Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 30
اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تیرا رب يَبْسُطُ : فراخ کردیتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کا وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ : اور تنگ کردیتا ہے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں سے خَبِيْرًۢا : خبر رکھنے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
تمہارا پروردگار جس کسی کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے نپی تلی ، وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہے
رزق کی فراخی اور اس کانپا تلا ہونا دونوں حالتوں سے اللہ واقف ہے : 40۔ رزق کی فراخی کی تقسیم کا مسئلہ بھی بہت عجیب ہے تم دیکھتے ہو کہ کہیں دولت کی فراوانی ہے اور کہیں فقر و افلاس نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں یہ قبض وبسط اللہ تعالیٰ کی حکمت کی جلوہ گری ہے ، رزق کی کشادگی وتنگی جو کچھ بھی ہوتی ہے اسی کی مشیت کی بنا پر ہوتی ہے اور اس کی اسی مشیت میں اس کی کچھ دوسری ہی مصلحتیں کار فرما ہیں کسی کو زیادہ رزق کے معنی لازما یہی نہیں ہیں کہ اللہ اس سے بہت خوش ہے اور اسے انعام دے رہا ہے ، بسا اوقات ایک شخص اللہ تعالیٰ کا نہایت مغضوب ہوتا ہے مگر وہ اسے بڑی دولت عطا کرتا ہے اور پھر عطا کرتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخرت یہی دولت اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب لے آتی ہے اس کے برعکس اگر کسی کا رزق تنگ ہے تو اس کے معنی لازما یہی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے اور اسے سزا دے رہا ہے اکثر نیک لوگوں پر تنگی اس کے باوجود رہتی ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں بلکہ بارہا یہی تنگی ان کے لئے اللہ کی رحمت ہوتی ہے اس حقیقت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ان لوگوں کی خوشحالی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو دراصل اللہ کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے نفع وضرر کو خوب جانتا ہے اس لئے حرام ذرائع سے روپیہ کما کر امیر بننے کی کوشش نہ کرو مبادا یہ ثروت تمہیں دین و دنیا میں رسوا کر دے ، رزق کمانے کے حلال اور جائز ذرائع کو بیشک عقلمندی اور سلیقہ شعاری سے استعمال کرو اگر تمہاری سنجیدہ کوشش کے باوجود تمہاری مالی پریشانی دور نہ ہو تو بہرحال صبر کرو اور پھر صبر کا دامن مضبوطی سے تھام لو اور رحمت خداوندی پر توکل کرو اور جائز اور صحیح محنت میں ذرا برابر بھی سستی نہ کرو اور یقین رکھو کہ وہ اپنے بندوں کے نفع ومصلحت کو خوب جانتا ہے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ، انسان کو پوری دیانت داری کے ساتھ جس جائز کام میں لگا ہے محنت کرتے جانا چاہئے لیکن کبھی رزق اس کام میں نہیں سمجھنا چاہئے جس کو وہ دیانت وامانت سے کر رہا ہے بلکہ رزق کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس سمجھتے رہنا چاہئے اور رزق حلال کی طلب اللہ تعالیٰ سے کرتے رہنا چاہئے اور پھر جو کچھ ملے اس کو اللہ کی رضا کے مطابق صرف کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور کچھ نہ کچھ حصہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ کرتے رہنا چاہئے ۔ قرآن کریم میں قارون کا ذکر آپ پڑھ چکے اور تفصیل اس کی سورة القصص میں آئے گی چناچہ ارشاد الہی ہے کہ ” یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا ایک آدمی تھا پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گای اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے کہ ان کی کنجیاں طاقتور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی ، ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا کہ پھول نہ جا اللہ تعالیٰ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر ‘ احسان کر جس طرح اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر ‘ اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا تو اس نے اس نے کہا یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے ۔ کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے ؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے ، ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پورے ٹھاٹھ باٹھ سے نکلا ‘ جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے ، کاش کہ ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے یہ تو بڑے نصیبے والا ہے ، مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے افسوس تمہارے مال پر اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لئے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو ۔ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا (تباہ وبرباد کردیا) پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کرسکا ‘ اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے افسوس ! ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کردیتا ہے اور جسے چاہے نپا تلا دیتا ہے ، اگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا (تباہ وبرباد کردیتا) افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے ۔ ‘ ؓ اس مضمون کو ہم نے عروۃ الوثقی “ جلد چہارم سورة الرعد کی آیت 26 میں بیان کردیا ہے وہاں ملاحظہ کریں اور اس کے بعد سورة العنکبوت کی آیت 62 ‘ سورة الروم کی آیت 37 ‘ سورة سبا کی آیت 36 تا 39 ‘ سورة الزمر کی آیت 52 اور سورة الشوری کی آیت 12 میں بھی ملے گا ۔
Top