Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 256
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ
: نہیں زبردستی
فِي
: میں
الدِّيْنِ
: دین
قَدْ تَّبَيَّنَ
: بیشک جدا ہوگئی
الرُّشْدُ
: ہدایت
مِنَ
: سے
الْغَيِّ
: گمراہی
فَمَنْ
: پس جو
يَّكْفُرْ
: نہ مانے
بِالطَّاغُوْتِ
: گمراہ کرنے والے کو
وَيُؤْمِنْ
: اور ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
فَقَدِ
: پس تحقیق
اسْتَمْسَكَ
: اس نے تھام لیا
بِالْعُرْوَةِ
: حلقہ کو
الْوُثْقٰى
: مضبوطی
لَا انْفِصَامَ
: لوٹنا نہیں
لَهَا
: اس کو
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
سَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے تو جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
لفظ ‘ طاغوت ’ کی تحقیق : طاغوت بروزن ملکوت و جبروت، طغی، کے مادہ سے ہے جس کے معنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں۔ جو چیز اپنی حد مناسب سے آگے بڑھ جائے اس کے لیے عربی میں کہیں گے“ طغی ”۔ طغی الماء، پانی حد سے آگے بڑھ گیا۔ قوم ثمود جس آفت سے ہلاک ہوئی اس کے لیے طاغیہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی حد سے بڑھ جانے والی آفت کے ہیں۔ یہیں سے یہ لفظ حدود عبدیت و بندگی سے نکل جانے کے لیے استعمال ہوا اور جو حدود بندگی سے نکل جائے اس کو طاغوت کہنے لگے۔ پھر وسعت اختیار کر کے یہ لفظ ان چیوں پر بھی حاوی ہوگیا جو حدود بندگی سے نکل جانے کا باعث یا ذریعہ بنیں۔ اہل لغت اسی وجہ سے اس کی تشریح عام طور پر یوں کرتے ہیں کہ الطاغوت عبارۃ عن کل معتد و کل معبود من دون اللہ : طاغوت سے مراد ہر وہ وجود ہے جو بندگی سے نکل جائے اور ہر وہ معبود ہے جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے۔ قرآن نے اس لفظ کو مختلف مقامات میں استعمال کیا ہے اور ہر جگہ اس کے مقابل کا ذکر کر کے اس کے مختلف مفہوموں پر روشنی ڈال دی ہے۔ مثلاً زیر بحث آیت میں ہے فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ یہاں اللہ کے تقابل سے واضح ہے کہ طاغوت سے مراد ماسوا اللہ ہے۔ سورة نحل میں ہے ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت۔ یہاں بھی اللہ کے سوا دوسرے معبودان باطل مراد ہیں۔ سورة نسا میں ہے الذین امنوا یقاتلون فی سبیل اللہ والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت، اس کے معاً فرما فقاتلوا اولیاء الشیطان جس سے متعین ہوگیا کہ طاغوت سے مراد شیطان ہے اور شیطان کا لفظ شیاطین انس اور شیاطین جن دونوں کو شامل ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام میں اس لفظ کو کتاب الٰہی اور طریقہ رسول کے مخالف طریقہ کے لیے استعمال فرمایا ہے۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالا بَعِيدًا (60) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا (61) ، اس آیت میں يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ کے بالمقابل تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ کہہ کر یہ واضح کردیا کہ طاغوت سے یہاں مراد وہ چیزیں ہیں جو کتاب الٰہی اور سنت رسول کے خلاف ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جو خدا کی بندگی و اطاعت سے نکل جائے یا نکل جانے کا باعث اور ذریعہ ہو، وہ سب اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہے۔ لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کا مفہوم : اوپر آیت وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَيِّنٰتُ الایۃ میں نبی ﷺ کی تسلی کے لیے جس سنت اللہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا یہ اس کی مزید وضاحت فرما دی کہ ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اللہ کے رسول کی اصل ذمہ داری صف حق کو واضح طور پر پہنچا دینا ہے اور جب یہ کام ہوچکا، حق باطل سے بالکل الگ ہو کر سامنے آگیا، تو رسول کی جو ذمہ داری ہے وہ پوری ہوچکی۔ اب ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جن پر حجت تمام ہوچکی ہے۔ وہ چاہیں تو ایمان لائیں اور چاہیں تو کفر کی روش پر اڑے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں جبرِ فطری کی راہ نہیں اختیار فرمائی ہے بلکہ لوگوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی بخشی ہے۔ اگر وہ چاہتا تو ساری دنیا کو نیکی کی ڈگر پر ہانک دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اس نے لوگوں کو آزادی دی ہے جو لوگ ایمان لائیں گے وہ اس کا صلہ پائیں گے جو کفر کی راہ اختیار کریں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے مثلا، وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَحْنُ وَلا آبَاؤُنَا وَلا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلا الْبَلاغُ الْمُبِينُ (35) وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ فَسِيرُوا فِي الأرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (36)إِنْ تَحْرِصْ عَلَى هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (37): اور یہ مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی کو نہ پوجتے، نہ ہم نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہرا سکتے۔ ایسا ہی سوال اٹھایا ان لوگوں نے بھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں تو کیا رسولوں پر واضح طور پر پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری بھی ہے ؟ ہم نے تو ہر امت میں ایک رسول اٹھایا اس دعوت کے ساتھ کہ لوگو، اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو، تو ان میں سے کچھ ایسے ہوئے جن کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کچھ ایسے ہوئے جو گمراہی کے سزا وار ٹھہرے۔ تو ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ رسولوں کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ اگر تم ان لوگوں کی ہدایت کے حریص ہو تو یاد رکھو کہ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دینے والا نہیں ہے جن کو گمراہی کا سزا وار ٹھہرا چکا اور ان کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔ (نحل :35-37)۔ یہ جبرِ فطری کی نفی ہے، جبر قانونی کی نہیں : قرآن مجید میں یہ مضمون مختلف اسلوبوں سے مختلف مقامات میں بیان ہوا ہے۔ ہم نے طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک آیت کے نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے ٹکڑے میں جس جبر واکراہ کی نفی کی گئی ہے اس سے مقصود جبر فطری کی نفی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں یہ طریقہ نہیں اختیار فرمایا ہے کہ وہ اپنی مشیت وقدرت کے زور سے لوگوں کو ہدایت پر چلا دے یا گمراہی کی طرف ہانک دے۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتا تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا تو نہیں تھا لیکن یہ بات اس کی حکمت اور اس کے عدل کے خلاف ہوتی۔ اس نے اس کے برعکس یہ طریقہ اختیار فرمایا ہے کہ اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے حق اور باطل دونوں کو اچھی طرح واضح کردیتا ہے، پھر جو لوگ حق کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کو راہ حق اختیار کرنے کی توفیق ارزانی کرتا ہے اور جو لوگ باطل کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کو اس کے لیے ڈھیل دے دیتا ہے۔ مقصود اس حقیقت کے واضح کرنے سے ایک تو ان کفار و مشرکین کو جواب دینا تھا جو اس جبر کی آڑ لے کر اپنے کفر و شرک کو ثواب ٹھہرانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ان کا عقیدہ و عمل باطل ہے تو خدا کے اختیار میں تو سب کچھ ہے، وہ اپنی قدرت کاملہ سے کام لے کر ان کو ٹھیک کیوں نہیں کردیتا۔ دوسرے، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، پیغمبر ﷺ پر واضح کرنا تھا کہ بحیثیت نبی اور رسول کے ان کی ذمہ داری صرف دین حق کو اچھی طرح واضح کردینا ہے۔ یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگ لازماً ایمان و ہدایت کی راہ اختیار بھی کرلیں۔ اس زمانے میں بعض کم سواد اس آیت کو اس کے اس مفہوم سے ہٹا کر جبر قانونی کی نفی کے معنی میں لیتے ہیں اور اس سے یہ دلیل لاتے ہیں کہ چونکہ اسلام میں اکراہ نہیں ہے اس وجہ سے اسلام کے نام سے فلاں اور فلاں باتوں کو جو مستوجب سزا قرار دیا جاتا ہے یہ محض مولویوں کی من گھڑت باتیں ہیں، اسلام سے ان کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس گروہ کے اس استدلال کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلامی ریعت حدود و تعزیرات سے ایک بالکل خالی شریعت ہے جس میں ہر شخص کو سب کچھ کر گزرنے کی چھوٹ حاصل ہے۔ نہ زنا، تہمت اور چوری پر کوئی سزا ہے۔ نہ ڈکیتی، رہزنی، فساد فی الارض اور بغوت پر کوئی تعزیر، حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اسلام میں حدود و تعزیرات کا ایک پورا نظام ہے جس کا نفاذ واجباتِ دین میں سے ہے۔ اگر ایک شخص نماز نہ پڑھے یا روزے نہ رکھے تو اسلامی حکوتم اس کو بھی سزا دے سکتی ہے یہ چیز لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے منافی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان اسلام کے خلاف بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے بھی اسلامی قانون میں سزا ہے۔ یہ چیز بھی لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے خلاف نہیں ہے۔ فتنہ و فساد کو خدا کی زمین سے مٹانے کے لیے اسلام نے اہل ایمان پر جہاد بھی واجب کیا ہے، یہ چیز بھی لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے منافی نہیں ہے۔ اس امر میں شبہ نہیں ہے کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ ایک شخص اسلام کے دائرے میں داخل ہوجانے کے بعد بھی جو اس کے جی میں آئے کرتا پھر اور اس پر کوئی گرفت نہ ہو بلکہ وہ اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اسلام کے حدود وقیود کی پابندی کرے۔ لادینی نظاموں میں مذہب کو نجی زندگی سے متعلق مانا جاتا ہے اس وجہ سے ان میں حکومت کی نافرمانیوں پر تو سزائیں اور تعزیرات ہیں لیکن خدا سے بغاوت کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اسلام میں مذہب کے پرائیویٹ زندگی سے مخصوص ہونے کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت اصلاً خدا ہی کی حکومت ہوتی ہے اور ریاست کا سیاسی ادارہ صرف خدا کے احکام و قوانین کے اجرا ونفاذ کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اس وجہ سے اس میں خدا کی ہر نافرمانی قابل گرفت ہوتی ہے۔ خواہ وہ نافرمانی مخفی ہو یا ظاہر۔ فرق ہے تو یہ ہے کہ مخفی نافرمانیوں پر خدا کی اخروی عدالت گرفت کرے گی اور ظاہری نافرمانیوں پر اسلام کی دنیوی عدالتیں گرفت کرنے اور ان پر سزا دینے کی مجاز ہیں۔ ارتداد بھی اسی زمرے کا ایک جرم بلکہ بہت بڑا جر ہے اور اس پر جو سزا ایک اسلام نظام میں دی جاتی ہے وہ اس بات پر نہیں دی جاتی کہ ایک شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے بلکہ اس بات پر دی جاتی ہے کہ اس نے خدا کی حکومت اور اس کے قانون کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔ اسی طرح اس امر سے ہمیں انکار نہیں ہے کہ مجرد کسی قوم کے اندر کفر کا وجود اس امر کے لیے کافی وجہ نہیں کہ اسلام کے علمبردار ان کے خلاف جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور تلوار کے زور سے ان کو اسلام پر مجبور کردیں۔ کافر قوموں کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق لازماً ہر شکل میں معاندانہ ہی نہیں بلکہ مصالحانہ بھی ہوسکتا ہے۔ جہاد اصلاً فتنہ اور فساد فی الارض کے مٹانے کے لیے شروع ہوا ہے اگر یہ چیز کہیں پائی جاتی ہے تو اہل ایمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ استطاعت رکھتے ہوں تو اس فتنہ اور فساد فی الارض کو مٹانے کے لیے جہاد کریں، خاص طور پر اس فتنہ کو مٹانے کے لیے جو اہل کفر کے ہاتھوں اس لیے برپا کیا جائے کہ اہل ایمان کو ان کے دین سے پھیرا جائے یا اسلامی نظام کو برباد کیا جائے۔ اس فتنے کے استیصال کے لیے بعد اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے بلکہ اس نے اپنے نظام میں اس بات کی پوری گنجائش رکھی ہے کہ اہل کفر اپنے کفر پر قائم رہتے وہئے اسلامی حکومت کی رعایا رہ سکتے ہیں۔ اور ان کے حقوق کی حفاظت اسلامی حکومت کے فرائض میں داخل ہے۔ صرف مشکرین بنی اسماعیل کا معاملہ اس کلّیہ سے ایک استثنا کی نوعیت رکھتا ہے۔ اس کے وجوہ تفصیل کے ساتھ اسی سورة کی آیات 192-193 کے تحت بیان کرچکے ہیں اور مزید وضاحت کے ساتھ اس پر ہم انشاء اللہ سورة براءت کی تفسیر میں بحث کریں گے۔ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے) یہ مذکورہ اکراہ کی نفی کی وجہ بیان ہوئی ہے کہ خدا کی طرف سے اتمام حجت کے لیے یہ کافی ہے کہ اس نے اپنے نبی کے ذریعے سے حق و باطل کو الگ الگ کردیا۔ اس کے بعد اب ذمہ داری لوگوں کی اپنی ہے۔ جس کا جی چاہے حق کو اختیار کرے اور جس کا جی چاہے باطل کے ساتھ چمٹا رہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو لوگ اس وضاحت کے بعد بھی باطل سے چمٹے رہیں گے تو ایک دن آئے کہ خود یہ باطل ان کا ساتھ چھوڑ دے گا۔ نہ ٹوٹنے والی رسی صرف ان کے ہاتھ میں ہوگی جو آج غیر اللہ سے منہ موڑ کر اللہ کی طرف یکسو ہوجائیں۔ آخر میں سمیع وعلیم کی صفت کا حوالہ اس حقیقت کو واجح کر رہا ہے کہ جو لوگ غیر اللہ کو چھوڑ کر اللہ ہی رسی پکڑتے ہیں وہ ایک ایسے کا دامن پکڑتے ہیں جو سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے اس وجہ سے وہ ہر قدم پر اور ہر مرحلے میں ان کا ملجا و ماوی ہے۔ برعکس اس کے جو غیر اللہ کی پرستش کر رہے ہیں وہ ایسوں کے سہارے پر جی رہے ہیں جنہیں ان کے آغاز و انجام کا تو درکنار خود اپنے آغاز و انجام کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ یہاں تک کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کچھ نادان لوگ ان کی پرستش کر رہے ہیں۔ چناچہ وہ اپنی اس بیخبر ی کا اظہار آخرت میں کریں گے اور اپنے ان پرستاروں پر لعنت بھیجیں گے۔ اگلی آیات 257-260 کا مضمون : لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ الایہ، میں ہدایت و ضلالت سے متعلق جس سنت اللہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے آگے کی چند آیات میں اس کی مزید وضاحت فرما دی ہے پھر کلام اصل سلسلہ بیان یعنی انفاق سے جڑ گیا ہے۔ یہ وضاحت تین واقعاتی مثالوں کے ذریعے سے کی گئی ہے۔ اس لیے کہ حقائق جب تک مثالوں سے نہ واضح کیے جائیں اس وقت تک وہ اچھی طرح ذہن نشین نہیں ہوتے۔ قرآن مجید کا عام اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ پہلے ہر مسئلے سے متعلق عقلی و فطری دلائل پیش کرتا ہے۔ پھر تاریخی اور واقعاتی مثالوں سے اس کو مددل اور دل نشین بناتا ہے چناچہ یہاں بھی یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔ ہدایت و ضلالت سے متعلق اصل قانونِ الٰہی اصولی شکل میں پیش کرنے کے بعد تین مثالیں پیش کی ہیں جن میں سے ایک سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح کے لوگ ہیں جو شیطان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور جن کو گمراہی سے نکل کر ہدایت کی طرف آنا نصیب نہیں ہوتا اور دو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح کے لوگ ہوتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ دستگیری فرماتا ہے اور ان کو ہر قسم کی الجھنوں سے نکال کر ایمان و یقین کی روشنی اور شرح صدر کی طمانیت بخشتا ہے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے :
Top