Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 256
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ : نہیں زبردستی فِي : میں الدِّيْنِ : دین قَدْ تَّبَيَّنَ : بیشک جدا ہوگئی الرُّشْدُ : ہدایت مِنَ : سے الْغَيِّ : گمراہی فَمَنْ : پس جو يَّكْفُرْ : نہ مانے بِالطَّاغُوْتِ : گمراہ کرنے والے کو وَيُؤْمِنْ : اور ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَقَدِ : پس تحقیق اسْتَمْسَكَ : اس نے تھام لیا بِالْعُرْوَةِ : حلقہ کو الْوُثْقٰى : مضبوطی لَا انْفِصَامَ : لوٹنا نہیں لَهَا : اس کو وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
نہیں ہے زبردستی دین میں، ظاہر ہوچکی ہے ہدایت گمراہی سے ممتاز ہو کر، سو جو شخص منکر ہو طاغوت کا اور ایمان لائے اللہ پر تو بیشک اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا۔ جو ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
دین میں زبردستی نہیں ہے لباب النقول میں اس آیت کا سبب بتاتے ہوئے بحوالہ ابو داؤد و نسائی و ابن حبان، حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ زمانہء اسلام سے پہلے جس عورت کا بچہ مرجاتا تھا وہ یہ نذر مان لیتی تھی کہ اگر میرا بچہ زندہ رہا تو اسے یہودی بنا دوں گی (العیاذ اللہ) جب یہود کا قبیلہ بنونضیر مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا گیا تو ان میں انصار کے قبیلوں کے وہ لڑکے بھی تھے جو دین یہودیت پر تھے۔ یہودی مدینہ منورہ سے جانے لگے تو ان لڑکوں کے خاندان والوں نے کہا کہ ہم ان کو نہیں جانے دیں گے۔ اس پر اللہ نے آیت کریمہ (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ) نازل فرمائی۔ نیز لباب النقول میں بحوالہ ابن جریر حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ آیت کریمہ (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ) ایک انصاری کے بارے میں نازل ہوئی جو قبیلہ بنی سالم میں سے تھے اور جن کا نام حصین تھا۔ ان کے دو بیٹے نصرانی تھے اور وہ خود اسلام قبول کرچکے تھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یہ دونوں نصرانیت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں، کیا میں ان پر زبردستی نہ کروں (تاکہ وہ دونوں مسلمان ہوجائیں) اس پر اللہ جل شانہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت شریفہ میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ دین میں زبردستی نہیں ہے، اگر کوئی شخص دین اسلام قبول نہیں کرتا تو اس پر زبردستی نہیں کی جائے گی کہ تو اسلام قبول کرلے ورنہ تجھے قتل کردیں گے، شاید حکم جہاد کی وجہ سے کسی کو اس کا وہم اور وسوسہ ہو کہ زبردستی نہیں ہے تو جہاد کیوں شروع کیا گیا جن لوگوں کو جہاد کی حقیقت معلوم ہے وہ جانتے ہیں کہ جہاد کا قانون یہ ہے کہ جب کافروں کی کسی جماعت سے مقابلہ ہو تو اول ان کو اسلام کی دعوت دی جائے اور یہ دعوت ان کو آخرت کے عذاب سے بچانے کے لیے ہے اگر وہ اسلام قبول کرنے پر راضی ہوں تو ان سے کہا جائے گا کہ تم جزیہ دو ، جب وہ جزیہ دینے لگیں گے تو ان کا دارالاسلام اور اہل اسلام سے ایک خاص تعلق پیدا ہوجائے گا جس سے آپس میں ملنا جلنا ہوگا۔ اہل کفر اسلام سے قریب ہوں گے اس کے سمجھنے کے مواقع فراہم ہوں گے۔ اللہ کی کتاب ان کے کانوں میں پڑے گی۔ اسلام کی سچائی کے دلائل واضحہ ان کے سامنے آئیں گے۔ اور اہل ایمان کے اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ دیکھیں گے تو اقرب ہے کہ کفر سے باز آجائیں اور اسلام قبول کرلیں، اگر اسلام کے دلائل واضحہ سامنے آنے کے بعد بھی کوئی شخص اسلام کو قبول نہیں کرتا تو اس کی حماقت ہے کہ کفر پر جمنے ہی کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسلام کے عہد اول سے لے کر آج تک مسلمان ممالک میں کروڑوں کافروں نے زندگی گزاری ہے کسی امیر یا خلیفہ یا بادشاہ نے انہیں اسلام پر مجبور نہیں کیا، اور جن قوموں نے اسلام قبول کیا وہ اہل اللہ کی محنتوں و کوششوں سے اسلام کے آغوش میں آئی ہیں، کسی نے سر پر تلوار رکھ کر یا سینہ پر بندوق رکھ کر کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ فقہاء نے واضح طور پر لکھا ہے کہ میدان جہاد میں عورتوں، بوڑھوں، اپاہجوں، اور گرجوں میں رہنے والوں کو قتل نہ کیا جائے، حالانکہ ان لوگوں کو تلوار کے ذریعہ بہ آسانی اسلام میں داخل کیا جاسکتا ہے۔ تفسیر درمنثور ص 320 ج 1 میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک نصرانی بڑھیا کو اسلام کی دعوت دی اور فرمایا (اَسْلِمِیْ تَسْلَمِیْ ) (یعنی تو اسلام قبول کرلے۔ عذاب سے بچ جائے گی) اس نے انکار کیا تو حضرت عمر ؓ نے اللہ پاک کے حضور میں عرض کیا اللّٰھم اشھد (کہ اے اللہ آپ گواہ رہیں میں نے دعوت دے دی ہے) اس کے بعد انہوں نے یہی آیت (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ) تلاوت کی ...... البتہ اتنی بات ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ کفر خالق ومالک کی سب سے بڑی بغاوت ہے۔ باغی کی سزا تو سب کو معلوم ہی ہے۔ ان باغیوں کی بہت بڑی اور سب سے بڑی دائمی سزا تو ان کو آخرت میں ہوگی لیکن دنیا میں بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کی سرکوبی ہوتی رہے۔ اور کفر کا اثر جس قدر بھی کم ہو اچھا ہے اگر جہاد و قتال نہ ہو تو کافر اہل ایمان پر چڑھ جائیں گے اور اہل ایمان تھوڑے رہ جائیں اور ان کا جینا دو بھر ہوجائے گا۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ اگر جزیہ بھی دینا منظور نہیں کرتے تو ان سے قتال کیا جائے، اور یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ کفر جو خداوند تعالیٰ کی بغاوت ہے اس کی سزا میں قتل کردینا اور بات ہے (اور جو لوگ باغیوں کا قانون جانتے ہیں وہ اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرسکتے) اور سر پر تلوار رکھ کر یہ کہنا کہ اسلام قبول کر ورنہ قتل کردیں گے یہ دوسری بات ہے اس دوسری بات کو اکراہ کہا جاتا ہے اور جہاد کے موقعہ پر اکراہ نہیں کیا جاتا اور یہ بات بھی ہے کہ ایمان قبول کرنے پر زبردستی کا کوئی فائدہ ہے بھی نہیں کیونکہ اگر کوئی شخص جبر واکراہ کی وجہ سے ظاہری طور پر اسلام قبول کر بھی لے اور دل سے مسلمان نہ ہو تو نہ تو اس کے حق میں مفید فی الآخرۃ ہوگا اور نہ جھوٹی زبان سے اسلام قبول کرنے والے سے مسلمانوں کو کوئی نفع پہنچے گا۔ جیسا کہ منافقین ظاہر میں مسلمان تھے اور اندر سے کافر تھے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہتے تھے۔ اسلام کی حقانیت اور اس کی سچائی کے دلائل روز روشن کی طرح واضح ہیں دنیا بھر کی زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ چھپ چکا ہے گھر گھر اسلام کا کلمہ پہنچ چکا ہے۔ آلات جدیدہ نے دنیا کے ہر گوشہ میں اسلام کی دعوت پہنچا دی ہے اس کو حق جانتے ہوئے بھی جو لوگ اس کو قبول نہیں کرتے، وہ اپنے کو عذاب میں دھکیلنے کے خود ذمہ دار ہیں۔ ہدایت ظاہر ہوچکی ہے، گمراہی کو لوگ سمجھ چکے ہیں، دونوں میں کوئی التباس و اشتباہ نہیں ہے اب اگر کوئی شخص ہدایت قبول نہیں کرتا اور جانتا ہے کہ یہ ہدایت ہے، دنیاوی مصلحتوں نے جائیدادوں کے خیال نے رشتہ داریوں کے فکر نے عہدوں کے چھن جانے کے خوف نے ہدایت قبول کرنے سے روک رکھا ہے اور چند روزہ دنیاوی زندگی کے منافع و مصالح کی وجہ سے آخرت کے دائمی عذاب کے لیے تیار ہے اور اس طرح اپنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے، تو اس کا علاج ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ ہداھم اللہ تعالیٰ ۔ لفظ طاغوت لام واوی ہے جس کا ماضی مضارع طغٰی یطغٰی ہے یہ لفظ سرکشی کے معنی پر دلالت کرتا ہے اہل لغت کا فرمانا ہے کہ اس میں قلب مکانی ہوا ہے اصل کلمہ طغو وت ہے۔ لام کلمہ کو مقدم کردیا گیا اور عین کلمہ کو مؤخر کردیا گیا، پھر حرف علت کو الف سے بدل دیا گیا، یہ تو لفظی تحقیق ہوئی معنوی اعتبار سے اس میں متعدد اقوال ہیں۔ حضرت عمر اور حسین بن علی ؓ نے فرمایا کہ اس سے شیطان مراد ہے، مجاہد اور قتادہ کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا کہ کل ما عبد من دون اللّٰہ فھو طاغوت۔ (یعنی اللہ کے سوا جس کسی کی بھی عبادت کی گئی وہ طاغوت ہے) اور بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے اصنام یعنی بت مراد ہیں، یہ سب اقوال لکھنے کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ص 13 ج 3 و الأولیٰ أن یقال بعمومہ (یعنی اس کا عمومی معنی مراد لینا زیادہ بہتر ہے) اور اس کے مفہوم میں وہ سب معانی داخل ہیں جو اوپر بیان ہوئے، درحقیقت شیطان اور اس کی مددگار تمام طاغوتی طاقتیں انسان کو اسلام سے روکتی ہیں۔ جس کسی نے بھی ان طاقتوں کو نہ گردانا اور ان سے رشتہ توڑا اور ان سب سے منہ موڑا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے بہت مضبوط حلقہ اور بڑی قوت والا کڑا پکڑ لیا، یہ کڑا ایسا ہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں جس نے اللہ تعالیٰ کو مان لیا اور اس کے دین کو تسلیم کرلیا اور اس کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لے آیا اس نے سب سے بڑی طاقت کا سہارا لے لیا اور یقین کی دولت سے مالا مال ہوگیا نہ اس قوت کو شکستگی ہے نہ زوال ہے، آخر میں فرمایا کہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے، وہ سب کے اقوال کو سنتا ہے۔ سب کے اعمال کو جانتا ہے جو صرف زبان سے مسلمان ہو اسے اس کا بھی علم ہے اور جس نے جھوٹی زبان سے کلمہ پڑھا وہ اس سے بھی باخبر ہے۔ صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں اسلام کو مضبوط پکڑنے والا چونکہ ہلاکت اور خسر ان سے محفوظ رہتا ہے اس لیے اس کو ایسے شخص سے تشبیہ دی جو کسی مضبوط رسی کا حلقہ ہاتھ میں مضبوط تھام کر گرنے سے مامون ہوجائے اور جس طرح ایسی رسی کے ٹوٹ کر گرنے کا خطرہ نہیں (اور یوں کوئی رسی ہی چھوڑ دے تو اور بات ہے) اسی طرح اسلام میں بطلان کا احتمال نہیں جو مفضی الی الھلاک ہو، اور خود کوئی اسلام ہی کو چھوڑ دے وہ اور بات ہے، اور مقصود آیت کا اسلام کی خوبی کا واضح و ثابت بالدلیل ہونا ہے جس کو اس عنوان خاص سے بیان فرمایا گیا۔
Top