Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الصَّفَا : صفا وَالْمَرْوَةَ : اور مروۃ مِنْ : سے شَعَآئِرِ : نشانات اللّٰهِ : اللہ فَمَنْ : پس جو حَجَّ : حج کرے الْبَيْتَ : خانہ کعبہ اَوِ : یا اعْتَمَرَ : عمرہ کرے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں کوئی حرج عَلَيْهِ : اس پر اَنْ : کہ يَّطَّوَّفَ : وہ طواف کرے بِهِمَا : ان دونوں وَمَنْ : اور جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَاكِرٌ : قدر دان عَلِيْمٌ : جاننے والا
بیشک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے
(2:158) شعائر۔ شعیرۃ۔ کی جمع ہے شعیرۃ بروزن فعیلۃ بمعنی مفعلۃ ہے مشعرۃ کے معنی نشانی کے ہیں۔ شعائر اللہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کی نشانیاں۔ شعائر اللہ۔ عرف شریعت میں عبادات کے مکانات اور زمانوں اور علامات کو کہتے ہیں ۔ مکانات عبادت جیسے کعبہ۔ عرفہ، مزدلفہ، جمرات ثلاث صفا مروہ۔ منی و جمیع مساجد وغیرہ۔ زمانے (اوقات) جیسے رمضان اور اشہر حج۔ عیدین ۔ جمعہ اور علامات جیسے اذان، اقامت، نماز باجماعت وغیرہ۔ اعتمر۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اعتمار (افتعال) مصدر اس نے عمرہ کیا۔ عمرہ زیارت بیت اللہ کے سلسلہ میں ایک مخصوص عبادت کا نام ہے۔ اس کا طریق یہ ہے کہ احرام باندھے جن دنوں چاہے اور طواف کعبہ کرے۔ اور صفا ومروہ کے بیچ دوڑے۔ پھر حجامت کراکر احرام اتار دے۔ حج۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ حج و حج مصدر ( باب نصر) قصد کرنا۔ زیارت کے لئے جانا ۔ حج کرنا ۔ فلا جناح علیہ ان یطوف بھما۔ جناح۔ جنوح (باب فتح۔ نصر۔ ضرب) سے ماخوذ ہے۔ جنح اذا مال عن القصد المستقیم یعنی مقصد مستقیم سے دوسری جانب مائل ہونا۔ پس وہ گناہ جو حق سے دوسری طرف مائل کر دے۔ جناح ہے۔ فلاجناح علیہ۔ پس نہیں ہے گناہ اس پر۔ ان مصدریہ ہے۔ یطوف۔ مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) صیغہ واحد مذکر غائب کہ وہ طواف کرے۔ یعنی سعی کرے یطوف اصل میں یتطوف (باب تفعل) تطوف سے تھا۔ تاء کو طاء میں مدغم کیا گیا۔ ترجمہ ہوگا۔ نہیں ہے اس پر گناہ کہ وہ ان دونوں (صفا ومروہ) کے درمیان سعی کرے۔ شان نزول اس آیت کا اس طرح ہے کہ صفا ومروہ پر آساف و نائلہ دو بت تھے۔ آساف صفا پر تھا اور نائلہ مروہ پر، اہل جاہلیت ان بتوں کی تعظیم کے لئے صفا مروہ کے درمیان طواف کیا کرتے تھے۔ جب اسلام کا ستارہ چمکا تو مسلمان صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے سے ان بتوں کی وجہ سے اعتراز کرتے تھے اور نفرت کرتے تھے۔ ادھر انصار قبل از اسلام منات بت کی عبادت کیا کرتے تھے۔ اور اس کے سامنے پکار کر دعا کیا کرتے تھے۔ اس لئے انصار بھی صفا ومروہ کے درمیان دوڑنے سے کراہت کرتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں فریق کے باب میں یہ آیت نازل فرمائی۔ (مظہری) مسلمانوں کو حکم ہوا کہ صفا مروہ کے درمیان جو تم سعی کیا کرتے تھے اسے جاری رکھو۔ یہ ایک نیک کام ہے اس کے جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ احناف کے نزدیک صفا مروہ کے درمیان سعی واجب ہے۔ تطوع۔ اس نے خوشی سے نیکی کی۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ تطوع (تفعل) مصدر سے۔ جس کے معنی اصل میں تو نیکی میں تکلف کرنے کے ہیں۔ مگر عرف میں جو چیزیں کہ لازم اور فرض نہ ہوں جیسے نوافل وغیرہ ان کے بجالانے اور انجام دینے کو کہتے ہیں۔ شاکر۔ شاکر۔ شکر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جب لشکر سے متصف کیا جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام فرمانا اور جو کچھ عبادت انہوں نے ادا کی ہے اس کی جزا دینا مراد ہے۔ یہاں شاکر بمعنی قدر دان ۔ حق ماننے والا۔ فمن حج البیت الخ جملہ شرطیہ ہے اور فان اللہ ۔۔ الخ جواب شرط ہے۔ اسی طرح من تطوع ۔۔ الخ جملہ شرطیہ ہے اور فان اللہ ۔۔ الخ جواب شرط۔
Top