Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 30
اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تیرا رب يَبْسُطُ : فراخ کردیتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کا وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ : اور تنگ کردیتا ہے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں سے خَبِيْرًۢا : خبر رکھنے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
تیرا رب کھول دیتا ہے روزی جس کے واسطے چاہے اور تنگ بھی وہی کرتا ہے وہی ہے اپنے بندوں کو جاننے والا دیکھنے والا۔
اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرنا کہ خود پریشانی میں پڑجائے اس کا درجہ
اس آیت سے بظاہر اس طرح خرچ کرنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے جس کے بعد خود فقیر و محتاج ہوجائے اور پریشانی میں پڑجائے امام تفسیر قرطبی نے فرمایا کہ یہ حکم مسلمانوں کے عام حالات کے لئے ہے جو خرچ کرنے کے بعد تکلیفوں سے پریشان ہو کر پچھلے خرچ کئے ہوئے پر پچھتائیں اور افسوس کریں قرآن کریم کے لفظ مَّحْسُوْرًا میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے (کما قال المظہری) اور جو لوگ اتنے بلند حوصلہ ہوں کہ بعد کی پریشانی سے نہ گھبرائیں اور اہل حقوق کے حقوق بھی ادا کرسکیں ان کے لئے یہ پابندی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی عادت یہ تھی کہ کل کے لئے کچھ ذخیرہ نہ کرتے تھے جو کچھ آیا آج ہی خرچ فرما دیتے تھے اور بسا اوقات بھوک اور فاقہ کی تکلیف بھی پیش آتی پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت بھی آجاتی تھی اور صحابہ کرام ؓ اجمعین میں بھی بہت سے ایسے حضرات ہیں جنہوں نے آنحضرت محمد ﷺ کے عہد مبارک میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا آنحضرت محمد ﷺ نے نہ اس کو منع فرمایا نہ ان کو ملامت کی اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کی ممانعت ان لوگوں کے لئے ہے جو فقر و فاقہ کی تکلیف برداشت نہ کرسکیں اور خرچ کرنے بعد ان کو حسرت ہو کہ کاش ہم خرچ نہ کرتے یہ صورت ان کے پچھلے عمل کو فاسد کر دے گی اس لئے اس سے منع فرمایا گیا۔
خرچ میں بدنظمی ممنوع ہے
اور اصل بات یہ ہے کہ اس آیت نے بدنظمی کے ساتھ خرچ کرنے کو منع کیا ہے کہ آگے آنے والے حالات سے قطع نظر کر کے جو کچھ پاس ہے اسے اسی وقت خرچ کر ڈالے کل کو دوسرے صاحب حاجت لوگ آئیں اور کوئی دینی ضرورت اہم پیش آجائے تو اب اس کے لئے قدرت نہ رہے (قرطبی) یا اہل و عیال جن کے حقوق اس کے ذمہ واجب ہیں ان کے حق ادا کرنے سے عاجز ہوجائے (مظہری) مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا کے الفاظ کے متعلق تفسیر مظہری میں ہے کہ مَلُوْم کا تعلق پہلی حالت یعنی بخل سے ہے کہ اگر ہاتھ کو بخل سے بالکل روک لے گا تو لوگ ملامت کریں گے اور محسورا کا تعلق کسی دوسری حالت سے ہے کہ خرچ کرنے میں اتنی زیادتی کرے کہ خود فقیر ہوجائے تو یہ محسورا یعنی تھکا ماندہ عاجز یا حسرت زدہ ہوجائے گا۔
Top