Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 260
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰى١ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ١ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا١ؕ وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠ ۧ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
: ابراہیم
رَبِّ
: میرے رب
اَرِنِيْ
: مجھے دکھا
كَيْفَ
: کیونکر
تُحْيِ
: تو زندہ کرتا ہے
الْمَوْتٰى
: مردہ
قَالَ
: اس نے کہا
اَوَلَمْ
: کیا نہیں
تُؤْمِنْ
: یقین کیا
قَالَ
: اس نے کہا
بَلٰي
: کیوں نہیں
وَلٰكِنْ
: بلکہ
لِّيَطْمَئِنَّ
: تاکہ اطمینان ہوجائے
قَلْبِىْ
: میرا دل
قَالَ
: اس نے کہا
فَخُذْ
: پس پکڑ لے
اَرْبَعَةً
: چار
مِّنَ
: سے
الطَّيْرِ
: پرندے
فَصُرْھُنَّ
: پھر ان کو ہلا
اِلَيْكَ
: اپنے ساتھ
ثُمَّ
: پھر
اجْعَلْ
: رکھ دے
عَلٰي
: پر
كُلِّ
: ہر
جَبَلٍ
: پہاڑ
مِّنْهُنَّ
: ان سے (انکے)
جُزْءًا
: ٹکڑے
ثُمَّ
: پھر
ادْعُهُنَّ
: انہیں بلا
يَاْتِيْنَكَ
: وہ تیرے پاس آئینگے
سَعْيًا
: دوڑتے ہوئے
وَاعْلَمْ
: اور جان لے
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
پھر اس واقعہ پر غور کرو جب ابراہیم نے کہا تھا کہ اے رب ! مجھے دکھا دے کہ تو (کفر کی موت) مرے ہوؤں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ اللہ نے فرمایا کیا تمہیں اس کا یقین نہیں ہے ؟ عرض کیا ضرور ہے لیکن یہ اس لیے چاہتا ہوں تاکہ میرے دل کو قرار آجائے اس پر ارشاد الٰہی ہوا ، اچھا یوں کرو کہ پرندوں میں سے چار پرندے پکڑ لو اور انہیں اپنے پاس رکھ کر اپنے ساتھ مانوس کرو یعنی ان کو ہلا لو پھر ان چاروں میں سے ہر ایک کو ایک ایک پہاڑ پر بٹھا دو ، پھر انہیں بلاؤ وہ تمہاری طرف اڑتے ہوئے چلے آئیں گے ، یاد رکھو اللہ غالب ہے اور اپنے تمام کاموں پر حکمت رکھنے والا ہے
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک رؤیا کا ذکر : 449: جس طرح پچھلی آیت کے سیاق کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا قصہ ایک رویا کا واقعہ تھا اسی طرح اس قصہ کا بھی رویا میں واقع ہونا پایا جاتا ہے اول تو اس وجہ سے کہ سب سے اول جو قصہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ بیان ہوا وہ ظاہر صورت میں ایک واقعہ تھا اس سے ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو علیحدہ کر کے اس قصہ کے بعد بیان کیا ہے جو رویا میں واقع ہوا تھا ۔ دوسرے یہ کہ کیفیت احیائے موتی امر مشاہد بالعین نہیں ہے اور اس لفظ ” اَرِنِیْ “ سے کسی ایسے امر سے مراد نہیں ہے جو وقوع فی المشاہدہ ہو بلکہ ارادت قلبی مراد ہے پس گویا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ کہنا کہ ” اے رب ! میرے دل کو بتادے کہ مردے کسی طرح زندہ ہوں گے۔ تیسرے یہ کہ اس طرح کے ترددات جو بزرگوں کو اور اہل دل کو واقع ہوتے ہیں ان کا رفع اور تسلی اس طریق سے ہوتی ہے جس کو مشاہدات یا مکاشفات یا رؤیا سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو فطرت انسانی کے بالکلیہ مطابق ہے۔ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں پیدا ہوا تھا اس کا رفع ہوناچاہا تھا اس کا رفع ہونا دنیاوی مشاہدہ اور ان ظاہری آنکھوں کے دیکھنے سے علاقہ نہیں رکھتا تھا ۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ جو یہاں مذکورہوا ہے وہ ایک رؤیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے۔ انہوں نے رؤیا میں اللہ تعالیٰ سے فرمایا کہ اے اللہ ! مجھ کو دکھلا یا بتا کہ تو کس طرح مردے زندہ کرے گا۔ پھر خواب ہی میں اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے انہوں نے چار پرندہ جانور لیے اور ان کو ہلا کر اور مانوس کر کے پہاڑ پر رکھ دیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے چار پہاڑوں پر رکھا گیا ہو۔ پھر ان کو ایک ایک کر کے بلایا تو وہ سب جانور الگ الگ زندہ ہو کر چلے آئے اور اس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کو مردوں کے زندہ ہونے سے جن کے اجزاء بعد مرنے کے عالم میں مخلوط اور منتشر ہوتے ہیں ، طمانیت ہوگئی۔ مسلمان علماء کرام اور قدیم مفسرین کو بھی اس بات پر یقین نہیں تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سچ مچ جانوروں کا قیمہ کر کے پہاڑ پر رکھ دیا تھا اور اس لیے اس آیت کی نسبت مفسرین کی تین رائیں قائم ہوتی ہیں : ایک وہ لوگ ہیں جن کی رائے یہ ہے کہ درحقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جانوروں کا قیمہ کر کے پہاڑوں پر رکھ دیا اور پھر جب بلایا تو وہ زندہ ہو کر چلے آئے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو ” صُرْهُنَّ “ کے معنی قیمہ کرنے کے نہیں لیتے بلکہ اپنے سے ہلا لینے یعنی مانوس کرلینے کے لیتے ہیں اور جزء کے معنی ہر ایک جانور کے جزء کے نہیں لیتے بلکہ چار کُل میں سے ایک کے جزء ہونے کے لیتے ہیں کیونکہ جب مجموعہ چار ہے تو ایک اس کا جزء ہی ہے جس سے آیت کا مطلب صرف یہ رہ جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چند جانور اپنے سے ہلائے یعنی مانوس کیے اور پھر کوئی جانور کسی پہاڑ پر اور کوئی کسی پہاڑ پر چھوڑ دیا اور پھر جب بلایا تو سب چلے آئے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جانوروں کا قیمہ کرنا اور پہاڑوں پر رکھنا واقع نہیں ہوا بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایسا کرنے کا حکم دیا تو اس حکم سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کو طمانیت ہوگئی پھر انہوں نے نہ جانور پکڑے ، نہ ان کا قیمہ کیا یا ہلایا اور مانوس کیا ، نہ پہاڑوں پر رکھا ، نہ اس کی ضرورت باقی رہی۔ ہمارے خیال میں ان تینوں گروہوں نے رؤیا کے واقعات کو ظاہری واقعات سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ عیسائی بحث کرنے والوں نے ہمارے مفسرین کے ان اقوال کو غنیمت سمجھا اور بلا تحقیق اصل مطلب کے قرآن کریم پر اعتراض کرنے شروع کردیئے اور ان کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ جن الفاظ پر وہ بحث کر رہے ہیں وہ الفاظ قرآن کریم کے نہیں بلکہ مفسرین کے ہیں ، جن الفاظ کا قرآن کریم متحمل ہی نہیں ہے اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ ان کی اپنی کتابوں میں کیا کیا تحریر ہے ؟ چناچہ کتاب حزقیل میں حضرت حزقیل کے رؤیا کا ذکر ہے کہ : ” وہ ایک جنگل میں جس میں آدمیوں کی بہت سی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں ، خدا نے کہا کہ کیا یہ ہڈیاں زندہ ہو سکتی ہیں ، پھر حزقیل نے ان ہڈیوں سے خدا کے حکم سے کہا کہ تم زندہ ہوگی ، تم پر رگ اور گوشت آجاوے گا اور جان پڑجاوے گی اور تم زندہ ہوجاؤ گے۔ چناچہ وہ ہڈیاں ہلیں اور گوشت و چمڑہ پیدا ہوا ، پھر وہ سب اسی طرح زندہ ہوگئیں “ اور توریت کتاب پیدائش باب 15 میں لکھا ہے کہ : ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بیٹا پیدا ہونے کی بشارت کے وقت خدا نے کہا تھا کہ چار جانور لے اور ان کے دو دو ٹکڑے کیے مگر پرندوں کے ٹکڑے کو اس کے مقابل رکھ دے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چارپایوں کے ٹکڑے ٹکڑے کیے مگر پرندوں کے ٹکڑے نہیں کیے اور پھر اس کو نیند آگئی اور وہ سو گیا “ پس عیسائیوں نے ہمارے مفسرین کی ناتحقیق روایتوں کو تو دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ دونوں قصے جو قرآن کریم میں موجود ہیں اور جن کے ساتھ مفسرین کی ناتحقیق روایتیں ملائی ہیں وہ ان دونوں قصوں سے جو تورات میں موجود ہیں بنائی گئی ہیں لیکن ہم کو اس وقت ناقابل فہم قصوں پر جو تورات میں اور کتاب حزقیل میں مذکور ہیں بحث کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اس قدر بتانا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں جو یہ دونوں قصے مذکور ہیں ان سے اور کتاب حزقیل اور تورات کے مندرجہ قصوں سے کچھ تعلق نہیں ہے بلکہ ہمارے بعض مفسرین کی سادگی اور عیسائیوں کی چالاکی کا یہ نتیجہ ہے۔ زیر بحث آیت میں علاوہ ازیں مفہوم کی بھی گنجائش موجود ہے۔ ہمارا بیان صحیح ہے تو وہ اللہ کا احسان ہے اور اگر اس میں غلطی یا کمی ہے تو وہ میری کم علمی کی وجہ سے ہے اور میری دعا ہے کہ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا 00 سیّدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی التجاء بدرگاہ الٰہی : 450: سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ اے میرے رب ! میں نے ان لوگوں کو بہت سمجھایا جو کفر کی موت مر چکے ہیں لیکن انہوں نے میری بات پر ذرا دھیان نہ دیا اب تو ہی بتا کہ ان کو ایمان کی زندگی کیونکر ملے گی اور کس طرح یہ زندہ ہوں گے ؟ یہ سوال یوں پیدا ہوا کہ اللہ نے فرمایا تھا : ” تیری نسل ایک عظیم الشان قوم بن جائے گی “ میں نے بہت مدت تک ان کو دعوت دی لیکن بےاثر رہی اب اس کا خیال آنا فطرت انسانی کے مطابق ہے کہ یہ کس طرح ہوگا ؟ اور کب ہوگا ؟ یہی وجہ ہے کہ جب آپ سے کہا گیا کہ ” کیا تمہیں یقین نہیں ہے ؟ “ عرض کی ضرور ہے : ” وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَىِٕنَّ قَلْبِیْ 1ؕ “ لیکن یہ اس لیے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار ہوجائے۔ یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ یہ آپ کو احیائے موتیٰ پر شک نہیں بلکہ ان معاندین کے متعلق دل میں صرف ایک خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ وقت کب آنے والا ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے کہ : ” تیری نسل ایک عظیم الشان قوم بن جائے گی “ چناچہ بالکل اس سے ملتے جلتے الفاظ تورات میں بھی موجود ہیں ، جب یہ وعدہ آپ کو دیا گیا۔ ” کہ کنعان کا ملک آپ کو دیا جائے گا تو آپ نے دریافت کیا اے خداوند خدا ! میں کس طرح جانوں کہ میں اس کا وارث ہوں گا۔ “ (پیدائش 15 : 5) آپ خود غور فرما لیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے قیامت کو مردے زندہ ہونے کے بارے میں سوال کیا یا ان مردہ لوگوں کے زندہ ہونے کے بارے میں جن پر آپ کی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا اور وہ قوت ایمانی ضائع کر کے اور کفر کی روش اپنا کر زندگی ہی میں مر چکے تھے۔ ان دو احتمالوں میں سے جو احتمال بھی آپ کے پیش نظر ہے اس کا جواب اس آیت میں موجود ہے۔ عام مفہوم جو سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ : ابراہیم (علیہ السلام) کو ان چار پرندوں کو پکڑ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے یا قیمہ کردینے کا حکم ہوا اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر ان پارہ ہائے گوشت یا قیمہ شدہ گوشت کو چار حصوں میں تقسیم کر کے چار پہاڑوں پر رکھ دیا اور پھر ان کے ناموں سے جو ان کے ابراہیم (علیہ السلام) نے رکھے تھے یا جن ناموں سے وہ معروف تھے ان کو بلایا گیا تو وہ دوڑ کر ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچنے لگے جس سے ابراہیم (علیہ السلام) کو یقین آگیا یا شک دور ہوگیا۔ حالانکہ یہ تفہیم کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ہے کیونکہ نہ تو قرآن کریم کے الفاظ اس کے متحمل ہیں اور نہ ہی کوئی صحیح حدیث اس سلسلہ میں موجود ہے بلکہ اس طرح مفہوم قرار دینے میں بہت کچھ اپنے پاس سے ملانے کی ضرورت پیش آتی ہے جو خواہ مخواہ قرآن کریم سے زیادتی ہے۔ ” فَصُرْهُنَّ “ کے معنی ٹکڑے ٹکڑے (Torn into pieces) کرنا یا قیمہ کرنا نہ لغت کے اعتبار سے صحیح ہے اور نہ ہی سیاق وسباق اس کا ساتھ دیتا ہے بلکہ اس کے صحیح معنی سدھا لینے (Tame them) ، ہلا لینے اور مانوس کرلینے کے ہیں۔ ” ادْعُهُنَّ “ میں جو ضمیر ہے وہ ذی روح کے لیے ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ پرندے جن کو بلانے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اگر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے یا قیمہ کوٹ لینے کے بعد بھی وہ زندہ تھے تو پھر صحیح ہے ورنہ اس کا یہ مفہوم لینا سراسر قرآنی الفاظ کے ساتھ زیادتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس آیت کا واضح مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ اگر تم چار پرندوں کو لو اور ان کو خوب مانوس کرلو کہ وہ تم سے اچھی طرح مانوس ہوجائیں جس طرح شکاری پرندے شکار کرنے والے یا سدھانے والے سے مانوس ہوجاتے ہیں پھر ان کو الگ الگ پہاڑ پر چھوڑ دو جو درحقیقت ان کا اصل مسکن ہے اور اس طرح اب تم ان کو آزاد کرنے کے بعد بلاؤ تو وہ بےساختہ آزادی کو چھوڑ کر تمہاری طرف چلے آئیں گے کیونکہ وہ تم سے اس قدر مانوس ہوچکے ہیں کہ اب ان کو آزاد رہنا گویا پسند ہی نہیں ہے تو پھر یہ چار عناصر سے مرکب انسان جو اس قدر مردہ دل ہوچکے ہیں کہ آپ کی زندہ کردینے والی تعلیم کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اگر آپ ان کو اخلاق حسنہ سے مسلسل تعلیم کے ساتھ مانوس کرلیں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی تعلیم وبلیغ کا اثر قبول نہ کریں ؟ آپ ان کی تعلیم کا خیال رکھیں ، ان کو مانوس کرنے کی پوری کوشش جاری رکھیں اور بددل (Dis heart) نہ ہوں وہ دن دور نہیں کہ تمہاری اس تبلیغ کا اثر ہو کر رہے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو تبلیغ کا ایک ایسا ڈھنگ اور ایسا بہترین طریقہ سکھا دیا جس کے اچھے نتیجہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مفسرین ہی میں سے وہ بھی ہیں جو اس طرح تفسیر کرتے چلے آ رہے ہیں اگرچہ وہ کم ہوں۔ پھر اس سے اس کی تائید ہوجاتی ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو نہ تو کبھی احیائے موتیٰ میں شک ہوا اور نہ ہی ظاہری آنکھوں سے مشاہدہ کی کوئی ضرورت۔ وہ تو دو سرے انسانوں کی نسبت ایمان بالغیب کے زیادہ پابند ہوتے ہیں بلکہ ان کا ایمان بالغیب اتنا قوی اور اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ عام انسانوں کا مشاہدہ کرلینے کے بعد بھی اتنا قوی نہیں ہو سکتا۔ پھر کشف حجاب کا سوال کیسا ؟ اور ایسے جواب کی ضرورت ہی کیا ؟ دراصل یہ سب ہمارے مفسرین اور ذی علم لوگوں کا اپنا تخیل ہے یہی وجہ ہے کہ پرندوں کی بحث کہیں سے کہیں نکل گئی جس کا اصل مطلب سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ارشاد نبوی ﷺ بھی پیش کیا جاتا ہے اس کا حال بھی سنتے جائیں تاکہ حقیقت واضح ہوجائے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی بخاری (حدیث : 630) و مسلم (حدیث : 424) دونوں میں موجود ہے کہ : ” نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّکِّ مِنْ إِبْرَاہِیمَ ..... “ اس کا مطلب نہایہ ابن الاثیر ، مجمع البحار ، فتح الباری ، نووی ، مشکل الآثار طحاوی ص : 135 ج اوّل میں امام بیہقی (رح) نے کتاب الاسماء والصفات میں ، امام خطابی (رح) اور امام مزنی (رح) نے عبداللہ بن مبارک ، سعید بن جبیر ، عبداللہ بن عباس ؓ سے نقل فرمایا ہے کہ انبیاء کرام کے لیے احیاء موتیٰ میں شک مستحیل ہے اگر وہ نبوت کے منافی نہ ہوتا تو ہم بھی کرسکتے تھے مگر جب ہمیں شک نہیں تو ابراہیم (علیہ السلام) کو کیسے شک ہو سکتا ہے۔ فتح الباری میں ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حدیث میں ” نَحْنُ “ سے مراد مسلمانوں کی جماعت ہے کہ ہم مسلمانوں کو جب شک نہیں تو ابراہیم (علیہ السلام) جیسے اولو العزام نبی کو کیسے ہو سکتا ہے ؟ لیکن اس فقرہ کا مطلب اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ان الفاظ کو قرآن کریم کے الفاظ کے بالمقابل رکھ دیا جائے اور مطلب خود بخود واضح ہوجائے گا۔ چناچہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں : ” نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ “ (البقرہ 2 : 247) کہ جو لوگ ملک کے حقدار ہیں ان کو تو ملک دیا نہیں اور جو اس کے حقدار نہیں تھے ان کو دیدیا گیا اور یہ کیسی بےانصافی ہے۔ بالکل اسی طرح اب حدیث کے اس فقرہ کا ترجمہ کر کے دیکھو۔ ہماری طرف تو ان نادانوں نے کوئی شک منسوب نہیں کیا جن کے ساتھ ان کا اصل تنازع ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف انہوں نے شک منسوب کردیا جو کہ ان کے تسلیم شدہ نبی بھی ہیں ، یہ کیسی بےانصافی ہے۔ کیا آسان کو مشکل اور پھر مشکل ترین بنانا تفسیر ہے ؟ 451: ” ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى کُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا “ پھر ان کا ایک ایک حصہ پہاڑ پر رکھ دیجیے۔ ” پھر ان چاروں میں سے ہر ایک کو ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو “ غور کرو کہ ” کُل “ چار ہو تو ایک اس ” کُل “ کا جز نہیں ہوتا ؟ کتنی آسان بات ہے جس کو جان بوجھ کر مشکل کردیا یعنی ان میں سے ایک ایک حصہ کہہ کر ثابت کیا کہ پہلے اس کُل کو جو چار ہیں قطع و برید کر کے ملاؤ یا ان کو کوٹ کوٹ کر ان کا قیمہ کرو ، پھر ان قطع و برید کیے گئے ٹکڑوں میں سے ہر ایک کا ایک ایک حصہ یا اس پورے قیمہ کا چوتھا حصہ لے کر پہاڑ پر رکھو۔ یہ اتنی بڑی لمبی چوڑی عبارت کیوں بنائی گئی ؟ کیا آیت قرآنی اسکی متحمل ہے ؟ اس آسان کو مشکل کیوں کیا گیا ؟ محض اس وجہ سے کہ ایک مفہوم خود اخذ کرلیا جس مفہوم کے قرآنی الفاظ متحمل نہ تھے ، اس لیے اس کو اتنا پھیلا دیا گیا تاکہ متعین مفہوم کی ترجمانی ہو سکے۔ ورنہ بات بالکل آسان تھی کہ ان چاروں میں سے ایک ایک کو الگ الگ پہاڑ پر رکھو تم جس کو بلاؤ گے وہ تمہارے پاس دوڑتا آئے گا ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کا تمہارے پاس آنا اس بات پر دلیل ہے کہ تم نے ان کو مانوس کرلیا۔ پھر کہا گیا کہ ” مِّنْهُنَّ جُزْءًا “ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ملے جلے ہوئے گوشت کا ایک ایک حصہ لو۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ” جُزْءًا “ کے اصل معنی ہی عربی میں ٹکڑے کے ہیں ، جس کا فارسی مترادف پارہ ہے جو ” جُزْءًا “ یعنی پارہ پارہ کردن۔ یہ تکلیف کیوں برداشت کرنا پڑی کہ ” کُل “ چار کا ” ایک “ جز نہ ہوجائے تاکہ ان کا اختیار کیا ہوا مفہوم گڈمڈ نہ ہو اور پارہ اور ٹکڑا میں اس بات کو لٹکا کر رکھ دو تاکہ نہ چار ” کُل “ کا ” ایک جزء “ ہوگا اور نہ بات صاف ہو کر ختم ہوگی۔ ماشاء اللہ بہت محنت کی ہمارے علمائے کرام اور مقررین عظام نے لیکن اس ” کُل “ اور ” جزء “ کو ذرا قرآن کریم کی زبان میں پڑھ کر دیکھ لو پھر یار زندہ صحبت باقی۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِیْنَ۫ۙ0043 لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ 1ؕ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ (رح) 0044 (الحجر 15 : 43۔ 44) ” اور ان سب کے لیے جہنم کے عذاب کا وعدہ ہے۔ اس کے لیے سات دروازے ہیں ان کی ہر ٹولی کے حصہ میں ایک دروازہ آئے گا جس سے جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ اب جہنم میں داخل کرنے کے لیے ان سب دوزخ کے مستحقین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے یا ان کا قیمہ کوٹ کر دوزخ میں داخل کیا جائے گا یا ان کے مختلف گروہ بنا کر ان دروازوں سے گزرنے کا کہا جائے گا۔ جیسے تمہاری خوشی لیکن فقط جزء کو ذہن میں رکھیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے حدیث پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةَ مَمْلُوکِینَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ لَمْ یَکُنْ لَهُ مَالٌ غَیْرَهُمْ فَدَعَا بِهِمْ رَسُولُ اللّٰهِ ۔ فَجَزَّأَهُمْ أَثْلَاثًا ثُمَّ أَقْرَعَ بَیْنَهُمْ فَأَعْتَقَ اثْنَیْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً وَقَالَ لَهُ قَوْلًا شَدِیدًا۔ (مسلم : 1842) عَنْ مَالِکِ بْنِ ہُبَیْرَةَ الشَّامِیِّ وَکَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ کَانَ إِذَا أُتِیَ بِجِنَازَةٍ فَتَقَالَّ مَنْ تَبِعَهَا جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ ثُمَّ صَلَّی عَلَیْهَا وَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ۔ قَالَ مَا صَفَّ صُفُوفٌ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ عَلَی مَیِّتٍ إِلَّا أَوْجَبَ ۔ (ابن ماجہ : 1490) قَالَ کَانَ مَالِکُ بْنُ ہُبَیْرَةَ إِذَا صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ فَتَقَالَّ النَّاسَ عَلَیْهَا جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ ۔ (ترمذی : 1024) فَکَانَ مَالِکٌ إِذَا اسْتَقَلَّ أَهْلَ الْجَنَازَةِ جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ لِلْحَدِیثِ ۔ (ابوداؤد : 1398) ان سب احادیث میں ” جزء “ کا لفظ موجود ہے کیا ہمارے علمائے کرام اور مترجمین ان سب جگہوں پر ان سب انسانوں کو جو نماز جنازہ پر حاضر ہوں ٹکڑے ٹکڑے کر کے یا ان کا قیمہ کوٹ کر تین حصوں میں تقسیم کا حکم دیں گے یا حاضرین جنازہ کو تین صفوں میں کھڑا ہونے کا ارشاد فرمائیں گے۔ جیسے تمہاری خوشی ! ہاں ! ان جگہوں پر جزء کے لفظ پر غور کرلیں ، بس اتنی ہی ہماری اپیل ہے۔
Top