنم میں داخل کرنے کے لیے ان سب دوزخ کے مستحقین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے یا ان کا قیمہ کوٹ کر دوزخ میں داخل کیا جائے گا یا ان کے مختلف گروہ بنا کر ان دروازوں سے گزرنے کا کہا جائے گا۔ جیسے تمہاری خوشی لیکن فقط جزء کو ذہن میں رکھیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے حدیث پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةَ مَمْلُوکِینَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ لَمْ یَکُنْ لَهُ مَالٌ غَیْرَهُمْ فَدَعَا بِهِمْ رَسُولُ اللّٰهِ ۔ فَجَزَّأَهُمْ أَثْلَاثًا ثُمَّ أَقْرَعَ بَیْنَهُمْ فَأَعْتَقَ اثْنَیْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً وَقَالَ لَهُ قَوْلًا شَدِیدًا۔ (مسلم : 1842) عَنْ مَالِکِ بْنِ ہُبَیْرَةَ الشَّامِیِّ وَکَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ کَانَ إِذَا أُتِیَ بِجِنَازَةٍ فَتَقَالَّ مَنْ تَبِعَهَا جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ ثُمَّ صَلَّی عَلَیْهَا وَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ۔ قَالَ مَا صَفَّ صُفُوفٌ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ عَلَی مَیِّتٍ إِلَّا أَوْجَبَ ۔ (ابن ماجہ : 1490) قَالَ کَانَ مَالِکُ بْنُ ہُبَیْرَةَ إِذَا صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ فَتَقَالَّ النَّاسَ عَلَیْهَا جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ ۔ (ترمذی : 1024) فَکَانَ مَالِکٌ إِذَا اسْتَقَلَّ أَهْلَ الْجَنَازَةِ جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ لِلْحَدِیثِ ۔ (ابوداؤد : 1398) ان سب احادیث میں ” جزء “ کا لفظ موجود ہے کیا ہمارے علمائے کرام اور مترجمین ان سب جگہوں پر ان سب انسانوں کو جو نماز جنازہ پر حاضر ہوں ٹکڑے ٹکڑے کر کے یا ان کا قیمہ کوٹ کر تین حصوں میں تقسیم کا حکم دیں گے یا حاضرین جنازہ کو تین صفوں میں کھڑا ہونے کا ارشاد فرمائیں گے۔ جیسے تمہاری خوشی ! ہاں ! ان جگہوں پر جزء کے لفظ پر غور کرلیں ، بس اتنی ہی ہماری اپیل ہے۔
Top