Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 30
اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تیرا رب يَبْسُطُ : فراخ کردیتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کا وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ : اور تنگ کردیتا ہے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں سے خَبِيْرًۢا : خبر رکھنے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
تیرا رب کھول دیتا ہے روزی جس کے واسطے چاہے اور تنگ بھی وہی کرتا ہے4 وہی ہے اپنے بندوں کو جاننے والا دیکھنے والاف 5
4 یعنی تمہارے ہاتھ روکنے سے تم غنی اور دوسرا فقیر نہیں ہوجاتا۔ نہ تمہاری سخاوت سے وہ غنی اور تم فقیر بن سکتے ہو۔ فقیر و غنی بنانا اور روزی کا کم و بیش کرنا محض خدا کے قبضہ میں ہے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ افسوس آج ہمارے پاس نہیں ہے، یہ فقیر جو امید لے کر آیا تھا کیا کہے گا۔ فقر و غنی کے مختلف احوال بھیجنا اسی مالک علی الاطلاق کے قبضہ میں ہے۔ تمہارا کام میانہ روی سے امتثال حکم کرنا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ " یعنی محتاج کو دیکھ کر بالکل بیتاب نہ ہوجا۔ اس کی حاجت روائی تیرے ذمہ نہیں۔ اللہ کے ذمہ پر ہے۔ لیکن یہ باتیں پیغمبر ﷺ کو فرمائی ہیں جو بیحد سخی واقع ہوئے تھے۔ باقی جس کے جی سے مال نہ نکل سکے اس کو پابند کیا ہے دینے کا۔ حکیم بھی گرمی والے کو سرد دوا دیتا ہے اور سردی والے کو گرم۔ " 5 یعنی ہر ایک بندے کے ظاہری و باطنی احوال و مصالح سے خبردار ہے۔ اسی کے موافق معاملہ کرتا ہے۔ حدیث قدسی میں فرمایا کہ میرے بعض بندے وہ ہیں جن کی درستی حال فقیر رہنے میں ہے۔ اگر میں اس کو غنی کردیتا تو اس کا دین تباہ ہوجاتا۔ اس کے برعکس بعض بندے ہیں جن کو غنی بنایا، اگر فقیر بنادیا جاتا تو دین پر قائم نہ رہ سکتے۔ اس کے علاوہ بعض اشقیاء کے حق میں غنائے ظاہری محض امہال و استدراج کے طور پر یا فقر و تنگدستی عقوبت اور سزا کے طریقہ سے ہے۔ (عیاذا باللہ من ہذا وہذا) ہم پہلے کئی جگہ اس کی تقریر کرچکے ہیں۔
Top