Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے مسلمانو ! صبر اور نماز کی قوتوں سے سہارا پکڑو ، یقین کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اللہ کا شکر ادا کرنے کے اہم ذرائع میں سے نماز اور صبر ہیں : 276: غم واندوہ کے ہلکا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ صبر اور نماز ہے ۔ امت مسلمہ کو بتایا جا رجا ہے کہ ہر مقصد کے حصول میں تکلیفوں اور مصیبتوں کا پیش آنا لازمی ہے تمام دنیا سے شرک و بت پرستی کو دور کرنا اس کے گوشہ گوشہ اور کونہ کونہ میں توحید کی نشرو اشاعت اور اقوام عالم پر برتری کا حصول بےانتہاء قربانیوں کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لئے اپنے مقصد حیات پر مرنے کے لئے تیار رہنا اور مصایب وموانع کی بنا پر اپنے نصب العین کو نہ چھوڑنا صبر ہے ۔ سورة آل عمران کے آخر میں خلافت ارضی کی شرط اسی صبر کو قرار دیا۔ ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا 1۫ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (رح) 00200 (آل عمران 3 : 200) ” مسلمانو اگر کامیابی حاصل کرنا چاہئے ہو تو ساری باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ صبر کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی ترغیب دو ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاؤ اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو۔ “ ایک جگہ صبر کو اعلیٰ ترین اخلاقی قوتوں میں شمار کیا ارشاد فرمایا : وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ 00186 (آل عمران 3 : 186) ” اور اگر تم نے صبر کیا یعنی مصیبتوں میں ثابت قدم رہے اور تقویٰ کا شیوہ اختیار کیا یعنی احکام حق کی نافرمانی سے بچے رہے تو بلاشبہ کاموں کی راہ میں بڑے ہی عزم و ہمت کی بات ہوگی۔ “ ایک جگہ صبر کو اولو العزم پیغمبروں کے کاموں میں شامل فرمایا : چناچہ ارشاد ہوا : فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف 46 : 35) ” پس اے پیغمبر اسلام ! جس طرح دوسرے اولو العزم پیغمبروں نے صبر کیا آپ بھی صبر کرتے رہئے۔ “ قرآن کریم ہر صابر مسلمان سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ دس کافروں پر بھاری ہوا : اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ 1ۚ(الانفال 8 : 65) ” اے مسلمانو ! اگر تم بیس آدمی بھی مشکلوں کو جھیل جانے والے نکل آئے تو یقین کرو دو سو دشمنوں پر غالب ہو کر رہو گے۔ “ پھر جنگ میں کامیابی کے مختلف اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ0046 (الانفال 8 : 46) ” اور اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ایسا کرو گے تو تمہاری طاقت سست پڑجائے گی اور جیسی کچھ بھی مشکلیں مصیبتیں پیش آئیں تم صبر کرو اللہ ان کا ساتھی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔ “ لڑائی کے موقع پر اسی صبر و استقامت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ فرمایا : رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ00250 (البقرہ 2 : 25) ” اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کے جام انڈیل دے کر عزم و ثبات سے سیراب ہوجائیں اور ہمارے قدم میدان جنگ میں جما دے کہ کسی حال میں بھی پیچھے نہ ہٹیں اور پھر اپنے فضل و کرم سے ایسا کر کہ منکرین حق کے گروہ پر متحد ہوجائیں۔ “ اسی صبر پر پیشوائی عالم نوازش کی گئی : وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا 1ؕ۫ وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ 0024 (السجدہ 32 : 24) ” اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ایسے پیشوا پیدا کئے جو ہمارے حکم سے راہنمائی کرتے تھے جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پر یقین کئے رہے۔ “ اسی صبر کی خاطر بنی اسرائیل ہر قسم کی خیر و برکت کے نزول کا باعث بنے رہے فرمایا : وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ 1ۙ۬ بِمَا صَبَرُوْا 1ؕ (الاعراف 7 : 137) ” اے پیغمبر اسلام ! تیرے رب کا فرمان پسندیدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا کہ وہ ہمت و ثبات کے ساتھ جمے رہے تھے۔ “ اسی صبر کی وجہ سے بہترین جزاء صابرین ہی کو ملے گی فرمایا : وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ 0096 (النحل 16 : 96) ” جن لوگوں نے صبر کیا اور زندگی کی عارضی مشکلیں جھیل گئے ہم ضرور انہیں ان کا اجر عطا فرمائیں گے انہوں نے جیسے جیسے کام کئے ہیں اسی کے مطابق ہمارا اجر بھی ہوگا۔ “ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے ہرچیز عطا کی جائے گی فرمایا : اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ 0010 (الزمر 39 : 10) ” صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بےحساب دیا جائے گا۔ “ اسی صبر و استقامت پر اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتوں کی اعانت ومدد کرنے کا وعدہ دیا چناچہ فرمایا کہ : اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ یَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ ہٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ (آل عمران 3 : 125) ” اگر تم صبر کرو اور تقوی کی راہ اختیار کرو اور پھر ایسا ہو کہ دشمن بھی یکدم تم پر چڑھ آئے تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ “ اس آیت نے تو صبر کے معنی بالکل ہی واضح کردیئے فرمایا : وَ کَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ 1ۙ مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ 1ۚ فَمَا وَ ہَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْا 1ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ 00146 (آل عمران 3 : 146) ” اور دیکھو کتنے ہی نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان سختیوں کی وجہ سے جو انہیں اللہ کی راہ میں پیش آئیں بےہمت ہوگئے ہوں اور نہ ایسا ہوا کہ وہ کمزور پڑے ہوں یا کبھی انہوں نے عجز و بےچارگی کا اظہار کیا ہو اور اللہ ان ہی لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو مشکلوں مصیبتوں میں ثابت قدم رہتے ہوں۔ “ دوسرا جز اس نسخہ کا نماز ہے جو تمام انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور تمام پر یشانیوں اور آفتوں سے نجات دلانے میں اکسیر اعظم ہے صبر کی جو تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے اس سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ درحقیقت نماز اور تمام عبادات صبر ہی کے جزئیات ہیں مگر نماز کو جداگانہ بیان اسلئے کردیا کہ تمام عبادات میں سے نماز ایک ایسی عبادت ہے جو صبر کا مکمل نمونہ ہے۔ نماز کو انسان کی تمام حاجات کے پورا کرنے اور تمام آفتوں ، مصیبتوں سے نجات دلانے میں ایک خاص تاثیر بھی ہے گو اس کی وجہ اور سبب معلوم نہ ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نماز کو نماز کی طرح آداب اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہماری جو نمازیں غیر مؤثر نظر آتی ہیں اسکا سبب ہمارا قصور ہے کہ نماز کے آداب اور خشوع و خضوع میں کوتاہی ہوتی ہے اور خصوصاً نماز کے مفہوم تک کو ہم نہیں سمجھ پائے۔ پھر نماز میں اصلی چیز اور مغز دعا ہے بلکہ نماز دعا ہی دعا ہے۔ دعا کیا ہے ؟ دعا اصل میں اللہ تعالیٰ سے اعانت کا طلبگار رہنا ہے دیکھو آدم (علیہ السلام) مدتوں پر یشان ہوتے رہے تاآنکہ انہوں نے دعا کی اور مصیبت سے نجات مل گئی حکم الٰہی بھی یہی ہے کہ : ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْمجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ مؤمنین کے خصائص بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ 1ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا کَانَ غَرَامًاۗۖ0065 (الفرقان 25 : 65) ” اور وہ لوگ جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم سے جہنم کے عذاب کو دور کر دے اس کا عذاب تو ہمیشہ کی تباہی ہے۔ زکریا (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اِنَّهُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا 1ؕ وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ 0090 (الانبیاء 21 : 90) ” یہ تمام لوگ نیکی کی راہوں میں سرگرم عمل تھے ہمارے فضل سے امید لگائے ہوئے ڈرتے ہوئے دعائیں مانگتے تھے اور ہمارے آگے عجز و نیاز سے جھکے ہوئے تھے۔ “ گناہوں کی مغفرت صرف دعا کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْالِذُنُوْبِهِمْ 1۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ 1۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ 00135 (آل عمران 3 : 135) اور وہ لوگ کہ جب کبھی ان سے کوئی سخت برائی کی بات ہوجاتی ہے یا اپنی جانوں کو آلودہ معصیت ہو کر مصیبت میں ڈال دیتے ہیں تو فوراً اللہ کی یاد ان میں جاگ اٹھتی ہے یعنی اپنے ضمیر کی ملامت محسوس کرنے لگتے ہیں پس وہ اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور جو کچھ ہوچکا ہے اس پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کا بخشنے والا ہے ؟ “ قرآن کریم میں نماز و دعا کا ذکر بہت ہے ، جن آیات میں اس کا ذکر کیا گیا ہے ان سب کا نقل کرنا بہت دشوار ہے ، مشتے از خروارے ، ذکر کیا گیا ہے اور احادیث میں بھی اس کی بڑی تفصیل آئی ہے ایک دو حوالے درج کیے جاتے ہیں تاکہ اس روشنی کا بھی ذکر آجائے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں نعمان بن بشیر سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الدعا ھو العبادۃ ، کہ دعا ہی اصل عبادت ہے ایک روایت ہے کہ : الدعا مخ العبادۃ ، کہ دعا عبادت کا مغز ہے ۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ : لیس شیٔ اکرم علی اللہ من الدعاء ، دعا سے بڑھ کر اللہ کے نزدیک اور کوئی چیز بزرگ و برتر نہیں ہے ۔ بیہقی نے دعوات کبیر میں روایت کیا ہے کہ : ان ربکم حی کریم یستحی من عبدہ اذا رفع یدیہ الیہ ان یردھما صفرًا ، تمہارا پروردگار باحیا ہے جب ایک بندہ اس کے حضور میں ہاتھ پھیلاتا ہے تو خالی واپس کرتے ہوئے اسے شرم آتی ہے۔
Top