Taiseer-ul-Quran - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور کہئے کہ : حق آگیا 103 اور باطل بھاگ کھڑا ہوا اور باطل تو ہے ہی بھاگ نکلنے والا
103 فتح مکہ کی پیشگوئی :۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر بہت سے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور باقی مسلمانوں پر ان کی سختیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ ان حالات میں ایسی پیشین گوئی اور اس قسم کا اعلان قریش مکہ کے لیے ایک اضحوکہ پھبتی اور مذاق کا سامان بن گیا تھا۔ مگر اللہ کی مہربانی سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اس واقعہ کے نو سال بعد آپ فاتحانہ انداز سے بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے مگر اس وقت یہ آیت ایک واضح حقیقت بن کر قریش مکہ کے سامنے آچکی تھی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ 1۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا اور آپ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ اس سے ان بتوں کو ٹھونکا دیتے جاتے اور فرماتے جاتے ( وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81؀) 17 ۔ الإسراء :81) (بخاری۔ کتاب التفسیر) 2۔ سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب آپ نے کعبہ میں تصویریں دیکھیں تو آپ اس میں داخل نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ آپ نے ابراہیم اور اسماعیل کی تصویریں دیکھیں جن کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی تھی (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً ) 3۔ سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں سیدنا ابراہیم اور بی بی مریم کی تصویریں ہیں۔ آپ نے فرمایا : قریش کے کافروں کو کیا ہوگیا ہے وہ سن تو چکے ہیں کہ جس گھر میں مورتیں ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ یہ ابراہیم کی تصویر ہے۔ ان کو کیا ہوا بھلا وہ پانسوں سے فال لیا کرتے تھے ۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً )
Top