Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الصَّفَا : صفا وَالْمَرْوَةَ : اور مروۃ مِنْ : سے شَعَآئِرِ : نشانات اللّٰهِ : اللہ فَمَنْ : پس جو حَجَّ : حج کرے الْبَيْتَ : خانہ کعبہ اَوِ : یا اعْتَمَرَ : عمرہ کرے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں کوئی حرج عَلَيْهِ : اس پر اَنْ : کہ يَّطَّوَّفَ : وہ طواف کرے بِهِمَا : ان دونوں وَمَنْ : اور جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَاكِرٌ : قدر دان عَلِيْمٌ : جاننے والا
بلاشبہ صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی رحمت و حکمت کی نشانیوں میں سے ہیں ، پس جو شخص حج یا عمرہ کی نیت سے اس گھر کا قصد کرے تو اس کے لیے کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرے اور جو کوئی خوشدلی کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتا ہے تو اللہ ہر عمل کی اس کی منزلت کے مطابق قدر کرنے والا ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے
صفا اور مروہ دو پہاڑیاں ہیں جو بیت اللہ کے بالکل قریب ہیں : 281: ہر تعلیم کی کامیابی کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے : ! نصاب تعلیم ،" معلم اور # تعلیم گاہ ، تینوں ہی چیزیں جتنی معیاری ہوں گی تعلیم اتنی ہی صحیح ہوگی ۔ اسلام نے ان تینوں ضرورتوں کو بہترین طریقہ سے پورا کیا غور کیجئے کہ : ! نصاب تعلیم بہترین ہو کہ اس سے قوم کے بچوں میں حس و بیداری پیدا ہوگی ، جوش وولولہ عمل سے قوم زندہ ہوجائے گی اور جذبہ قومیت ووطنیت ہر شخص میں نظر آئے گا۔ اسلام نے قرآن کریم کو نصاب تعلیم تجویز کیا فرمایا : لَّا یَاْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖ 1ؕ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ 0042 ( حم السجدہ 41 : 42 ) یہ ایسا نصاب تعلیم ہے کہ نہ تو اس کے آگے باطل جم سکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے اسے جگہ مل سکتی ہے وہ خدائے حکیم و مجید کا اتارا ہوا ہے پھر باطل کا یہاں سے کیسے گزر ہو ؟ اس کی نسبت حضرت عمر ؓ نے فرمایا : حسبنا کتاب اللہ۔ " معلم کا وجود اس تعلیم کا بہترین نمونہ ہو کہ تعلیم محض بالکل بےکار ہے جب تک اس کے ساتھ انسانی نمونہ عمل نہ ہو چناچہ اسلام کے معلم رسول اللہ ﷺ ہیں : یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ 1ۗ ، آپ خود اس تعلیم کے اکمل ترین نمونہ ہیں ، فرمایا : لَقَدْ کَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب 33 : 21) ” بیشک رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ان لوگوں کے لئے پیروی اور اتباع کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ “ یہی وجہ ہے کہ : وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ 004 کی تفسیر میں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ : کان خلقہ القرآن ، رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن کریم ہے۔ #تعلیم گاہ ایسی ہو جس کی روایات شاندار ہوں اور جس کی تربیت نے بہترین افراد امت پیدا کئے ہوں۔ اسلام کی درسگاہ حریت یہی بیت اللہ ہے جس میں آنے کی ہر مسلمان کو دعوت دی : وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا 1ؕ ۔ تہذیب اخلاق کے باب میں جن جذبات صحیحہ کی تعلیم دی گئی ان کی تربیت و تکمیل کے لئے فرمایا کہ صفا اور مروہ کا طواف کرلیا کرو یعنی صفا ومروہ کے درمیان سعی ایک مفید عمل ہے کہ کثرت کار اور والہانہ مشق کی بنا پر ہر وقت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کے مقامات اور تعمیر بیت اللہ کے اعمال یاد آتے رہیں ہے اور بتدریج وہی اخلاق و جذبات جڑ پکڑیں گے جو ان دونوں بزرگوں کے اندر موجود تھے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس گھر کی بنا اس لئے ڈالی تھی کہ اس جگہ مجاہدین فی سبیل اللہ تیار ہوں جو پوری دنیا اسلام کے غازی ہوں۔ اس لئے سپاہیانہ زندگی کے لوازمات کی تکمیل بھی اس جگہ ہو سکتی ہے آپ آگے چل کر دیکھیں گے کہ جس جگہ سورة بقرہ میں احکام حج بیان کئے گئے ہیں اس کے ساتھ جہاد کے فرائض کا بھی تذکرہ ہے اگر قرآن کریم کی آیات کریمات باہم دگر مربوط و مسلسل ہیں تو وہاں اس کے سوا اور کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتے کہ حج اور جہاد کا آپس میں کوئی نہایت ہی گہرا تعلق ہے۔ جو لوگ اس کا باربار طواف کر کے اپنے جذبات صحیحہ کی تکمیل کریں گے اللہ تعالیٰ ان امتیازات کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ صحیح موقع پر ان سے کام لے لے گا وہ موقع کونسا ہوگا اس کو اللہ کے سوا دوسرا نہیں جانتا۔ جب میدان جنگ میں مسلمانوں اور کافروں کی صفیں آراستہ ہوں گی کامیابی کے لئے صبر و استقامت اور عزم و استقلال کی ضرورت ہوگی اس وقت مسلمان دعا کریں گے : رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ00250 (البقرہ 2 : 250) ” اے اللہ ! اے ہمارے رب ! صبر کے جام ہم پر انڈیل دے کہ عزم و ثبات سے سیراب ہوجائیں اور ہمارے قدم میدان جنگ میں جمادے اور پھر ایسا کر کہ منکرین حق کے گروہ پر ہم فتح مند ہوجائیں ۔ “ اس وقت ان جذبات صحیحہ سے کام لیا جائے گا ۔ صفا اور مروہ بیت اللہ کے قریب دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان دوڑنا سعی یا طواف صفاو مروہ کہلاتا ہے۔ کبھی تو وہ دونوں فی الواقعہ پہاڑیاں تھیں لیکن اس وقت محض چٹان کی سی معمولی بلندیاں رہ گئی ہیں صفا حرم شریف کی داہنی جانب اور مروہ بائیں جانب ہے دونوں کے درمیان فاصلہ 493 قدم کے قریب ہے ۔ صفا کے معنی صاف پتھر یا چٹان کے ہیں اور مروہ کے معنی سفید نرم پتھر کے ۔ شعائر اللہ یعنی قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں یا علامتیں یعنی مناسک حج میں سے ہیں۔ حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے جو فرض ہے اور عمرہ سنت ہے : 282: ذوالحجہ کی مقررہ تاریخوں میں بیت اللہ کی جو زیارت مع احکام زیارت کی جاتی ہے اس کو حج کہتے ہیں اور ان تاریخوں کے سوا دوسرے دنوں میں جو زیارت کی جاتی ہے وہ عمرہ کہلاتی ہے اور دونوں کے احکامات کی تفصیل آگے آئے گی ۔ مختصر یہ کہ حج عبادات اسلامی کا چوتھا رکن ہے یعنی چوتھا فریضہ۔ امت کے ہر فرد پر خواہ وہ دنیا کے کسی علاقہ کا باشندہ ہو بہ شرط استطاعت و صحت و امن راہ اور زاد راہ کے عمر میں ایک بار فرض ہے گویا دنیائے اسلام کی بین الاقوامی سالانہ کانفرس۔ حج میں جو چیزیں فرض ہیں وہ تین ہیں : ! احرام یعنی حدود حرم میں داخلہ سے پہلے عام لباس اتار کر احرام باندھنا۔ " میدان عرفات میں 9 /ذی الحجہ کو حاضری جس کو اصطلاح میں وقوف کہتے ہیں ۔ #طواف زیارۃ یعنی وقوف کے بعد خانہ کعبہ کا طواف۔ حج میں سنت مؤکدہ چار چیزیں ہیں : ! نویں اور دسویں ذی الحجہ کی درمیانی شب مزدلفہ میں قیام۔ " صفاو مروہ کے درمیان آمدورفت جس کا اصطلاحی نام سعی ہے۔# مزدلفہ میں قیام کے بعد منیٰ میں کنکریاں پھینکنا جس کا اصطلاحی نام رمی جمرات ہے۔ $ طواف ِکعبہ یہ فرض کے علاوہ ہے اور طواف صدر کہلاتا ہے ۔ قربانی کرنا ، سر کے بال اتروانا ، غسل کرنا بھی بعض اوقات سنت موکدہ اور بعض اوقات غیر مؤکدہ ہے ۔ عمرہ کا دوسرا نام حج صغیر ہے اس میں حج کی طرح مہینہ اور تاریخ کی قید نہیں ہے اور نہ ہی وقوف عرفات ہے اور نہ قیام مزدلفہ ہے اور نہ ہی منیٰ میں جانا یا قربانی کرنا ۔ یہ پورے سال میں ان مخصوص دنوں کے علاوہ ہر وقت ہو سکتا ہے ۔ عمرہ کی نیت سے احرام حدود حرم سے پہلے باندھ کر حرم میں داخل ہونا طواف ِکعبہ اور سعی بین الصفاء والمروہ کے بعد بال کٹوادینا عمرہ کہلاتا ہے اور اب احرام کھول دیا جائے گا فقط۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىِٕدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا 1ؕ (المائدہ 5 : 2) ” مسلمانو ! شعائر اللہ کی یعنی خدا پرستی کی مقرر کی ہوئی نشانیوں اور آداب اسلامی کی بےحرمتی نہ کرو اور نہ ان مہینوں کی بےحرمتی کرو جو حرمت کے مہینے ہیں اور نہ حج کی قربانی کی ، نہ ان جانوروں کی جن کی گردنوں میں بطور علامت کے پٹّے ڈال دیئے ہیں نیز ان لوگوں کی بھی بےحرمتی نہ کرو یعنی انکی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالو اور انہیں کسی طرح نقصان نہ پہنچاؤ جو بیت حرام یعنی کعبہ کا قصد کرتے ہیں اور اپنے پروردگار کا فضل اور اس کی خوشنودی ڈھونڈتے ہیں۔ “
Top