Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ
: بیشک
الصَّفَا
: صفا
وَالْمَرْوَةَ
: اور مروۃ
مِنْ
: سے
شَعَآئِرِ
: نشانات
اللّٰهِ
: اللہ
فَمَنْ
: پس جو
حَجَّ
: حج کرے
الْبَيْتَ
: خانہ کعبہ
اَوِ
: یا
اعْتَمَرَ
: عمرہ کرے
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں کوئی حرج
عَلَيْهِ
: اس پر
اَنْ
: کہ
يَّطَّوَّفَ
: وہ طواف کرے
بِهِمَا
: ان دونوں
وَمَنْ
: اور جو
تَطَوَّعَ
: خوشی سے کرے
خَيْرًا
: کوئی نیکی
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
شَاكِرٌ
: قدر دان
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
بیشک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے
صفا اور مروہ کے درمیان سعی ارشاد باری ہے : ان الصفاء والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او امتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما ( یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ا ن دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرے) ابن عینیہ سے مروی ہے انہوں نے زہری سے اور انہوں نے عروہ سے روایت بیان کی ہے کہ میں نے مذکورہ بالا آیت کی تلاوت حضرت عائشہ ؓ کے سامنے کرکے ان سے کہا کہ اگر میں سعی نہ کروں تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔ یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : بھانجے تم نے بہت بری بات کہی۔ حضور ﷺ نے ان کے درمیان سعی کی ہے اور مسلمانوں نے بھی ان کے درمیان سعی کی ہے۔ اس طرح سعی ایک سنت بن گئی۔ مناۃ بت کے نام لیوا ان کے درمیان سعی نہیں کرتے تھے۔ جب اسلام آگیا تو مسلمانوں نے ان کے درمیان سعی کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوگئی اس پر حضور ﷺ نے ان کے درمیان سعی کی اور اس طرح یہ بات سنت قرار پائی۔ عروہ کہتے ہیں کہ میں نے اس بات کا تذکرہ ابوبکر بن عبدالرحمن ؓ سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ : یہی علم کی بات ہے ۔ بہت سے اہل علم کا قول ہے کہ اس بارے میں صرف ایسے لوگوں نے سوال کیا تھا جو صفا مروہ کے درمیان سعی کیا کرتے تھے میرے خیال میں آیت کا نزول دونوں گروہوں کے بارے میں ہوا ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ صفا پہاڑی پر بہت سے بت نصب تھے اور مسلمان ان بتوں کی وجہ سیس عی نہیں کرتے تھے اس پر اللہ نے آیت نازل فرمائی۔ فلا جناح علیہ ان یطوف بھما۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک اس آیت کے نزول کا سبب ان لوگوں کا سوال تھا جہ مناۃ بت کا نام بلند آواز سے پکارتے تھے اور اس کے پجاری ہونے کی بنا پر صفا اور مروہ کے درمیان چکر نہیں لگاتے تھے۔ جبکہ حضر ت ابن عباس اور ابوبکر بن عبدالرحمن کے قول کے مطابق آیت کا نزول ان لوگوں کے سوال کی وجہ سے ہوا تھا جو ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرتے تھے۔ ان پہاڑوں پر بہت بت نصب تھے جس کی وجہ سے اسلام آنے کے بعد بھی لوگ ان کے درمیان سعی کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ ممکن ہے آیت کے نزول کا سبب ان دونوں گروہوں کا سوال ہو۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور ایوب نے ابن ابن ملیکہ سے اور دونوں حضرت عائشہ ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے کسی شخص کے حج اور عمرہ کو اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جب تک کہ اس نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرلی۔ ابو الطفیل نے حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان سعی سنت ہے اور حضور ﷺ نے اس کی ادائیگی کی ہے۔ عاصم الاحوال نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو ناپسند نہیں کرتے تھے، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوگئی۔ ان کے درمیان سعی نقل ہے۔ عطاء سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن الزبیر ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جو شخص چاہے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرے۔ عطاء اور مجاہد سے منقول ہے کہ جو شخص صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرے اس پر کوئی چیز عائد نہیں ہوگی۔ اس بارے میں فقہائے امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب سفیان ثوری اور امام مالک کا قول ہے کہ حج اور عمرہ کے اندر سعی واجب ہے اور اگر اسے ترک کردیا گیا ہو تو اس کے بدلے دم، یعنی ایک جانور قربانی کردینا کافی ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ سعی ترک کرنے کی صورت میں دم دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ متعلقہ شخص پر واپس آکر سعی کرنا لازم ہوگا۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں ہمارے اصحاب کے نزدیک سعی حج کے توابع میں شمار ہوتی ہے اور جو شخص سعی کیے بغیر اپنے گھر واپس آ جائے اس کے لئے اس سعی کے بدلے دم دے دینا اسی طرح کافی ہوگا جس طرح مزدلفہ میں وقوف یا رمی جماریا طواف صدر ترک کردینے پر کافی ہوجاتا ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حج کے فرائض میں داخل نہیں ہے اس کی دلیل حضور ﷺ کی وہ حدیث ہے جسے شعبی نے حضرت عروہ بن مضرس الطائی ؓ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اللہ کے رسول ! میں قبیلہ طے کے پہاڑ کے پاس سے آیا ہوں، میں نے کوئی بھی پہاڑ اس پر وقوف کیے بغیر نہیں چھوڑا، تو کیا میرا حج ہوگیا ؟ یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا : جس شخص نے ہمارے ساتھ یہ نماز پڑھی، اور اس مقام پر ہمارے ساتھ وقوف کیا جب کہ وہ اس سے پہلے عرفات میں دن یا رات کے وقت وقوف کرچکا ہو تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور اب وہ اپنا میل کچیل دور کرلے۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد دو وجوہ سے حج کے اندر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی فرضیت کی نفی کر رہا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سائل کو بتادیا کہ اس کا حج مکمل ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس میں سعی کا ذکر نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر سعی فرض ہوتی تو آپ ﷺ سائل کو اس کے متعلق ضرور ہدایت دیتے۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ مذکورہ بالا حدیث میں طواف زیارت کا بھی ذکر نہیں ہے حالانکہ یہ حج کے فرائض میں داخل ہے تو ا س کے جواب میں کہا جائے گا ظاہر لفظ اسی بات کا متقضی ہے البتہ ہم نے ایک دلالت کی بنا پر اس کی فرضیت ثابت کی ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ سعی مسنون یعنی واجب نہ ہو بلکہ نفل اور تطوع ہو جیسا کہ حضرت انس ؓ اور حضرت ابن الزبیر ؓ کی روایت سے ظاہر ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر لفظ اسی کا متقضی ہے البتہ ہم نے ایک دلالت کی بنا پر توابع حج کے اندر اس کی مسنونیت کا اثبات کیا ہے۔ سعی کے وجوب پر اس بات سے استدلال کیا ج اتا ہے کہ اللہ کی کتاب میں فرض حج کا بیان مجمل طورپر ہوا ہے اس لئے کہ لغت میں حج کے معنی قصد کے ہیں۔ شاعر کہتا ہے۔ ع یحج ما مومۃ فی قعرھا الجف ( وہ ایسے کنویں کا قصد کرتا ہے جس کی تہہ میں بڑی کشادگی ہے) ۔ یہاں لفظ ” یحج “ کے معنی ” یقصد “ کے ہیں۔ شرع کے اندر لفظ حج کو دوسرے معانی کی طرف منتقل کردیا گیا جن کے لئے لغت کے اعتبار سے یہ لفظ وضع نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک مجمل لفظ تھا جسے بیان کی ضرورت تھی۔ اس بنا پر حضور ﷺ کا اس سلسلے میں جو فعل وارد ہو وہ فی الجملہ اس مجمل لفظ کے مترادف ہوگا اور حضور ﷺ کا جو فعل مورد بیان میں وارد ہوا سے وجوب پر محمول کیا جائے گا۔ اس بنا پر جب حضور ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیا سعی کی تو اسے اس وقت تک وجوب پر دلالت تصور کیا جائے گا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے حضور ﷺ کا ارشاد ہے مجھ سے اپنے مناسک لے لو ! یعنی سیکھ لو، آپ ﷺ کا یہ ارشاد امر کے صیغے میں ہونے کی وجہ سے تمام مناسک کے اندر آپ کی اقتدار کے ایجاء کا متقضی ہے، اس بنا پر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے معاملے میں بھی آپ کی اقتدا واجب ہوگئی۔ طارق بن شہاب نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں حضور ﷺ کے پاس آیا اس وقت آپ ﷺ مقام بطحا میں تھے۔ آپ ﷺ نے پوچھا تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے ؟ میں نے عرض کیا جو احرام اللہ کے رسول نے باندھا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا تم نے اچھا کیا۔ اب بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرو اور پھر احرام کھول دو ۔ اس ارشاد میں آپ ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ ؓ کو سعی کرنے کا حکم دیا اور امرایجاب کا متقضی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی مروی ہے لیکن اس کے تین اور سند دونوں میں اضطراب ہے اور اس کا ایک روای بھی مجہول ہے اسے معمر نے ابن عینیہ کے غلام واصل سے، انہوں نے موسیٰ بن ابی عبید سے، انہوں نے صیغہ بنت ابی شیبہ سے اور انہوں نے ایک عورت سے بیان کیا ہے جس نے حضور ﷺ کو صفا اور مروہ کے درمیان یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تم پر سعی فرض کی گئی ہے اس لئے سعی کرو لیکن اس خاتون کا نام بیان نہیں ہوا۔ محمد بن عبدالرحمن بن محصین نے عطا بن ابی رباح سے روایت بیان کی ہے کہ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے حبیبہ بنت ابی تحررۃ نامی ایک خاتون سے روایت بیان کی کہ میں ابو حسین کے گھر گئی میرے ساتھ قریش کی کچھ خواتین بھی تھیں۔ اس وقت حضور ﷺ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اور آپ کی چادر بھی آپ ؐ کے ساتھ گھوم رہی تھی۔ آپ فرما رہے تھے لوگو ! سعی کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کردی ہے ۔ اس روایت میں ذکر ہوا ہے کہ آپ نے یہ بات طواف کے دوران فرمائی۔ اس حدیث کا ظاہر اس بات کا متقضی ہے کہ آپ کی مراد طواف کے اندر سعی سے تھی، یعنی رمل، نیز نفس طواف کیونکہ قدموں پر چلنا، یعنی مشی کو بھی سعی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے فاسعو ا الی ذکر اللہ ( اللہ کی یاد طرف چل پڑو) یہاں چلنے میں اسرا ع مراد نہیں ہے، بلکہ اللہ کی یاد کے لئے پہنچنا مراد ہے۔ پہلی حدیث جس میں بیان ہوا ہے کہ حضور ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے مذکورہ بات ارشاد فرمائی تھی، اس میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی مراد لی ہے کیونکہ یہ کہنا درست ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے اس ارشاد سے بیت اللہ کا طواف اور طواف کے اندر رمل مراد لیے ہوں۔ طواف کے اندر رمل بھی سعی ہے، اس لئے کہ رمل میں تیز تیز قدموں سے چلنا ہوتا ہے۔ نیز حدیث کا ظاہر کسی بھی سعی کے جواز کا متقضی ہے یعنی طواف کرنے والا جب رمل کرلے تو گویا اس نے سعی کرلی۔ اس میں وجوب تکرار پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ ہماری مذکورہ پہلی روایتیں سعی کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ سعی سنت ہے اور اسے چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ ان روایتوں کے اندر اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ جو شخص یہ سنت چھوڑ دے اس کی طرف سے دم دینا اس سنت کے قائم مقام نہیں ہوگا۔ اگر ایک شخص سعی کیے بغیر اپنے گھر واپس آ جائے تو اس کی طرف سے ایک جانور کی قربانی متروکہ سعی کی قائم مقام بن جائے گی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ پورا احرام کھول دینے کے بعدسعی کرنے کے جواز پر سلف کا اتفاق ہے جس طرح رمی اور طواف صدر جائز ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ دم دینا جس طرح رمی اور طواف صدر کے قائم مقام بن جاتا ہے اسی طرح سعی کے قائم مقام بھی بن جاتا ہے۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ احرام کھولنے کے بعد طواف زیارت کیا جاتا ہے لیکن دم دینا اس کے قائم مقام نہیں ہوتا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا اس طرح نہیں ہے، کیونکہ طواف زیارت کا باقی رہ جانا اس امر کا موجب ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص کے لئے اپنی بیوی سے ہمبستری حرام ہوتی ہے اور جب طواف زیارت کرلیتا ہے تو اس کے لئے ہر بات حلال ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ دوسری طرف اگر سعی باقی رہ جائے تو احرام کھولنے کا کچھ عرصہ باقی رہ جانے کے دوران میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا جس طرح رمی اور طواف صدر کی کیفیت ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ محرم اگر طواف زیارت کرلے تو جب تک وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرے گا اسوقت تک اپنی بیوی سے ہم بستری اس کے لئے حلال نہیں ہوگی تو اس کا جواب یہ ہے کہ تابعین کے صدر اول اور ان کے بعد آنے والے سلف کا اس امر پر اتفاق ہے کہ طواف زیارت کرنے کے بعد محرم کے لیے اس کی بیویاں حلال ہوجاتی ہیں کیونکہ حلق کے بعد محرم کے بارے میں ان حضرات کے تین اقوال ہیں کچھ حضرات کا قول ہے کہ جب تک وہ طواف زیارت نہ کرلے اس وقت تک اس کے لئے سلے ہوئے کپڑے، شکار اور خوشبو حرام ہوتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ اس کے لئے عورتیں اور خوشبو حرام ہوتی ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ وغیرہ دیگر حضرات کا قول ہے کہ وہ جب تک طواف زیارت نہ کرلے اس وقت تک عورتیں حرام ہوتی۔ اس طرح گویا سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ طواف زیارت کرنے کے بعد اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کیے بغیر اس کے لئے عورتیں حلال ہوجاتی ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جس شخص پر طواف نہیں اس پر سعی بھی نہیں۔ نیز یہ کہ وہ تطوع کے طورپر سعی نہیں کرے گا جس طرح تطوع کے طورپر رمی نہیں کرے گا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ سعی حج اور عمرہ کے توابع میں سے ہے۔ اگر کہاجائے کہ وقوف عرفہ احرام کے بعد اور طواف زیارت وقوف کے بعد کیا جاتا ہے اور یہ دونوں باتیں حج کے فرائض میں شامل ہیں ؟ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے یہ تو نہیں کہا کہ ایک فعل جو ایک اور فعل کے بعد کیا جائے وہ اس کا تابع ہوتا ہے۔ ہم نے تو صرف یہ کہا ہے کہ جو فعل حج یا عمرہ کے افعال کے بالتبع کیا جائے وہ تابع ہوتا ہے، فرض نہیں ہوتا۔ اس بناپر جہاں تک وقوف عرفہ کا تعلق ہے، تو وہ کسی اور فعل کے بالتبع نہیں کیا جاتا بلکہ علی الانفراد کیا جاتا ہے، البتہ اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ ایک شرط احرام اور دوسری شرط وقت ہے اور جس فعل کے لئے احرام یا وقت شرط ہو اس میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہوتی جس سے معلوم ہوا کہ اس کی ادائیگی بالتبع کی جاتی ہے۔ اسی طرح جس فعل کا جو از کسی وقت کے ساتھ متعلق ہو اس میں بھی یہ دلالت نہیں ہوتی کہ وہ کسی اور فرض کے تابع ہے۔ طواف زیارت کے جواز کا تعلق وقت اور وقوف عرفہ کے ساتھ ہے اور اس کی صحت احرام کے سوا کسی اور فعل پر موقوف نہیں ہے۔ اس لئے یہ اس کے سوا کسی اور فعل کے تابع نہیں ہے۔ دوسری طرف صفا اور مروہ کے درمیان سعی وقت کے ساتھ ایک اور فعل، یعنی طواف پر موقوف ہے اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہ حج اور عمرہ کے توابع میں سے ہے۔ فرض نہیں ہے اس لئے یہ طواف صدر کے مشابہ ہوگئی۔ جب اس کی صحت طواف زیارت پر موقوف ہے تو یہ حج کے اندر ایک تابع ہوگی اور اس کے ترک پر دم دینا اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔ قول باری ہے۔ ان الصفاء والمروۃ من شعائر اللہ یہ اس امرپر دلالت کرتا ہے کہ یہ قربت ہے کیونکہ شعائر طاعات اور تقرب الٰہی کے نشانات ہوتے ہیں۔ یہ لفظ اشعار سے ماخوذ ہے جس کے معنی اعلام کے ہیں۔ اسی سے یہ قول ہے : شعرت یکذاکذا یعنی مجھے فلاں فلاں باتوں کا علم ہوا۔ اسی سے ” اشعار بدتہ “ یعنی قربانی کے جانور پر ایسے نشانات بنادینا جن سے معلوم ہو کہ یہ جانور قربانی کے لئے ہے ” شعار الحرب “ ان علامات کو کہاجاتا ہے جن کے ذریعے جنگ میں حصہ لینے والے فوجی ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ اس لئے شعائر تقرب الٰہی کی یادگاریں ہیں۔ ارشاد باری ہے : ذلک ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب ( یہ بات ہوچکی اور جو کوئی خدا کی یادگاروں کا ادب کرے گا سو یہ ادب دلوں کی پرہیز گاری میں سے ہے) حج کے شعائر اس عبادت کے معالم اور نشانات ہیں۔ اور مشعر حرام، یعنی مزدلفہ بھی ان میں سے ہے۔ اس طرح زیر بحث آیت اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی تقرب الٰہی ہے۔ قول باری : فلا جناح علیہ ان یطوف بھما کی تفسیر میں حضرت عائشہ ؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓ نے بتایا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے سوال کے جواب میں ہے جنہوں نے صفا اور مروہ کے بارے میں پوچھا تھا ، نیز یہ کہ آیت کے ظاہری الفاظ و جواب مراد لینے کی نفی نہیں کرتے۔ اگرچہ یہ الفاظ و جوب پر دلالت بھی نہیں کرتے، تاہم آیت کے سوا اس کے وجوب پر دلالت کرنے والی اور بات بھی موجود ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں۔ بطن وادی کے اندر سعی کرنے یعنی تیز رفتاری سے چلنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے اس بارے میں حضور ﷺ سے مختلف روایتیں منقول ہیں ۔ ہمارے اصحاب کا مسلک ہے کہ بطن وادی میں سعی، یعنی تیز قدموں سے چلنا مسنون ہے جس طرح طواف کے اندر مل مسنون ہے اسے ترک نہیں کرنا چاہیے جعفر بن محمد نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان جب حضور ﷺ کے قدم مبارک اتر گئے تو آپ نے سعی کی یعنی آپ کی رفتار تیز ہوگئی حتیٰ کہ آپ وادی پار کرگئے۔ سفیان بن عینیہ نے صدقہ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے سوال کیا آپ کے خیال میں حضور ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان رمل کیا تھا ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا : آپ ﷺ لوگوں کے درمیان تھے، لوگوں نے رمل کیا تھا اور میرے خیال میں انہوں نے آپ ﷺ کو رمل کرتے دیکھ کر ایسا کیا تھا۔ نافع کا قول ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ بطن وادی میں سعی کرتے تھے۔ مسروق نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بطن وادی میں سعی کی تھی۔ عطا نے حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا یہ قول نقل ہے کہ جوش خص چاہے مکہ کے سیل ( پانی کی گزرگاہ) میں سعی کرلے اور جو چاہے سعی نہ کرے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی اس سے مراد بطن وادی میں رمل تھا۔ سعید بن جبیر نے روایت بیان کی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو صفا اور مروہ کے درمیان چلتے ہوئے دیکھا تھا، آپ کہتے کہ اگر میں قدموں پر چلوں تو میں نے حضور ﷺ کو قدموں پر چلتے دیکھا تھا اور اگر میں سعی کروں تو میں نے آپ کو سعی کرتے دیکھا تھا۔ عمرو نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان صرف اس لئے سعی کی تھی کہ مشرکین کے سامنے یہ مظاہرہ ہوسکے کہ آپ ﷺ کمزور نہیں ہوئے ہیں بلکہ آپ ﷺ کی جسمانی قوت بحال ہے۔ عمرو کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ حضور ﷺ نے بطن وادی میں سعی کی تھی۔ یہاں سعی کی اس سبب کا ذکر جس کی خاطر حضور ﷺ نے یہ فعل کیا تھا یعنی مشرکین کے لئے جسمانی قوت کا اظہار، نیز اس سبب کے ساتھ آپ ﷺ کے فعل کا تعلق سبب زائل ہونے پر سنت کے طورپر اس کے باقی رہنے میں مانع نہیں ہے جیسا کہ طواف کے اندر رمل کے بارے میں ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ ہم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ رمی جمار کا سبب یہ تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ابلیس کو اس وقت کنکریاں ماری تھیں جب وہ منیٰ کے اندر آپ کے سامنے ظاہر ہوا تھا، تاکہ آپ کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی سے روکے اور آپ کے دل میں وسوسے پیدا کرے۔ اس کے بعد رمی جمار سنت بن گئی۔ اسی طرح وادی کے اندر رمل کا سبب یہ تھا کہ حضرت ہاجرہ نے جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے لئے پانی تلاش کیا تو صفا اور مروہ کے درمیان آتی جاتی رہیں جب آپ وادی میں اتر آتیں تو بچہ آپ کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا اور پھر آپ تیز تیز قدموں سے چل کر جاتیں۔ ابو الطفیل نے حضر ت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب مناسک کی تعلیم دی گئی تو مسعی کے پاس شیطان آپ کے سامنے آیا، آپ شیطان سے آگے نکل گئے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اس مقام پر تیز رفتاری سے کام لیا تھا۔ یہ عمل اپنے نظائر کی طرف جن کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں سنت ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے دوران بطن وادی میں رمل کرنے کے عمل کو امت نے قولاًوفعلاً اختیار کیا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضور ﷺ نے یہ عمل کیا ہے۔ صرف اس بارے میں اختلاف رائے ہے کہ آیا آپ ﷺ کے بعد یہ مسنون ہے یا نہیں۔ فعلی طورپر اس درجے تک اس عمل کی نقل دراصل اس کے حکم کے باقی رہنے پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں اس دلالت کا ذکر کر آئے ہیں واللہ اعلم بالصواب۔ راکب کے طواف کا بیان ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان سوار ہوکر طواف کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب نے بلا عذر ایسا کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ابو الطفیل نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا : آپ کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سواری پر سوار ہوکر صفا اور مروہ کے درمیان طواف سنت ہے اور یہ کہ حضور ﷺ نے بھی ایسا ہی کیا تھا ؟ یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : انہوں نے سچ کہا ہے اور جھوٹ بھی، حضور ﷺ نے اس لئے ایسا کیا تھا کہ آپ ﷺ کے پاس سے کسی کو ہٹانے کی ضرورت پیش نہ آئے ورنہ سواری پر طواف کرنا سنت نہیں ہے۔ عروہ بن الزبیز بن ابی سلمہ اور انہوں نے حضرت ام سلمی ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے اپنی طبیعت کی خرابی کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرلو۔ عروہ جب لوگوں کو جانوروں پر سوار ہوکر طواف کرتے دیکھتے تو انہیں روکتے ، لوگ ان سے بیماری کا ذکر کرتے تو وہ سن کر کہتے یہ لوگ نامراد و ناکام ہوگئے۔ ابن ابی ملیکہ نے حضرت عائشہ ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے ۔ مجھے حج اور عمرہ سے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نے روک دیا ہے اور میں سواری کرنا ناپسند کرتی ہوں۔ یزید بن ابی زیاد سے روایت ہے انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سنا کر حضور ﷺ آئے اور اس وقت آپ ﷺ کی طبیعت خراب تھی، چناچہ آپ ﷺ نے ایک اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ٹیڑھے سر والا ایک ڈنڈا تھا آپ ﷺ حجر اسود کے پاس سے گزرتے تو اس کا استلام کرتے۔ جب آپ ﷺ طواف سے فارغ ہوگئے تو اونٹ کو بٹھایا اور اتر کر دو رکعتیں پڑھیں۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے اندر بطن وادی میں سعی کرنا سنت ہے۔ اگر کوئی شخص سوار ہوکر یہ طواف کرے گا تو وہ سعی کا تارک قرار پائے گا اور اس کی یہ بات خلاف سنت ہوگی۔ الا یہ کہ معذور ہو، جیسا کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے منقول ہے۔ معذوری کی صورت میں سوار ہوکر طواف جائز ہوجائے گا۔ فصل جعفر بن محمد نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے جس میں حضور ﷺ کے حج کی کیفیت اور بیت اللہ کے گرد آپ ﷺ کے طواف کا ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ دو رکعتیں پڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا اور پھر صفا کی طرف نکل گئے اور جب بیت اللہ نظر آنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہم بھی وہیں سے ابتدا کریں گے جہاں سے اللہ نے ابتد ( کا حکم دیا) ہے۔ آپ ﷺ نے یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ زیر بحث آیت کے الفاظ ترتیت کے متقضی نہیں ہیں، کیونکہ اتر ترتیب کی بات آیت کے الفاظ سے سمجھ میں آتی تو آپ ﷺ کو یہ فرمانے کی ضرورت نہ ہوتی کہ ” ہم بھی وہیں سے ابتدا کریں گے جہاں سے اللہ نے ابتدا ( کا حکم دیا) ہے۔ “ گویا صفا سے ابتدا حضور ﷺ کے ارشاد کی بنا پر کی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا تم اپنے مناسک مجھ سے لے لو۔ یعنی سیکھ لو۔ چناچہ اہل علم کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ترتیب کے اعتبار سے مسنون طریقہ یہ ہے کہ صفا سے ابتداء کی جائے۔ اگر کوئی شخص مروہ سے ابتدا کرلے تو اس کے اس پھیرے، یعنی شوط کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے اصحاب سے یہی روایت مشہور ہے۔ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ مروہ سے سعی کی ابتدا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اس پھیرے کا اعادہ کرلے، لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر کفارہ عائد نہیں ہوگا۔ اس بات کو امام صاحب نے وضو میں اعضا دھونے میں ترتیب ترک کردینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ قول باری ہے : ومن تطوع خیرا ( اور جو برضا اور رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے) صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے ذکرکے بعد اللہ سبحانہ نے یہ بات فرمائی۔ اس سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو مذکورہ طواف کو تطوع اور نقل قرار دیتے ہیں لیکن مذکورہ طواف ان حضرات کے نزدیک بطور تطوع نہیں ہوتا جو حج اور عمرہ کے اندر اس کے وجوب کے قائل ہیں اور ان حضرات کے نزدیک بھی نہیں جو حج اور عمرہ کے علاوہ کسی اور صورت کے اندر اسے واجب نہیں سمجھتے، اس بنا پر ضروری ہوگیا کہ زیر بحث فقرے کو اس بات کی خبر دینے پر محمول کیا جائے کہ جو شخص حج اور عمرہ کے اندر مذکورہ طواف کرے گا وہ اسے تطوع کے طور پر کرے گا۔ کیونکہ حج اور عمرہ کے سوا اس عمل کے کرنے کا کوئی اور موقعہ نہیں ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث فقرے میں ان حضرات کے قول پر دلالت موجود نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ کہنا درست ہے کہ اس فقرے میں مراد یہ ہو کہ جو شخص نفلی حج اور عمرہ کرے کیونکہ ان دونوں باتوں کا ذکر قول باری فمن حج البیت اواعتمو ( جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرے کرے) میں پہلے گزر چکا ہے۔
Top