Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ
: بیشک
الصَّفَا
: صفا
وَالْمَرْوَةَ
: اور مروۃ
مِنْ
: سے
شَعَآئِرِ
: نشانات
اللّٰهِ
: اللہ
فَمَنْ
: پس جو
حَجَّ
: حج کرے
الْبَيْتَ
: خانہ کعبہ
اَوِ
: یا
اعْتَمَرَ
: عمرہ کرے
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں کوئی حرج
عَلَيْهِ
: اس پر
اَنْ
: کہ
يَّطَّوَّفَ
: وہ طواف کرے
بِهِمَا
: ان دونوں
وَمَنْ
: اور جو
تَطَوَّعَ
: خوشی سے کرے
خَيْرًا
: کوئی نیکی
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
شَاكِرٌ
: قدر دان
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
بیشک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے اور جس نے کوئی نیکی خوشدلی کے ساتھ کی تو اللہ قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے۔
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِاللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْـبَیْتَ اَوِعْتَمَرَ فَـلَا جُنَاحْ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا ط وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا لافَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ۔ (البقرۃ : 158) (بےشک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے اور جس نے کوئی نیکی خوشدلی کے ساتھ کی تو اللہ قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے ) اصل سلسلہ کلام کی طرف رجوع گزشتہ چند آیات سے پہلے سلسلہ کلام یہ جاری تھا کہ مسلمانوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تاریخ کے آئینہ میں یہ بتایا جارہا تھا کہ تم اس نبی آخرالزماں کی امت ہو جس نبی کی بعثت کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعائیں مانگی تھیں اور تم وہ امت ہو جسے اللہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس حوالے سے مانگا تھا کہ یہ امت ساری دنیا کی امام ہدایت بنائی جائے گی۔ اور تمہارے واسطے سے دنیا کو پیغام پہنچے گا جسے نبی آخرالزماں لیکر آئینگے اور تمہیں اس قبلہ کا وارث، متولی، اور پاسبان بنایا گیا ہے جسے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے تعمیر کیا تھا اور جس قبلہ کو آخری انقلاب کا مرکز بننا تھا اور یہ بھی بتایا گیا کہ یہی وہ قبلہ ہے جس کے چاروں طرف اللہ کی بندگی اور اس کے لیے سرفروشی کی داستانیں رقم ہیں اور جن کے پہاڑوں کے دامن میں قربانی اور ایثار کے نقوش اب تک روشن ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل کی دنیا کی امامت کے منصب سے معزولی اور اس امت کی اس منصب پر تقرری کے اعلان کے بعد بیت اللہ کو اس امت کا مستقل قبلہ اور مرکز ہدایت بنانے کا جب حکم دیا گیا تو اس کے نتیجے میں مخالفت وعناد کا جو طوفان اٹھنے والا تھا۔ اس سلسلہ بیان کو روک کر اس سے آگاہ کرنا اور اس کے مقابلے کے لیے مناسب ہدایات دینا ضروری سمجھا گیا چناچہ تحویلِ قبلہ کے حکم کے بعد یہ ہدایات دی گئیں اور ان مصائب کا مقابلہ کرنے والوں کو بشارتیں سنائی گئیں اور بالواسطہ انھیں کامیابیوں کی نوید دی گئی۔ اس آیت کریمہ سے دوبارہ پھر اس سلسلہ کلام کو بحال کیا جارہا ہے کیونکہ جس طرح اللہ کا گھر اس کے شعائر میں سے سب سے بڑا شعیرہ ہے اسی طرح اس کے اور بھی شعائر ہیں۔ جن کا تاریخی اور دعوتی تعلق جس طرح اللہ کے دین اور اللہ کی ذات کے ساتھ ہے اسی طرح اس گھر کے ساتھ بھی ہے۔ صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں صفا اور مروہ انھیں شعائر میں بےحد اہمیت رکھنے والے شعائر ہیں۔ کسی زمانہ میں مسجد حرام کے پاس یہ دو عظیم دو پہاڑیاں تھیں، لیکن اب معمولی بلندی کے ساتھ محض چٹان سی ہو کر رہ گئی ہیں۔ صفا حرم شریف کی داہنی جانب ہے اور مروہ بائیں جانب دونوں کے درمیان فاصلہ چارسو ترانوے ( 493) قدم یا تقریباً سات فرلانگ ہے۔ اس لیے تحویلِ قبلہ کا حکم دینے کے بعدان کا ذکر کرنا ضروری سمجھا گیا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح بیت اللہ مسلمانوں کے لیے حج اور عمرہ کا حکم دے کر مرکز بنادیا گیا اور ہر سال مسلمانوں کے لیے حج کے لیے جانا اور کبھی کبھی عمرہ کے لیے جانا ضروری قرار دیا گیا تو صفا اور مروہ کے درمیان سعی چونکہ مناسکِ حج وعمرہ میں سے اہم منسک ہے۔ اس لیے قبلہ کے احکام کے ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری تھا کہ صفا اور مروہ کا بھی ذکر کیا جاتا اور ان کی اصل حیثیت بحال کی جاتی کیونکہ مشرکینِ عرب نے جس طرح بیت اللہ کو جسے اللہ نے ساری دنیا کے لیے توحید کا مرکز بنایا تھا بت خانہ بنادیا اور عرب بھر کے قبائل کے پسندیدہ بت لاکر وہاں رکھ دیئے تاکہ عرب قبائل میں سے کسی کو بھی بیت اللہ کی مرکزیت میں شبہ نہ رہے۔ لیکن اس حرکت کے ساتھ بیت اللہ کو بجائے توحید کا مرکز بنانے کے شرک اور بت پرستی کا تیرتھ بنادیا گیا۔ اسی طرح صفا اور مروہ بھی جو تسلیم ورضا کی تاریخ کا مرکز اور عبودیت اور سرفروشی کے نقوش سے زندہ ہے وہاں بھی اساف اور نائلہ کے دو بت لاکر صفا اور مروہ پر رکھ دئیے گئے اور ان کی پوجا شروع کردی گئی یعنی جن دو پہاڑیوں نے حضرت ہاجرہ کی بےتابانہ بھاگ دوڑ اور بوڑھے باپ اور نوعمر بیٹے کی سرفروشی دیکھی وہی اب بت پرستی کے مناظر بھی دیکھ رہی تھیں اور اس طرح سے ان پہاڑوں کی تاریخ کو یکسر بگاڑ کر توحید کو بگاڑنے کی مکروہ کوشش کی جارہی تھی۔ چناچہ ضروری تھا کہ جس طرح بیت اللہ کو حضرت ابراہیم کی تاریخ کے آئینہ میں توحید کا مرکز دکھایا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس کی اصل حیثیت کی بحالی کا کام سونپا گیا ہے اسی طرح صفا اور مروہ کو بھی اصل حیثیت میں نمایاں کیا جاتا۔ اسی لیے تحویلِ قبلہ کے ذکر کے سلسلے میں، درمیان کے چند جملہ ہائے معترضہ کے بعد صفا اور مروہ کو شعائر اللہ کے طور پر ذکر کیا جارہا ہے تاکہ ان کے اصل مقام کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ شعائر اللہ کا تعارف شعائر، شعیرہ کی جمع ہے۔ جس کے معنی علامت یا کسی ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو کسی حقیقت کا احساس دلانے والی اس کا مظہر اور اس کا نشان ہو۔ چناچہ ہمارے دین میں جن چیزوں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے اگر آپ ان کی حیثیت، حقیقت اور تاریخ پر غور کریں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ وہ واقعی اللہ کی یاد دلانے والی، اللہ کا شوق پیدا کرنے والی، اس کے دین کی طرف مائل کرنے والی اور اس کے راستے میں سرفروشی کا جذبہ پیدا کرنے والی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ چیزیں مقصودِباالذات نہیں ہیں کیونکہ مقصود باالذات تو وہ حقائق ہیں جو ان کے اندر مضمر ہوتے ہیں۔ لیکن ان چیزوں کو شعائر کی حیثیت چونکہ اللہ کی طرف سے عطا ہوئی ہے اس لیے ان کو ایک احترام اور تقدیس کا درجہ مل گیا ہے اور مسلمانوں کے لیے ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ” بیت اللہ “ اللہ کے شعائر میں سے شائد سب سے بڑا شعیرہ ہے۔ مقصود اس کی عبادت کرنا نہیں بلکہ عبادت تو اللہ کی جاتی ہے، لیکن چونکہ یہ گھر اللہ کے ساتھ نسبت خاص رکھنے اور مرکز عبادت ہونے کی وجہ سے ایک خاص حیثیت کا مالک ہے۔ اس لیے اس کی تقدیس اور اس کا احترام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ بن گیا ہے۔ ہم جب بھی اسے دیکھتے ہیں تو جہاں اس کے سامنے سر جھکاتے ہیں وہیں اس کے احترام اور اس کی مرکزیت میں اضافے کے لیے اللہ ہی سے دعائیں مانگتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک مکان ہے، نہایت سادہ، نہایت پروقار، لیکن اس ایک کوٹھے نے دنیائے اسلام کو ایک جہت، ایک مرکزیت، ایک منزل اور ایک شعور میں پرو رکھا ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگوں کے دل اس کی وجہ سے اللہ کی محبت سے سرشار ہوتے اور اپنی ذات کی معرفت سے آشنا ہوتے ہیں۔ دنیا کو مختلف طبقوں اور مختلف فرقوں میں بٹی ہوئی اس امت کو ایک جگہ اور ایک رنگ میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی اس گھر کا وہ حقیقی کردار ہے، جس نے اسے اللہ کے شعائر میں ایک اہم حیثیت کا حامل بنادیا ہے۔ ” حجرِ اسود “ بھی ایک شعیرہ ہے، جو بیت اللہ کے ایک کونے میں پیوست ہے۔ اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں سے نصب کیا تھا۔ حدیث میں اسے اللہ کا دایاں ہاتھ قرار دیا گیا ہے۔ بندہ جب اسے ہاتھ لگاتا ہے تو وہ گویا اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے میثاقِ اطاعت کی تجدید کرتا ہے اور اپنے اس تعلق کو ازسر نو استوار کرتا ہے اور جب اسے بوسہ دیتا ہے تو وہ اس طرح سے اللہ سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔ یہ جذبہ اطاعت و بندگی اور عقیدت و محبت جو اس پاکیزہ پتھر سے شعائوں کی طرح پھوٹتی ہے، اسی نے اس کو اللہ کا شعیرہ بنادیا ہے۔ جمرات حجاجِ کرام دس تاریخ کو پتھر کے جن تین ستونوں کو باری باری کنکر مارتے ہیں ان کو ” جمرات “ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی شعائر اللہ میں سے ہیں کیونکہ ایک حاجی جب ان پر پتھر برساتا ہے، تو وہ درحقیقت ان پر نہیں برساتا بلکہ اللہ، بیت اللہ اور اسلام کے دشمنوں پر برساتا ہے اور ان کے خلاف مقدور بھر اعلانِ جہاد کرتا ہے اور اپنے عمل سے یہ تأثر دیتا ہے کہ میں جب اپنے ملک واپس جاؤں گا، تو میں اسی جذبے کے تحت ہر لادینی قوت سے لڑوں گا۔ اسی طرح ” صفا اور مروہ “ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کی سرفروشی کی تاریخ ایک ہی ذات سے شروع ہوتی ہے اور اسی ذات سے معراج کو پہنچتی ہے۔ لیکن اس ذات کا سررشتہ کبھی ماں کے ہاتھ میں ہے کبھی باپ کے ہاتھ میں تاکہ یہ معلوم ہو کہ ان دونوں شعائر سے ہمیں سرفروشی اور بندگی کا جو درس ملتا ہے وہ مرد اور عورت دونوں سے مل کر مکمل ہوتا ہے اور وہ دونوں اگر ایک ہی جہت اور ایک ہی تسلسل سے اپنا فرض انجام دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں سرفروشی کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ میری مراد اس سے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب اپنے نوزائیدہ بچے اسمعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو ایک بےآب وگیاہ وادی میں اللہ کے سہارے چھوڑ آئے تو حضرت ہاجرہ نے بیٹے کو ریت پر لٹا کر ان دو پہاڑیوں پر چڑھ کر اور پھر ان دونوں کے درمیان بھاگ کر یہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی کہ شائد ہمیں کوئی گزرتا ہوا قافلہ نظر آجائے یا کسی چشمے کا سراغ مل جائے او اس طرح سے اس بےآب وگیاہ وادی میں ماں بیٹے کی زندگی گزرنے کی سہولت پیدا ہوجائے۔ اللہ نے ماں کی اس دوڑ بھاگ کو قبول فرمایا اور بیٹے کے ایڑیاں رگڑنے کی جگہ سے وہ چشمہ جاری فرمایا جو چار ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، لیکن آج بھی پہلے دن کی طرح پانی سے بھرپور ہے۔ پھر ایک وقت آیا جب یہ بچہ دوڑنے بھاگنے کے قابل ہوا، تو باپ نے اللہ کے حکم سے اسی مروہ کے پاس اسے ذبح کرنے کی کوشش فرمائی۔ لیکن اللہ نے ہاتھ روکنے کا حکم دیا اور اس قربانی کو اس قربانی کی صورت دے دی جو آج ہم سال بہ سال عیدالاضحی کے موقعہ پر اللہ کے حضور جانوروں کی کرتے ہیں۔ اندازہ فرمائیے ! یہی وہ پہاڑیاں ہیں جن سے امت مسلمہ کی خواتین ہاجرہ کی سعی و کاوش کا منظر دیکھتی ہیں اور اپنے سینوں کو بندگی اور عبودیت کے جذبوں سے سیراب کرتی ہیں اور یہی وہ پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان بوڑھا باپ نو عمر بچے کو ساتھ لیے مقتل کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ کارنامہ انجام دینے کی فکر میں ہے جس کی مثال انسانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی اور آج ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرتا ہوا ہر باپ اپنے دل و دماغ میں ایسے ہی جذبوں کو محسوس کرتا ہے جس میں بچوں کی قربانی کے نتیجے میں اسلام کی فصل لہلہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ؎ پسرِ خلیل کی سیکھ ادا جو ہے زندہ رہنے کی آرزو کہ چھری رکے تو رکے مگر نہ سرکنے پائے ترا گلا شعائر کے سلسلے میں چند یاد رکھنے کی باتیں ان شعائر کے سلسلے میں چند باتیں ضرور ذہن نشین رہنی چاہئیں : 1 شعائر اللہ، اللہ اور اس کے رسول کے مقر رکیے ہوئے ہیں۔ اللہ اور رسول کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو شعائر اللہ میں شامل کرے۔ نہ کسی چیز کو شعائر اللہ میں شامل کیا جاسکتا ہے نہ خارج کیا جاسکتا ہے۔ ادب واحترام اپنی جگہ لیکن وہ مقام و مرتبہ جو اللہ نے شعائر اللہ کو عطا کیا ہے وہ کسی کے عطا کرنے سے کسی کو نہیں مل سکتا۔ جو ایسا کرے گا وہ ایک بہت بڑی گمراہی کے لیے راستہ کھولے گا اور اللہ کے سامنے اسے جوابدہی کرنا پڑے گی۔ 2 جس طرح شعائر اللہ کا تقرر اللہ اور رسول کا اختیا رہے اسی طرح ان کے ادب واحترام کی حدود بھی اللہ اور رسول ہی کی مقرر کی ہوئی ہیں چناچہ جس شعیرہ کا احترام اور اس کی تعظیم کی جو شکل اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کردی ہے، ہم اس سے سرمو انحراف نہیں کرسکتے۔ مثلاً حجرِ اسود ایک شعیرہ ہے۔ ہمیں اس کے لیے حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی تعظیم کے لیے، طواف کرتے ہوئے اس کو بوسہ دیں، اسے ہاتھ لگا کر چومیں یا دور سے اس کی طرف اشارہ کریں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی طرف سے تعظیم کے ان طریقوں میں اضافہ کرتا ہے، مثلاً وہ حجرِ اسود کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہے، اس کو سجدہ کرتا ہے، اس کے سامنے نذریں پیش کرتا ہے، یا اس پر پھول چڑھانے لگتا ہے یا اس طرح کی کوئی اور حرکت کرتا ہے تو وہ اس طرح کی حرکتوں سے نہ صرف کہ حجرِ اسود کی تعظیم کا حق ادا نہیں کرسکے گا بلکہ وہ اللہ کے سامنے ان گمراہیوں کے لیے جوابدہ ہوگا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) نے شائد اسی حکمت کے تحت اپنے دور خلافت میں حجرِ اسود کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا :” اے حجرِ اسود ! تو صرف ایک سیاہ پتھر ہے تو مجھے نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تجھے اللہ کے رسول نے نہ چوما ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا “۔ 3 شعائر اللہ کی تعظیم اور احترام کے ساتھ ساتھ جو اصل چیز پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ یہ شعائر تو علامتیں ہیں کسی خاص حقیقت کی اور ان حقائق کے لیے ان کی حیثیت صرف قالب کی ہے۔ اس لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ ان کا احترام بجا لاتے ہوئے اصل حقائق کو دل و دماغ میں بسانے اور راسخ کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اس میں اگر تساہل برتاجائے تو دین ایک مجموعہ رسوم بن کر رہ جائے گا اور دین کی اصل روح زندگیوں سے نکل جائے گی، یہی حادثہ بنی اسرائیل پر گزرا اور وہ تباہ ہوگئے۔ امت مسلمہ کو اس بارے میں نہایت بیدار مغز رہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ ہم اس تباہی کی طرف بہت سارا سفر کرچکے ہیں۔ صفا اور مروہ موجود ہیں ان کے درمیان سعی بھی ہورہی ہے، لیکن اس سعی میں وہ جذبات پیدانھیں ہورہے جو اس سعی کا اصل حاصل ہیں۔ جمرات پر کنکر مارے جارہے ہیں، لیکن اللہ اس کے رسول اور دین کے دشمنوں سے ہمارے نیاز مندانہ تعلقات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جذبہ جہاد ایک گالی بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری روشن خیالی، ہماری اصل روح کو کچلتی جارہی ہے۔ اس لیے ان شعائر اللہ کا ذکر پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے اندر جھانک کر اپنے آپ کو اور امت کو پڑھنا بہت ضروری ہے : کتابوں کا لکھا تو عمر بھر پڑھتے رہے تشنہ کبھی وہ بھی پڑھا ہوتا جو دیواروں پہ لکھا ہے صفا اور مروہ کو شعائر اللہ میں سے قرار دینے کے بعد فرمایا : فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِعْتَمَرَ فَـلَا جُنَاحْ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا اس جملے کا اسلوب صفا اور مروہ کو شعائر اللہ میں قراردینے سے یکسر اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ جن دو پہاڑیوں کو شعائر اللہ قرار دیاجاچکا ہے ان کے بارے میں تو یہ کہنا چاہیے کہ ان کا طواف کرنا یعنی ان کے درمیان سعی کرنا ازبس ضروری ہے۔ چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرنا چاہے اس کے لیے کوئی ہرج نہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعی کرنے کی اجازت دی جارہی ہے، حکم نہیں دیا جارہا ۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرنا حج اور عمرہ کے دوران احناف کے نزدیک واجب ہے اور بعض دیگر ائمہ کے نزدیک سنت بھی ہے اور فرض بھی۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں جو فَـلَا جُنَاحَ کہا گیا ہے، اس کا تعلق سعی کے حکم سے نہیں بلکہ سعی کی جگہ سے ہے۔ پیچھے میں عرض کرچکا ہوں کہ مشرکینِ مکہ نے دونوں پہاڑیوں پر دو بت نصب کر رکھے تھے اور ان کی وہ پوجا کرتے تھے۔ مسلمان ان بتوں کی وجہ سے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے میں کراہت محسوس کررہے تھے۔ چناچہ ان مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ اگرچہ صفا اور مروہ کے درمیان یہ قباحت موجود ہے لیکن ان دونوں کے درمیان سعی وہ تو مناسکِ حج میں سے ہے وہ کسی وقتی رکاوٹ کی وجہ سے چھوڑی نہیں جاسکتی، تم ان دو بتوں کی طرف نہ دیکھو بلکہ اللہ کے احکام کی طرف دیکھو اور خوش دلی سے ان کی تعمیل کرو۔ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا سے اسی بات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ اللہ کے یہاں وہ اطاعت قابل قبول ہوتی ہے جو خوشدلی سے کی جاتی ہے تم ان بتوں کو بالکل نظر انداز کرکے نہایت خوشدلی اور مکمل جذبہ اطاعت کے ساتھ سعی کا عمل بجا لائو تم دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس عمل کی قدر فرمائیں گے۔ یہاں حج اور عمرہ کا ذکر آیا ہے اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کی تھوڑی سی وضاحت کردوں۔ حج : عبادتِ اسلامی کا چوتھارکن ہے یعنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے بعد چوتھا فریضہ ہے۔ امت کے ہر فرد پر خواہ وہ دنیا کے کسی علاقے کا باشندہ ہو اگر مصارفِ سفر کی استطاعت ہو، صحت بھی سفر کی متحمل ہو اور راستہ بھی پر امن ہو، تو پھر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ گویا دنیائے اسلام کی یہ بین الاقوامی سالانہ کانفرنس ہے۔ اس کے ارکان تین ہیں۔ (1) پوشش احرام، یعنی حدود حرم میں داخلہ سے پہلے عام لباس اتار کر احرام یعنی بےسلا ہوا لباس پہن لینا۔ (2) میدانِ عرفات میں نوذوالحجہ کو حاضری، اصطلاح میں اسے وقوف کہتے ہیں۔ (3) طواف زیارت، یعنی وقوف کے بعد خانہ کعبہ کا طواف، اور واجباتِ حج چار ہیں۔ (1) 9 اور 10 ذوالحجہ کی درمیانی رات میں مزدلفہ میں قیام۔ (2) صفا اور مروہ کے درمیان سعی۔ (3) مزدلفہ میں قیام کے بعد دس تاریخ کو منیٰ میں کنکریاں پھینکنا، جسے رمی جمرات کہا جاتا ہے۔ (4) طواف کعبہ، یہ طواف فرض کے علاوہ ہے۔ اسے طواف صدر کہا جاتا ہے۔ قربانی کرنا، سر کے بال اتروانا وغیرہا، بہت سے سنن اور مستحبات ان کے علاوہ ہیں۔ عمرہ : اس کا دوسرا نام حجِ اصغر ہے۔ اس میں حج کی طرح مہینہ اور تاریخ کی قید نہیں۔ سال کے کسی مہینہ اور کسی دن میں بھی ہوسکتا ہے۔ نہ اس میں وقوف عرفات ہے اور نہ قیام مزدلفہ اور منیٰ ۔ عمرہ کی نیت سے احرام حدود حرم یعنی میقات سے باہر باندھا جاتا ہے، طواف کعبہ اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے بال اتروائے جاتے ہیں اور آخر میں مقام ابراہیم کے پاس دو نفل پڑھے جاتے ہیں، درمیان میں آب زم زم پینا بھی مستحب ہے۔ بس انھیں چند افعال سے عمرہ مکمل ہوجاتا ہے اور احرام کھول دئیے جاتے ہیں۔
Top