Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
(153 ۔ 154) ۔ صحیح مسلم میں صہیب رومی سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مسلمان آدمی کو ہر طرح بھلائی پہنچ سکتی ہے اگر وہ نعمت کے وقت شکر اور مصیبت کے وقت صبر کرے 3۔ پہلی آیت میں شکر نعمت کا ارشاد تھا اور اس آیت میں وصیبت کے وقت صبر کا ارشاد ہے اس لئے کہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں یا وہ صاحب نعمت ہوگا یا صاحب مصیبت ان دونوں حالتوں کے باہمی تعلق کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے صبر کا ذکر شکر نعمت کے بعد فرمایا تاکہ یہ آیت پہلی آیت کا ایک جز قرار پا کر شکر اور صبر کا حکم ایک جگہ ہوجاوے۔ مسند امام احمد (رح) ابو داؤد وغیرہ میں جو معتبر سند سے روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کو کوئی رنج و غم کا موقع پیش آتا تھا تو آپ اس رنج و غم کو ٹالنے کے لئے نماز پڑھنے میں مصروف ہوجاتے تھے 4۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح صبر کرنے سے مصیبت ہلکی ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نماز میں ایک اثر مصیبت کے ہلکا کردینے کا رکھا ہے اور اسی مناسبت کے سبب سے اپنے کلام پاک میں نماز کو صبر کے ساتھ ذکر فرمایا ہے مصیبت کے وقت صبر کرنے کی فضیلت میں اور صبر کے اجر میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔ مصیبت کے وقت صبر کے علاوہ مامور شرعی کے ادا کرنے اور ممنوع شرعی سے بچنے میں بھی خواہش انسانی کو روکنا اور صبر کرنا پڑتا ہے اس لئے صبر ہر عبادت کا گویا ایک جز ہے۔ جہاد میں طرح طرح کی تکلیفات پر آخری درجہ جان دینے کی تکلیف پر صبر درکار ہوتا ہے شہید لوگ اس صبر کے متحمل ہوئے اور خدا کی راہ میں اپنی جان دی اسی تعلق اور مناسبت کے لحاظ سے صبر کی آیت میں شہیدوں کا ذکر فرمایا تاکہ اور لوگ بھی اس قدر صبر کا تحمل اختیار کریں کہ خدا کی راہ میں درجہ شہادت کا حاصل کر کے شہیدوں کے مرتبہ کو پونچیں صحیح بخاری مسلم ترمذی وغیرہ میں حضرت انس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد کوئی جنت کی نعمتوں کو چھوڑ کر جنت سے نکلنا اور پھر دنیا میں آنا پسند نہ کرے گا۔ مگر شہیدلوگوں کی یہ تمنا ہوگی کہ اگر وہ دس دفعہ دنیا میں آ کر خدا کی راہ میں شہید ہوں تو بھی ان کی آرزو پوری نہ ہوگی 1۔ شہادت کے سبب سے بڑے بڑے درجہ با رگاہ الٰہی سے جو شہیدوں کو ملیں گے ان کے بڑھانے کی حرص میں شہیدوں کو دوبارہ دنیا میں آنے اور پھر شہید ہونے کی تمنا ہوگی صحیح مسلم ترمذی وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اب قیامت سے پہلے ہر ایک شہید کی روح ایک خوبصورت سبز جانور کے پوٹے میں ہے وہ سبز جانور جنت میں سارا دن جہاں چاہتے ہیں طرح طرح کے جنت کے میوے کھاتے پھرتے ہیں اور شام کو عرش کے نیچے ایک قسم کی قندیلیں لٹک رہی ہیں ان میں بسیرا لیتے ہیں 2۔ چودہ صحابہ بدر کی لڑائی میں جو شہید ہوگئے تھے موافق لوگ اس کا افسوس کرتے تھے اور مخالف لوگ کہتے تھے کہ ان مرنے والوں نے مفت اپنی جانیں کھوئیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں اور فرمادیا کہ مرنا تو ایک نہ ایک دن سب کو ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کا دینا ہمیشہ کی زندگی کا حاصل کرنا ہے۔ چناچہ شہداء عند اللہ اب بھی زندہ ہیں اچھی غذا پاتے ہیں۔ لیکن تم لوگوں کو ان کی زندگی کا حال معلوم نہیں کیونکہ وہ تم سے جداہو گئے ہیں اور علاوہ حال کے زندگی کے جنت میں بھی پھر اپنے اصلی جسم سے داخل ہو کر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
Top