Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 30
اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تیرا رب يَبْسُطُ : فراخ کردیتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کا وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ : اور تنگ کردیتا ہے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں سے خَبِيْرًۢا : خبر رکھنے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
تیرا ربّ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔30
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 30 یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی بخشش میں کم و بیش کا جو فرق رکھا ہے انسان اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتا، لہٰذا تقسیم رزق کے فطری نظام میں انسان کو اپنی مصنوعی تدبیروں سے دخل انداز نہ ہونا چاہیے۔ فطری نا مساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا، یا اس نا مساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بےانصافی کی حد تک پہنچا دینا، دونوں ہی یکساں غلط ہیں۔ ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے طریق تقسیم رزق سے قریب تر ہو۔ اس فقرے میں قانون فطرت کے جس قاعدے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ نہ پاسکا کہ رزق اور وسائل رزق میں تفاوت اور تفاضل بجائے خود کوئی برائی ہے جسے مٹانا اور ایک بےطبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجے میں بھی مطلوب ہو۔ اس کے برعکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرت اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر برقرار رکھا جائے اور اوپر کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق سوسائٹی کے اخلاق واطوار اور قوانین عمل کی اس طرح اصلاح کردی جائے کہ معاش کا فرق و تفاوت کسی ظلم و بےانصافی کا موجب بننے کے بجائے ان بیشمار اخلاقی، روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالق کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے۔
Top