Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الصَّفَا : صفا وَالْمَرْوَةَ : اور مروۃ مِنْ : سے شَعَآئِرِ : نشانات اللّٰهِ : اللہ فَمَنْ : پس جو حَجَّ : حج کرے الْبَيْتَ : خانہ کعبہ اَوِ : یا اعْتَمَرَ : عمرہ کرے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں کوئی حرج عَلَيْهِ : اس پر اَنْ : کہ يَّطَّوَّفَ : وہ طواف کرے بِهِمَا : ان دونوں وَمَنْ : اور جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَاكِرٌ : قدر دان عَلِيْمٌ : جاننے والا
بیشک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے اور جس نے کوئی نیکی خوشدلی کے ساتھ کی تو اللہ قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے۔
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِاللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْـبَیْتَ اَوِعْتَمَرَ فَـلَا جُنَاحْ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا ط وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا لافَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ۔ (البقرۃ : 158) (بےشک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے اور جس نے کوئی نیکی خوشدلی کے ساتھ کی تو اللہ قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے ) اصل سلسلہ کلام کی طرف رجوع گزشتہ چند آیات سے پہلے سلسلہ کلام یہ جاری تھا کہ مسلمانوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تاریخ کے آئینہ میں یہ بتایا جارہا تھا کہ تم اس نبی آخرالزماں کی امت ہو جس نبی کی بعثت کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعائیں مانگی تھیں اور تم وہ امت ہو جسے اللہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس حوالے سے مانگا تھا کہ یہ امت ساری دنیا کی امام ہدایت بنائی جائے گی۔ اور تمہارے واسطے سے دنیا کو پیغام پہنچے گا جسے نبی آخرالزماں لیکر آئینگے اور تمہیں اس قبلہ کا وارث، متولی، اور پاسبان بنایا گیا ہے جسے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے تعمیر کیا تھا اور جس قبلہ کو آخری انقلاب کا مرکز بننا تھا اور یہ بھی بتایا گیا کہ یہی وہ قبلہ ہے جس کے چاروں طرف اللہ کی بندگی اور اس کے لیے سرفروشی کی داستانیں رقم ہیں اور جن کے پہاڑوں کے دامن میں قربانی اور ایثار کے نقوش اب تک روشن ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل کی دنیا کی امامت کے منصب سے معزولی اور اس امت کی اس منصب پر تقرری کے اعلان کے بعد بیت اللہ کو اس امت کا مستقل قبلہ اور مرکز ہدایت بنانے کا جب حکم دیا گیا تو اس کے نتیجے میں مخالفت وعناد کا جو طوفان اٹھنے والا تھا۔ اس سلسلہ بیان کو روک کر اس سے آگاہ کرنا اور اس کے مقابلے کے لیے مناسب ہدایات دینا ضروری سمجھا گیا چناچہ تحویلِ قبلہ کے حکم کے بعد یہ ہدایات دی گئیں اور ان مصائب کا مقابلہ کرنے والوں کو بشارتیں سنائی گئیں اور بالواسطہ انھیں کامیابیوں کی نوید دی گئی۔ اس آیت کریمہ سے دوبارہ پھر اس سلسلہ کلام کو بحال کیا جارہا ہے کیونکہ جس طرح اللہ کا گھر اس کے شعائر میں سے سب سے بڑا شعیرہ ہے اسی طرح اس کے اور بھی شعائر ہیں۔ جن کا تاریخی اور دعوتی تعلق جس طرح اللہ کے دین اور اللہ کی ذات کے ساتھ ہے اسی طرح اس گھر کے ساتھ بھی ہے۔ صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں صفا اور مروہ انھیں شعائر میں بےحد اہمیت رکھنے والے شعائر ہیں۔ کسی زمانہ میں مسجد حرام کے پاس یہ دو عظیم دو پہاڑیاں تھیں، لیکن اب معمولی بلندی کے ساتھ محض چٹان سی ہو کر رہ گئی ہیں۔ صفا حرم شریف کی داہنی جانب ہے اور مروہ بائیں جانب دونوں کے درمیان فاصلہ چارسو ترانوے ( 493) قدم یا تقریباً سات فرلانگ ہے۔ اس لیے تحویلِ قبلہ کا حکم دینے کے بعدان کا ذکر کرنا ضروری سمجھا گیا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح بیت اللہ مسلمانوں کے لیے حج اور عمرہ کا حکم دے کر مرکز بنادیا گیا اور ہر سال مسلمانوں کے لیے حج کے لیے جانا اور کبھی کبھی عمرہ کے لیے جانا ضروری قرار دیا گیا تو صفا اور مروہ کے درمیان سعی چونکہ مناسکِ حج وعمرہ میں سے اہم منسک ہے۔ اس لیے قبلہ کے احکام کے ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری تھا کہ صفا اور مروہ کا بھی ذکر کیا جاتا اور ان کی اصل حیثیت بحال کی جاتی کیونکہ مشرکینِ عرب نے جس طرح بیت اللہ کو جسے اللہ نے ساری دنیا کے لیے توحید کا مرکز بنایا تھا بت خانہ بنادیا اور عرب بھر کے قبائل کے پسندیدہ بت لاکر وہاں رکھ دیئے تاکہ عرب قبائل میں سے کسی کو بھی بیت اللہ کی مرکزیت میں شبہ نہ رہے۔ لیکن اس حرکت کے ساتھ بیت اللہ کو بجائے توحید کا مرکز بنانے کے شرک اور بت پرستی کا تیرتھ بنادیا گیا۔ اسی طرح صفا اور مروہ بھی جو تسلیم ورضا کی تاریخ کا مرکز اور عبودیت اور سرفروشی کے نقوش سے زندہ ہے وہاں بھی اساف اور نائلہ کے دو بت لاکر صفا اور مروہ پر رکھ دئیے گئے اور ان کی پوجا شروع کردی گئی یعنی جن دو پہاڑیوں نے حضرت ہاجرہ کی بےتابانہ بھاگ دوڑ اور بوڑھے باپ اور نوعمر بیٹے کی سرفروشی دیکھی وہی اب بت پرستی کے مناظر بھی دیکھ رہی تھیں اور اس طرح سے ان پہاڑوں کی تاریخ کو یکسر بگاڑ کر توحید کو بگاڑنے کی مکروہ کوشش کی جارہی تھی۔ چناچہ ضروری تھا کہ جس طرح بیت اللہ کو حضرت ابراہیم کی تاریخ کے آئینہ میں توحید کا مرکز دکھایا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس کی اصل حیثیت کی بحالی کا کام سونپا گیا ہے اسی طرح صفا اور مروہ کو بھی اصل حیثیت میں نمایاں کیا جاتا۔ اسی لیے تحویلِ قبلہ کے ذکر کے سلسلے میں، درمیان کے چند جملہ ہائے معترضہ کے بعد صفا اور مروہ کو شعائر اللہ کے طور پر ذکر کیا جارہا ہے تاکہ ان کے اصل مقام کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ شعائر اللہ کا تعارف شعائر، شعیرہ کی جمع ہے۔ جس کے معنی علامت یا کسی ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو کسی حقیقت کا احساس دلانے والی اس کا مظہر اور اس کا نشان ہو۔ چناچہ ہمارے دین میں جن چیزوں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے اگر آپ ان کی حیثیت، حقیقت اور تاریخ پر غور کریں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ وہ واقعی اللہ کی یاد دلانے والی، اللہ کا شوق پیدا کرنے والی، اس کے دین کی طرف مائل کرنے والی اور اس کے راستے میں سرفروشی کا جذبہ پیدا کرنے والی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ چیزیں مقصودِباالذات نہیں ہیں کیونکہ مقصود باالذات تو وہ حقائق ہیں جو ان کے اندر مضمر ہوتے ہیں۔ لیکن ان چیزوں کو شعائر کی حیثیت چونکہ اللہ کی طرف سے عطا ہوئی ہے اس لیے ان کو ایک احترام اور تقدیس کا درجہ مل گیا ہے اور مسلمانوں کے لیے ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ” بیت اللہ “ اللہ کے شعائر میں سے شائد سب سے بڑا شعیرہ ہے۔ مقصود اس کی عبادت کرنا نہیں بلکہ عبادت تو اللہ کی جاتی ہے، لیکن چونکہ یہ گھر اللہ کے ساتھ نسبت خاص رکھنے اور مرکز عبادت ہونے کی وجہ سے ایک خاص حیثیت کا مالک ہے۔ اس لیے اس کی تقدیس اور اس کا احترام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ بن گیا ہے۔ ہم جب بھی اسے دیکھتے ہیں تو جہاں اس کے سامنے سر جھکاتے ہیں وہیں اس کے احترام اور اس کی مرکزیت میں اضافے کے لیے اللہ ہی سے دعائیں مانگتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک مکان ہے، نہایت سادہ، نہایت پروقار، لیکن اس ایک کوٹھے نے دنیائے اسلام کو ایک جہت، ایک مرکزیت، ایک منزل اور ایک شعور میں پرو رکھا ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگوں کے دل اس کی وجہ سے اللہ کی محبت سے سرشار ہوتے اور اپنی ذات کی معرفت سے آشنا ہوتے ہیں۔ دنیا کو مختلف طبقوں اور مختلف فرقوں میں بٹی ہوئی اس امت کو ایک جگہ اور ایک رنگ میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی اس گھر کا وہ حقیقی کردار ہے، جس نے اسے اللہ کے شعائر میں ایک اہم حیثیت کا حامل بنادیا ہے۔ ” حجرِ اسود “ بھی ایک شعیرہ ہے، جو بیت اللہ کے ایک کونے میں پیوست ہے۔ اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں سے نصب کیا تھا۔ حدیث میں اسے اللہ کا دایاں ہاتھ قرار دیا گیا ہے۔ بندہ جب اسے ہاتھ لگاتا ہے تو وہ گویا اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے میثاقِ اطاعت کی تجدید کرتا ہے اور اپنے اس تعلق کو ازسر نو استوار کرتا ہے اور جب اسے بوسہ دیتا ہے تو وہ اس طرح سے اللہ سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔ یہ جذبہ اطاعت و بندگی اور عقیدت و محبت جو اس پاکیزہ پتھر سے شعائوں کی طرح پھوٹتی ہے، اسی نے اس کو اللہ کا شعیرہ بنادیا ہے۔ جمرات حجاجِ کرام دس تاریخ کو پتھر کے جن تین ستونوں کو باری باری کنکر مارتے ہیں ان کو ” جمرات “ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی شعائر اللہ میں سے ہیں کیونکہ ایک حاجی جب ان پر پتھر برساتا ہے، تو وہ درحقیقت ان پر نہیں برساتا بلکہ اللہ، بیت اللہ اور اسلام کے دشمنوں پر برساتا ہے اور ان کے خلاف مقدور بھر اعلانِ جہاد کرتا ہے اور اپنے عمل سے یہ تأثر دیتا ہے کہ میں جب اپنے ملک واپس جاؤں گا، تو میں اسی جذبے کے تحت ہر لادینی قوت سے لڑوں گا۔ اسی طرح ” صفا اور مروہ “ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کی سرفروشی کی تاریخ ایک ہی ذات سے شروع ہوتی ہے اور اسی ذات سے معراج کو پہنچتی ہے۔ لیکن اس ذات کا سررشتہ کبھی ماں کے ہاتھ میں ہے کبھی باپ کے ہاتھ میں تاکہ یہ معلوم ہو کہ ان دونوں شعائر سے ہمیں سرفروشی اور بندگی کا جو درس ملتا ہے وہ مرد اور عورت دونوں سے مل کر مکمل ہوتا ہے اور وہ دونوں اگر ایک ہی جہت اور ایک ہی تسلسل سے اپنا فرض انجام دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں سرفروشی کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ میری مراد اس سے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب اپنے نوزائیدہ بچے اسمعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو ایک بےآب وگیاہ وادی میں اللہ کے سہارے چھوڑ آئے تو حضرت ہاجرہ نے بیٹے کو ریت پر لٹا کر ان دو پہاڑیوں پر چڑھ کر اور پھر ان دونوں کے درمیان بھاگ کر یہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی کہ شائد ہمیں کوئی گزرتا ہوا قافلہ نظر آجائے یا کسی چشمے کا سراغ مل جائے او اس طرح سے اس بےآب وگیاہ وادی میں ماں بیٹے کی زندگی گزرنے کی سہولت پیدا ہوجائے۔ اللہ نے ماں کی اس دوڑ بھاگ کو قبول فرمایا اور بیٹے کے ایڑیاں رگڑنے کی جگہ سے وہ چشمہ جاری فرمایا جو چار ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، لیکن آج بھی پہلے دن کی طرح پانی سے بھرپور ہے۔ پھر ایک وقت آیا جب یہ بچہ دوڑنے بھاگنے کے قابل ہوا، تو باپ نے اللہ کے حکم سے اسی مروہ کے پاس اسے ذبح کرنے کی کوشش فرمائی۔ لیکن اللہ نے ہاتھ روکنے کا حکم دیا اور اس قربانی کو اس قربانی کی صورت دے دی جو آج ہم سال بہ سال عیدالاضحی کے موقعہ پر اللہ کے حضور جانوروں کی کرتے ہیں۔ اندازہ فرمائیے ! یہی وہ پہاڑیاں ہیں جن سے امت مسلمہ کی خواتین ہاجرہ کی سعی و کاوش کا منظر دیکھتی ہیں اور اپنے سینوں کو بندگی اور عبودیت کے جذبوں سے سیراب کرتی ہیں اور یہی وہ پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان بوڑھا باپ نو عمر بچے کو ساتھ لیے مقتل کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ کارنامہ انجام دینے کی فکر میں ہے جس کی مثال انسانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی اور آج ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرتا ہوا ہر باپ اپنے دل و دماغ میں ایسے ہی جذبوں کو محسوس کرتا ہے جس میں بچوں کی قربانی کے نتیجے میں اسلام کی فصل لہلہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ؎ پسرِ خلیل کی سیکھ ادا جو ہے زندہ رہنے کی آرزو کہ چھری رکے تو رکے مگر نہ سرکنے پائے ترا گلا شعائر کے سلسلے میں چند یاد رکھنے کی باتیں ان شعائر کے سلسلے میں چند باتیں ضرور ذہن نشین رہنی چاہئیں : 1 شعائر اللہ، اللہ اور اس کے رسول کے مقر رکیے ہوئے ہیں۔ اللہ اور رسول کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو شعائر اللہ میں شامل کرے۔ نہ کسی چیز کو شعائر اللہ میں شامل کیا جاسکتا ہے نہ خارج کیا جاسکتا ہے۔ ادب واحترام اپنی جگہ لیکن وہ مقام و مرتبہ جو اللہ نے شعائر اللہ کو عطا کیا ہے وہ کسی کے عطا کرنے سے کسی کو نہیں مل سکتا۔ جو ایسا کرے گا وہ ایک بہت بڑی گمراہی کے لیے راستہ کھولے گا اور اللہ کے سامنے اسے جوابدہی کرنا پڑے گی۔ 2 جس طرح شعائر اللہ کا تقرر اللہ اور رسول کا اختیا رہے اسی طرح ان کے ادب واحترام کی حدود بھی اللہ اور رسول ہی کی مقرر کی ہوئی ہیں چناچہ جس شعیرہ کا احترام اور اس کی تعظیم کی جو شکل اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کردی ہے، ہم اس سے سرمو انحراف نہیں کرسکتے۔ مثلاً حجرِ اسود ایک شعیرہ ہے۔ ہمیں اس کے لیے حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی تعظیم کے لیے، طواف کرتے ہوئے اس کو بوسہ دیں، اسے ہاتھ لگا کر چومیں یا دور سے اس کی طرف اشارہ کریں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی طرف سے تعظیم کے ان طریقوں میں اضافہ کرتا ہے، مثلاً وہ حجرِ اسود کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہے، اس کو سجدہ کرتا ہے، اس کے سامنے نذریں پیش کرتا ہے، یا اس پر پھول چڑھانے لگتا ہے یا اس طرح کی کوئی اور حرکت کرتا ہے تو وہ اس طرح کی حرکتوں سے نہ صرف کہ حجرِ اسود کی تعظیم کا حق ادا نہیں کرسکے گا بلکہ وہ اللہ کے سامنے ان گمراہیوں کے لیے جوابدہ ہوگا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) نے شائد اسی حکمت کے تحت اپنے دور خلافت میں حجرِ اسود کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا :” اے حجرِ اسود ! تو صرف ایک سیاہ پتھر ہے تو مجھے نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تجھے اللہ کے رسول نے نہ چوما ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا “۔ 3 شعائر اللہ کی تعظیم اور احترام کے ساتھ ساتھ جو اصل چیز پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ یہ شعائر تو علامتیں ہیں کسی خاص حقیقت کی اور ان حقائق کے لیے ان کی حیثیت صرف قالب کی ہے۔ اس لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ ان کا احترام بجا لاتے ہوئے اصل حقائق کو دل و دماغ میں بسانے اور راسخ کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اس میں اگر تساہل برتاجائے تو دین ایک مجموعہ رسوم بن کر رہ جائے گا اور دین کی اصل روح زندگیوں سے نکل جائے گی، یہی حادثہ بنی اسرائیل پر گزرا اور وہ تباہ ہوگئے۔ امت مسلمہ کو اس بارے میں نہایت بیدار مغز رہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ ہم اس تباہی کی طرف بہت سارا سفر کرچکے ہیں۔ صفا اور مروہ موجود ہیں ان کے درمیان سعی بھی ہورہی ہے، لیکن اس سعی میں وہ جذبات پیدانھیں ہورہے جو اس سعی کا اصل حاصل ہیں۔ جمرات پر کنکر مارے جارہے ہیں، لیکن اللہ اس کے رسول اور دین کے دشمنوں سے ہمارے نیاز مندانہ تعلقات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جذبہ جہاد ایک گالی بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری روشن خیالی، ہماری اصل روح کو کچلتی جارہی ہے۔ اس لیے ان شعائر اللہ کا ذکر پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے اندر جھانک کر اپنے آپ کو اور امت کو پڑھنا بہت ضروری ہے : کتابوں کا لکھا تو عمر بھر پڑھتے رہے تشنہ کبھی وہ بھی پڑھا ہوتا جو دیواروں پہ لکھا ہے صفا اور مروہ کو شعائر اللہ میں سے قرار دینے کے بعد فرمایا : فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِعْتَمَرَ فَـلَا جُنَاحْ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا اس جملے کا اسلوب صفا اور مروہ کو شعائر اللہ میں قراردینے سے یکسر اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ جن دو پہاڑیوں کو شعائر اللہ قرار دیاجاچکا ہے ان کے بارے میں تو یہ کہنا چاہیے کہ ان کا طواف کرنا یعنی ان کے درمیان سعی کرنا ازبس ضروری ہے۔ چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرنا چاہے اس کے لیے کوئی ہرج نہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعی کرنے کی اجازت دی جارہی ہے، حکم نہیں دیا جارہا ۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرنا حج اور عمرہ کے دوران احناف کے نزدیک واجب ہے اور بعض دیگر ائمہ کے نزدیک سنت بھی ہے اور فرض بھی۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں جو فَـلَا جُنَاحَ کہا گیا ہے، اس کا تعلق سعی کے حکم سے نہیں بلکہ سعی کی جگہ سے ہے۔ پیچھے میں عرض کرچکا ہوں کہ مشرکینِ مکہ نے دونوں پہاڑیوں پر دو بت نصب کر رکھے تھے اور ان کی وہ پوجا کرتے تھے۔ مسلمان ان بتوں کی وجہ سے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے میں کراہت محسوس کررہے تھے۔ چناچہ ان مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ اگرچہ صفا اور مروہ کے درمیان یہ قباحت موجود ہے لیکن ان دونوں کے درمیان سعی وہ تو مناسکِ حج میں سے ہے وہ کسی وقتی رکاوٹ کی وجہ سے چھوڑی نہیں جاسکتی، تم ان دو بتوں کی طرف نہ دیکھو بلکہ اللہ کے احکام کی طرف دیکھو اور خوش دلی سے ان کی تعمیل کرو۔ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا سے اسی بات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ اللہ کے یہاں وہ اطاعت قابل قبول ہوتی ہے جو خوشدلی سے کی جاتی ہے تم ان بتوں کو بالکل نظر انداز کرکے نہایت خوشدلی اور مکمل جذبہ اطاعت کے ساتھ سعی کا عمل بجا لائو تم دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس عمل کی قدر فرمائیں گے۔ یہاں حج اور عمرہ کا ذکر آیا ہے اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کی تھوڑی سی وضاحت کردوں۔ حج : عبادتِ اسلامی کا چوتھارکن ہے یعنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے بعد چوتھا فریضہ ہے۔ امت کے ہر فرد پر خواہ وہ دنیا کے کسی علاقے کا باشندہ ہو اگر مصارفِ سفر کی استطاعت ہو، صحت بھی سفر کی متحمل ہو اور راستہ بھی پر امن ہو، تو پھر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ گویا دنیائے اسلام کی یہ بین الاقوامی سالانہ کانفرنس ہے۔ اس کے ارکان تین ہیں۔ (1) پوشش احرام، یعنی حدود حرم میں داخلہ سے پہلے عام لباس اتار کر احرام یعنی بےسلا ہوا لباس پہن لینا۔ (2) میدانِ عرفات میں نوذوالحجہ کو حاضری، اصطلاح میں اسے وقوف کہتے ہیں۔ (3) طواف زیارت، یعنی وقوف کے بعد خانہ کعبہ کا طواف، اور واجباتِ حج چار ہیں۔ (1) 9 اور 10 ذوالحجہ کی درمیانی رات میں مزدلفہ میں قیام۔ (2) صفا اور مروہ کے درمیان سعی۔ (3) مزدلفہ میں قیام کے بعد دس تاریخ کو منیٰ میں کنکریاں پھینکنا، جسے رمی جمرات کہا جاتا ہے۔ (4) طواف کعبہ، یہ طواف فرض کے علاوہ ہے۔ اسے طواف صدر کہا جاتا ہے۔ قربانی کرنا، سر کے بال اتروانا وغیرہا، بہت سے سنن اور مستحبات ان کے علاوہ ہیں۔ عمرہ : اس کا دوسرا نام حجِ اصغر ہے۔ اس میں حج کی طرح مہینہ اور تاریخ کی قید نہیں۔ سال کے کسی مہینہ اور کسی دن میں بھی ہوسکتا ہے۔ نہ اس میں وقوف عرفات ہے اور نہ قیام مزدلفہ اور منیٰ ۔ عمرہ کی نیت سے احرام حدود حرم یعنی میقات سے باہر باندھا جاتا ہے، طواف کعبہ اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے بال اتروائے جاتے ہیں اور آخر میں مقام ابراہیم کے پاس دو نفل پڑھے جاتے ہیں، درمیان میں آب زم زم پینا بھی مستحب ہے۔ بس انھیں چند افعال سے عمرہ مکمل ہوجاتا ہے اور احرام کھول دئیے جاتے ہیں۔
Top