Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الصَّفَا : صفا وَالْمَرْوَةَ : اور مروۃ مِنْ : سے شَعَآئِرِ : نشانات اللّٰهِ : اللہ فَمَنْ : پس جو حَجَّ : حج کرے الْبَيْتَ : خانہ کعبہ اَوِ : یا اعْتَمَرَ : عمرہ کرے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں کوئی حرج عَلَيْهِ : اس پر اَنْ : کہ يَّطَّوَّفَ : وہ طواف کرے بِهِمَا : ان دونوں وَمَنْ : اور جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَاكِرٌ : قدر دان عَلِيْمٌ : جاننے والا
بیشک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے
صفا اور مروہ کے درمیان سعی ارشاد باری ہے : ان الصفاء والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او امتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما ( یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ا ن دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرے) ابن عینیہ سے مروی ہے انہوں نے زہری سے اور انہوں نے عروہ سے روایت بیان کی ہے کہ میں نے مذکورہ بالا آیت کی تلاوت حضرت عائشہ ؓ کے سامنے کرکے ان سے کہا کہ اگر میں سعی نہ کروں تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔ یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : بھانجے تم نے بہت بری بات کہی۔ حضور ﷺ نے ان کے درمیان سعی کی ہے اور مسلمانوں نے بھی ان کے درمیان سعی کی ہے۔ اس طرح سعی ایک سنت بن گئی۔ مناۃ بت کے نام لیوا ان کے درمیان سعی نہیں کرتے تھے۔ جب اسلام آگیا تو مسلمانوں نے ان کے درمیان سعی کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوگئی اس پر حضور ﷺ نے ان کے درمیان سعی کی اور اس طرح یہ بات سنت قرار پائی۔ عروہ کہتے ہیں کہ میں نے اس بات کا تذکرہ ابوبکر بن عبدالرحمن ؓ سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ : یہی علم کی بات ہے ۔ بہت سے اہل علم کا قول ہے کہ اس بارے میں صرف ایسے لوگوں نے سوال کیا تھا جو صفا مروہ کے درمیان سعی کیا کرتے تھے میرے خیال میں آیت کا نزول دونوں گروہوں کے بارے میں ہوا ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ صفا پہاڑی پر بہت سے بت نصب تھے اور مسلمان ان بتوں کی وجہ سیس عی نہیں کرتے تھے اس پر اللہ نے آیت نازل فرمائی۔ فلا جناح علیہ ان یطوف بھما۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک اس آیت کے نزول کا سبب ان لوگوں کا سوال تھا جہ مناۃ بت کا نام بلند آواز سے پکارتے تھے اور اس کے پجاری ہونے کی بنا پر صفا اور مروہ کے درمیان چکر نہیں لگاتے تھے۔ جبکہ حضر ت ابن عباس اور ابوبکر بن عبدالرحمن کے قول کے مطابق آیت کا نزول ان لوگوں کے سوال کی وجہ سے ہوا تھا جو ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرتے تھے۔ ان پہاڑوں پر بہت بت نصب تھے جس کی وجہ سے اسلام آنے کے بعد بھی لوگ ان کے درمیان سعی کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ ممکن ہے آیت کے نزول کا سبب ان دونوں گروہوں کا سوال ہو۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور ایوب نے ابن ابن ملیکہ سے اور دونوں حضرت عائشہ ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے کسی شخص کے حج اور عمرہ کو اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جب تک کہ اس نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرلی۔ ابو الطفیل نے حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان سعی سنت ہے اور حضور ﷺ نے اس کی ادائیگی کی ہے۔ عاصم الاحوال نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو ناپسند نہیں کرتے تھے، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوگئی۔ ان کے درمیان سعی نقل ہے۔ عطاء سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن الزبیر ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جو شخص چاہے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرے۔ عطاء اور مجاہد سے منقول ہے کہ جو شخص صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرے اس پر کوئی چیز عائد نہیں ہوگی۔ اس بارے میں فقہائے امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب سفیان ثوری اور امام مالک کا قول ہے کہ حج اور عمرہ کے اندر سعی واجب ہے اور اگر اسے ترک کردیا گیا ہو تو اس کے بدلے دم، یعنی ایک جانور قربانی کردینا کافی ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ سعی ترک کرنے کی صورت میں دم دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ متعلقہ شخص پر واپس آکر سعی کرنا لازم ہوگا۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں ہمارے اصحاب کے نزدیک سعی حج کے توابع میں شمار ہوتی ہے اور جو شخص سعی کیے بغیر اپنے گھر واپس آ جائے اس کے لئے اس سعی کے بدلے دم دے دینا اسی طرح کافی ہوگا جس طرح مزدلفہ میں وقوف یا رمی جماریا طواف صدر ترک کردینے پر کافی ہوجاتا ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حج کے فرائض میں داخل نہیں ہے اس کی دلیل حضور ﷺ کی وہ حدیث ہے جسے شعبی نے حضرت عروہ بن مضرس الطائی ؓ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اللہ کے رسول ! میں قبیلہ طے کے پہاڑ کے پاس سے آیا ہوں، میں نے کوئی بھی پہاڑ اس پر وقوف کیے بغیر نہیں چھوڑا، تو کیا میرا حج ہوگیا ؟ یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا : جس شخص نے ہمارے ساتھ یہ نماز پڑھی، اور اس مقام پر ہمارے ساتھ وقوف کیا جب کہ وہ اس سے پہلے عرفات میں دن یا رات کے وقت وقوف کرچکا ہو تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور اب وہ اپنا میل کچیل دور کرلے۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد دو وجوہ سے حج کے اندر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی فرضیت کی نفی کر رہا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سائل کو بتادیا کہ اس کا حج مکمل ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس میں سعی کا ذکر نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر سعی فرض ہوتی تو آپ ﷺ سائل کو اس کے متعلق ضرور ہدایت دیتے۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ مذکورہ بالا حدیث میں طواف زیارت کا بھی ذکر نہیں ہے حالانکہ یہ حج کے فرائض میں داخل ہے تو ا س کے جواب میں کہا جائے گا ظاہر لفظ اسی بات کا متقضی ہے البتہ ہم نے ایک دلالت کی بنا پر اس کی فرضیت ثابت کی ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ سعی مسنون یعنی واجب نہ ہو بلکہ نفل اور تطوع ہو جیسا کہ حضرت انس ؓ اور حضرت ابن الزبیر ؓ کی روایت سے ظاہر ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر لفظ اسی کا متقضی ہے البتہ ہم نے ایک دلالت کی بنا پر توابع حج کے اندر اس کی مسنونیت کا اثبات کیا ہے۔ سعی کے وجوب پر اس بات سے استدلال کیا ج اتا ہے کہ اللہ کی کتاب میں فرض حج کا بیان مجمل طورپر ہوا ہے اس لئے کہ لغت میں حج کے معنی قصد کے ہیں۔ شاعر کہتا ہے۔ ع یحج ما مومۃ فی قعرھا الجف ( وہ ایسے کنویں کا قصد کرتا ہے جس کی تہہ میں بڑی کشادگی ہے) ۔ یہاں لفظ ” یحج “ کے معنی ” یقصد “ کے ہیں۔ شرع کے اندر لفظ حج کو دوسرے معانی کی طرف منتقل کردیا گیا جن کے لئے لغت کے اعتبار سے یہ لفظ وضع نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک مجمل لفظ تھا جسے بیان کی ضرورت تھی۔ اس بنا پر حضور ﷺ کا اس سلسلے میں جو فعل وارد ہو وہ فی الجملہ اس مجمل لفظ کے مترادف ہوگا اور حضور ﷺ کا جو فعل مورد بیان میں وارد ہوا سے وجوب پر محمول کیا جائے گا۔ اس بنا پر جب حضور ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیا سعی کی تو اسے اس وقت تک وجوب پر دلالت تصور کیا جائے گا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے حضور ﷺ کا ارشاد ہے مجھ سے اپنے مناسک لے لو ! یعنی سیکھ لو، آپ ﷺ کا یہ ارشاد امر کے صیغے میں ہونے کی وجہ سے تمام مناسک کے اندر آپ کی اقتدار کے ایجاء کا متقضی ہے، اس بنا پر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے معاملے میں بھی آپ کی اقتدا واجب ہوگئی۔ طارق بن شہاب نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں حضور ﷺ کے پاس آیا اس وقت آپ ﷺ مقام بطحا میں تھے۔ آپ ﷺ نے پوچھا تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے ؟ میں نے عرض کیا جو احرام اللہ کے رسول نے باندھا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا تم نے اچھا کیا۔ اب بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرو اور پھر احرام کھول دو ۔ اس ارشاد میں آپ ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ ؓ کو سعی کرنے کا حکم دیا اور امرایجاب کا متقضی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی مروی ہے لیکن اس کے تین اور سند دونوں میں اضطراب ہے اور اس کا ایک روای بھی مجہول ہے اسے معمر نے ابن عینیہ کے غلام واصل سے، انہوں نے موسیٰ بن ابی عبید سے، انہوں نے صیغہ بنت ابی شیبہ سے اور انہوں نے ایک عورت سے بیان کیا ہے جس نے حضور ﷺ کو صفا اور مروہ کے درمیان یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تم پر سعی فرض کی گئی ہے اس لئے سعی کرو لیکن اس خاتون کا نام بیان نہیں ہوا۔ محمد بن عبدالرحمن بن محصین نے عطا بن ابی رباح سے روایت بیان کی ہے کہ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے حبیبہ بنت ابی تحررۃ نامی ایک خاتون سے روایت بیان کی کہ میں ابو حسین کے گھر گئی میرے ساتھ قریش کی کچھ خواتین بھی تھیں۔ اس وقت حضور ﷺ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اور آپ کی چادر بھی آپ ؐ کے ساتھ گھوم رہی تھی۔ آپ فرما رہے تھے لوگو ! سعی کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کردی ہے ۔ اس روایت میں ذکر ہوا ہے کہ آپ نے یہ بات طواف کے دوران فرمائی۔ اس حدیث کا ظاہر اس بات کا متقضی ہے کہ آپ کی مراد طواف کے اندر سعی سے تھی، یعنی رمل، نیز نفس طواف کیونکہ قدموں پر چلنا، یعنی مشی کو بھی سعی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے فاسعو ا الی ذکر اللہ ( اللہ کی یاد طرف چل پڑو) یہاں چلنے میں اسرا ع مراد نہیں ہے، بلکہ اللہ کی یاد کے لئے پہنچنا مراد ہے۔ پہلی حدیث جس میں بیان ہوا ہے کہ حضور ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے مذکورہ بات ارشاد فرمائی تھی، اس میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی مراد لی ہے کیونکہ یہ کہنا درست ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے اس ارشاد سے بیت اللہ کا طواف اور طواف کے اندر رمل مراد لیے ہوں۔ طواف کے اندر رمل بھی سعی ہے، اس لئے کہ رمل میں تیز تیز قدموں سے چلنا ہوتا ہے۔ نیز حدیث کا ظاہر کسی بھی سعی کے جواز کا متقضی ہے یعنی طواف کرنے والا جب رمل کرلے تو گویا اس نے سعی کرلی۔ اس میں وجوب تکرار پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ ہماری مذکورہ پہلی روایتیں سعی کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ سعی سنت ہے اور اسے چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ ان روایتوں کے اندر اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ جو شخص یہ سنت چھوڑ دے اس کی طرف سے دم دینا اس سنت کے قائم مقام نہیں ہوگا۔ اگر ایک شخص سعی کیے بغیر اپنے گھر واپس آ جائے تو اس کی طرف سے ایک جانور کی قربانی متروکہ سعی کی قائم مقام بن جائے گی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ پورا احرام کھول دینے کے بعدسعی کرنے کے جواز پر سلف کا اتفاق ہے جس طرح رمی اور طواف صدر جائز ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ دم دینا جس طرح رمی اور طواف صدر کے قائم مقام بن جاتا ہے اسی طرح سعی کے قائم مقام بھی بن جاتا ہے۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ احرام کھولنے کے بعد طواف زیارت کیا جاتا ہے لیکن دم دینا اس کے قائم مقام نہیں ہوتا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا اس طرح نہیں ہے، کیونکہ طواف زیارت کا باقی رہ جانا اس امر کا موجب ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص کے لئے اپنی بیوی سے ہمبستری حرام ہوتی ہے اور جب طواف زیارت کرلیتا ہے تو اس کے لئے ہر بات حلال ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ دوسری طرف اگر سعی باقی رہ جائے تو احرام کھولنے کا کچھ عرصہ باقی رہ جانے کے دوران میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا جس طرح رمی اور طواف صدر کی کیفیت ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ محرم اگر طواف زیارت کرلے تو جب تک وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرے گا اسوقت تک اپنی بیوی سے ہم بستری اس کے لئے حلال نہیں ہوگی تو اس کا جواب یہ ہے کہ تابعین کے صدر اول اور ان کے بعد آنے والے سلف کا اس امر پر اتفاق ہے کہ طواف زیارت کرنے کے بعد محرم کے لیے اس کی بیویاں حلال ہوجاتی ہیں کیونکہ حلق کے بعد محرم کے بارے میں ان حضرات کے تین اقوال ہیں کچھ حضرات کا قول ہے کہ جب تک وہ طواف زیارت نہ کرلے اس وقت تک اس کے لئے سلے ہوئے کپڑے، شکار اور خوشبو حرام ہوتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ اس کے لئے عورتیں اور خوشبو حرام ہوتی ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ وغیرہ دیگر حضرات کا قول ہے کہ وہ جب تک طواف زیارت نہ کرلے اس وقت تک عورتیں حرام ہوتی۔ اس طرح گویا سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ طواف زیارت کرنے کے بعد اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کیے بغیر اس کے لئے عورتیں حلال ہوجاتی ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جس شخص پر طواف نہیں اس پر سعی بھی نہیں۔ نیز یہ کہ وہ تطوع کے طورپر سعی نہیں کرے گا جس طرح تطوع کے طورپر رمی نہیں کرے گا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ سعی حج اور عمرہ کے توابع میں سے ہے۔ اگر کہاجائے کہ وقوف عرفہ احرام کے بعد اور طواف زیارت وقوف کے بعد کیا جاتا ہے اور یہ دونوں باتیں حج کے فرائض میں شامل ہیں ؟ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے یہ تو نہیں کہا کہ ایک فعل جو ایک اور فعل کے بعد کیا جائے وہ اس کا تابع ہوتا ہے۔ ہم نے تو صرف یہ کہا ہے کہ جو فعل حج یا عمرہ کے افعال کے بالتبع کیا جائے وہ تابع ہوتا ہے، فرض نہیں ہوتا۔ اس بناپر جہاں تک وقوف عرفہ کا تعلق ہے، تو وہ کسی اور فعل کے بالتبع نہیں کیا جاتا بلکہ علی الانفراد کیا جاتا ہے، البتہ اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ ایک شرط احرام اور دوسری شرط وقت ہے اور جس فعل کے لئے احرام یا وقت شرط ہو اس میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہوتی جس سے معلوم ہوا کہ اس کی ادائیگی بالتبع کی جاتی ہے۔ اسی طرح جس فعل کا جو از کسی وقت کے ساتھ متعلق ہو اس میں بھی یہ دلالت نہیں ہوتی کہ وہ کسی اور فرض کے تابع ہے۔ طواف زیارت کے جواز کا تعلق وقت اور وقوف عرفہ کے ساتھ ہے اور اس کی صحت احرام کے سوا کسی اور فعل پر موقوف نہیں ہے۔ اس لئے یہ اس کے سوا کسی اور فعل کے تابع نہیں ہے۔ دوسری طرف صفا اور مروہ کے درمیان سعی وقت کے ساتھ ایک اور فعل، یعنی طواف پر موقوف ہے اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہ حج اور عمرہ کے توابع میں سے ہے۔ فرض نہیں ہے اس لئے یہ طواف صدر کے مشابہ ہوگئی۔ جب اس کی صحت طواف زیارت پر موقوف ہے تو یہ حج کے اندر ایک تابع ہوگی اور اس کے ترک پر دم دینا اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔ قول باری ہے۔ ان الصفاء والمروۃ من شعائر اللہ یہ اس امرپر دلالت کرتا ہے کہ یہ قربت ہے کیونکہ شعائر طاعات اور تقرب الٰہی کے نشانات ہوتے ہیں۔ یہ لفظ اشعار سے ماخوذ ہے جس کے معنی اعلام کے ہیں۔ اسی سے یہ قول ہے : شعرت یکذاکذا یعنی مجھے فلاں فلاں باتوں کا علم ہوا۔ اسی سے ” اشعار بدتہ “ یعنی قربانی کے جانور پر ایسے نشانات بنادینا جن سے معلوم ہو کہ یہ جانور قربانی کے لئے ہے ” شعار الحرب “ ان علامات کو کہاجاتا ہے جن کے ذریعے جنگ میں حصہ لینے والے فوجی ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ اس لئے شعائر تقرب الٰہی کی یادگاریں ہیں۔ ارشاد باری ہے : ذلک ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب ( یہ بات ہوچکی اور جو کوئی خدا کی یادگاروں کا ادب کرے گا سو یہ ادب دلوں کی پرہیز گاری میں سے ہے) حج کے شعائر اس عبادت کے معالم اور نشانات ہیں۔ اور مشعر حرام، یعنی مزدلفہ بھی ان میں سے ہے۔ اس طرح زیر بحث آیت اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی تقرب الٰہی ہے۔ قول باری : فلا جناح علیہ ان یطوف بھما کی تفسیر میں حضرت عائشہ ؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓ نے بتایا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے سوال کے جواب میں ہے جنہوں نے صفا اور مروہ کے بارے میں پوچھا تھا ، نیز یہ کہ آیت کے ظاہری الفاظ و جواب مراد لینے کی نفی نہیں کرتے۔ اگرچہ یہ الفاظ و جوب پر دلالت بھی نہیں کرتے، تاہم آیت کے سوا اس کے وجوب پر دلالت کرنے والی اور بات بھی موجود ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں۔ بطن وادی کے اندر سعی کرنے یعنی تیز رفتاری سے چلنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے اس بارے میں حضور ﷺ سے مختلف روایتیں منقول ہیں ۔ ہمارے اصحاب کا مسلک ہے کہ بطن وادی میں سعی، یعنی تیز قدموں سے چلنا مسنون ہے جس طرح طواف کے اندر مل مسنون ہے اسے ترک نہیں کرنا چاہیے جعفر بن محمد نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان جب حضور ﷺ کے قدم مبارک اتر گئے تو آپ نے سعی کی یعنی آپ کی رفتار تیز ہوگئی حتیٰ کہ آپ وادی پار کرگئے۔ سفیان بن عینیہ نے صدقہ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے سوال کیا آپ کے خیال میں حضور ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان رمل کیا تھا ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا : آپ ﷺ لوگوں کے درمیان تھے، لوگوں نے رمل کیا تھا اور میرے خیال میں انہوں نے آپ ﷺ کو رمل کرتے دیکھ کر ایسا کیا تھا۔ نافع کا قول ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ بطن وادی میں سعی کرتے تھے۔ مسروق نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بطن وادی میں سعی کی تھی۔ عطا نے حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا یہ قول نقل ہے کہ جوش خص چاہے مکہ کے سیل ( پانی کی گزرگاہ) میں سعی کرلے اور جو چاہے سعی نہ کرے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی اس سے مراد بطن وادی میں رمل تھا۔ سعید بن جبیر نے روایت بیان کی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو صفا اور مروہ کے درمیان چلتے ہوئے دیکھا تھا، آپ کہتے کہ اگر میں قدموں پر چلوں تو میں نے حضور ﷺ کو قدموں پر چلتے دیکھا تھا اور اگر میں سعی کروں تو میں نے آپ کو سعی کرتے دیکھا تھا۔ عمرو نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان صرف اس لئے سعی کی تھی کہ مشرکین کے سامنے یہ مظاہرہ ہوسکے کہ آپ ﷺ کمزور نہیں ہوئے ہیں بلکہ آپ ﷺ کی جسمانی قوت بحال ہے۔ عمرو کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ حضور ﷺ نے بطن وادی میں سعی کی تھی۔ یہاں سعی کی اس سبب کا ذکر جس کی خاطر حضور ﷺ نے یہ فعل کیا تھا یعنی مشرکین کے لئے جسمانی قوت کا اظہار، نیز اس سبب کے ساتھ آپ ﷺ کے فعل کا تعلق سبب زائل ہونے پر سنت کے طورپر اس کے باقی رہنے میں مانع نہیں ہے جیسا کہ طواف کے اندر رمل کے بارے میں ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ ہم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ رمی جمار کا سبب یہ تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ابلیس کو اس وقت کنکریاں ماری تھیں جب وہ منیٰ کے اندر آپ کے سامنے ظاہر ہوا تھا، تاکہ آپ کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی سے روکے اور آپ کے دل میں وسوسے پیدا کرے۔ اس کے بعد رمی جمار سنت بن گئی۔ اسی طرح وادی کے اندر رمل کا سبب یہ تھا کہ حضرت ہاجرہ نے جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے لئے پانی تلاش کیا تو صفا اور مروہ کے درمیان آتی جاتی رہیں جب آپ وادی میں اتر آتیں تو بچہ آپ کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا اور پھر آپ تیز تیز قدموں سے چل کر جاتیں۔ ابو الطفیل نے حضر ت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب مناسک کی تعلیم دی گئی تو مسعی کے پاس شیطان آپ کے سامنے آیا، آپ شیطان سے آگے نکل گئے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اس مقام پر تیز رفتاری سے کام لیا تھا۔ یہ عمل اپنے نظائر کی طرف جن کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں سنت ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے دوران بطن وادی میں رمل کرنے کے عمل کو امت نے قولاًوفعلاً اختیار کیا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضور ﷺ نے یہ عمل کیا ہے۔ صرف اس بارے میں اختلاف رائے ہے کہ آیا آپ ﷺ کے بعد یہ مسنون ہے یا نہیں۔ فعلی طورپر اس درجے تک اس عمل کی نقل دراصل اس کے حکم کے باقی رہنے پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں اس دلالت کا ذکر کر آئے ہیں واللہ اعلم بالصواب۔ راکب کے طواف کا بیان ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان سوار ہوکر طواف کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب نے بلا عذر ایسا کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ابو الطفیل نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا : آپ کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سواری پر سوار ہوکر صفا اور مروہ کے درمیان طواف سنت ہے اور یہ کہ حضور ﷺ نے بھی ایسا ہی کیا تھا ؟ یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : انہوں نے سچ کہا ہے اور جھوٹ بھی، حضور ﷺ نے اس لئے ایسا کیا تھا کہ آپ ﷺ کے پاس سے کسی کو ہٹانے کی ضرورت پیش نہ آئے ورنہ سواری پر طواف کرنا سنت نہیں ہے۔ عروہ بن الزبیز بن ابی سلمہ اور انہوں نے حضرت ام سلمی ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے اپنی طبیعت کی خرابی کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرلو۔ عروہ جب لوگوں کو جانوروں پر سوار ہوکر طواف کرتے دیکھتے تو انہیں روکتے ، لوگ ان سے بیماری کا ذکر کرتے تو وہ سن کر کہتے یہ لوگ نامراد و ناکام ہوگئے۔ ابن ابی ملیکہ نے حضرت عائشہ ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے ۔ مجھے حج اور عمرہ سے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نے روک دیا ہے اور میں سواری کرنا ناپسند کرتی ہوں۔ یزید بن ابی زیاد سے روایت ہے انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سنا کر حضور ﷺ آئے اور اس وقت آپ ﷺ کی طبیعت خراب تھی، چناچہ آپ ﷺ نے ایک اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ٹیڑھے سر والا ایک ڈنڈا تھا آپ ﷺ حجر اسود کے پاس سے گزرتے تو اس کا استلام کرتے۔ جب آپ ﷺ طواف سے فارغ ہوگئے تو اونٹ کو بٹھایا اور اتر کر دو رکعتیں پڑھیں۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے اندر بطن وادی میں سعی کرنا سنت ہے۔ اگر کوئی شخص سوار ہوکر یہ طواف کرے گا تو وہ سعی کا تارک قرار پائے گا اور اس کی یہ بات خلاف سنت ہوگی۔ الا یہ کہ معذور ہو، جیسا کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے منقول ہے۔ معذوری کی صورت میں سوار ہوکر طواف جائز ہوجائے گا۔ فصل جعفر بن محمد نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے جس میں حضور ﷺ کے حج کی کیفیت اور بیت اللہ کے گرد آپ ﷺ کے طواف کا ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ دو رکعتیں پڑھنے کے بعد آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا اور پھر صفا کی طرف نکل گئے اور جب بیت اللہ نظر آنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہم بھی وہیں سے ابتدا کریں گے جہاں سے اللہ نے ابتد ( کا حکم دیا) ہے۔ آپ ﷺ نے یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ زیر بحث آیت کے الفاظ ترتیت کے متقضی نہیں ہیں، کیونکہ اتر ترتیب کی بات آیت کے الفاظ سے سمجھ میں آتی تو آپ ﷺ کو یہ فرمانے کی ضرورت نہ ہوتی کہ ” ہم بھی وہیں سے ابتدا کریں گے جہاں سے اللہ نے ابتدا ( کا حکم دیا) ہے۔ “ گویا صفا سے ابتدا حضور ﷺ کے ارشاد کی بنا پر کی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا تم اپنے مناسک مجھ سے لے لو۔ یعنی سیکھ لو۔ چناچہ اہل علم کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ترتیب کے اعتبار سے مسنون طریقہ یہ ہے کہ صفا سے ابتداء کی جائے۔ اگر کوئی شخص مروہ سے ابتدا کرلے تو اس کے اس پھیرے، یعنی شوط کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے اصحاب سے یہی روایت مشہور ہے۔ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ مروہ سے سعی کی ابتدا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اس پھیرے کا اعادہ کرلے، لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر کفارہ عائد نہیں ہوگا۔ اس بات کو امام صاحب نے وضو میں اعضا دھونے میں ترتیب ترک کردینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ قول باری ہے : ومن تطوع خیرا ( اور جو برضا اور رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے) صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے ذکرکے بعد اللہ سبحانہ نے یہ بات فرمائی۔ اس سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو مذکورہ طواف کو تطوع اور نقل قرار دیتے ہیں لیکن مذکورہ طواف ان حضرات کے نزدیک بطور تطوع نہیں ہوتا جو حج اور عمرہ کے اندر اس کے وجوب کے قائل ہیں اور ان حضرات کے نزدیک بھی نہیں جو حج اور عمرہ کے علاوہ کسی اور صورت کے اندر اسے واجب نہیں سمجھتے، اس بنا پر ضروری ہوگیا کہ زیر بحث فقرے کو اس بات کی خبر دینے پر محمول کیا جائے کہ جو شخص حج اور عمرہ کے اندر مذکورہ طواف کرے گا وہ اسے تطوع کے طور پر کرے گا۔ کیونکہ حج اور عمرہ کے سوا اس عمل کے کرنے کا کوئی اور موقعہ نہیں ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث فقرے میں ان حضرات کے قول پر دلالت موجود نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ کہنا درست ہے کہ اس فقرے میں مراد یہ ہو کہ جو شخص نفلی حج اور عمرہ کرے کیونکہ ان دونوں باتوں کا ذکر قول باری فمن حج البیت اواعتمو ( جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرے کرے) میں پہلے گزر چکا ہے۔
Top