Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 160
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوئے وَمَاتُوْا : اور وہ مرگئے وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : کافر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلَيْهِمْ : ان پر لَعْنَةُ : لعنت اللّٰهِ : اللہ وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالنَّاسِ : اور لوگ اَجْمَعِيْنَ : تمام
جن لوگوں نے کفر کا رویہ161 اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
سورة الْبَقَرَة 161 ”کفر“ کے اصل معنی چھپانے کے ہیں۔ اسی سے انکار کا مفہُوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا، قبول کرنا، تسلیم کرلینا۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا، رد کردینا، انکار کرنا۔ قرآن کی رو سے کفر کے رویّہ کی مختلف صورتیں ہیں ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے، یا اس کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبود ماننے سے انکار کر دے، یا اسے واحد مالک اور معبود نہ مانے۔ دُوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبع علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ تیسرے یہ کہ اُصُولاً اس بات کو بھی تسلیم کرلے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے، انہیں تسلیم نہ کرے۔ چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصّبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔ پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد، اخلاق اور قوانین حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے۔ چھٹے یہ کہ نظریّے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکام الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے، اور دنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے۔ یہ سب مختلف طرز فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفران نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو، اس کے احسان کی قدر کرے، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے، اور اس کا دل اپنے محسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفران نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے محسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بےوفائی کرے۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعمُوم احسان فراموشی، نمک حرامی، غدّاری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
Top