Aasan Quran - Al-Furqaan : 47
اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ۬ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓئُهُمُ الطَّاغُوْتُ١ۙ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ وَلِيُّ : مددگار الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے يُخْرِجُهُمْ : وہ انہیں نکالتا ہے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیروں (جمع) اِلَى : طرف النُّوْرِ : روشنی وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْٓا : کافر ہوئے اَوْلِيٰٓئُھُمُ : ان کے ساتھی الطَّاغُوْتُ : گمراہ کرنے والے يُخْرِجُوْنَھُمْ : وہ انہیں نکالتے ہیں مِّنَ : سے النُّوْرِ : روشنی اِلَى : طرف الظُّلُمٰتِ : اندھیرے (جمع) اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخی ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اللہ ان لوگوں کا کارساز ہے جو ایمان لاتے ہیں۔ وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے کارساز طاغوت بناتے ہیں، وہ ان کو روشنی سے تاریکیوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ یہی لوگ دوزخی ہیں ہیں، یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
ولی کے معنی مددگار، کارساز، ساتھی اور حمایتی کے ہیں۔ نور سے مراد یہاں عقلی، ایمانی، عملی اور اخلاق روشنی ہے۔ اسی طرح ظلمات سے یہاں مراد عقلی و اخلاقی ظلمات ہیں۔ چونکہ حق کی روشنی کا منبع ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ ، نیز حق میں اتنشار نہیں بلکہ وحدت پائی جاتی ہے اس وجہ سے یہ لفظ واحد استعمال ہوا۔ برعکس اس کے ظلمات جمع استعمال ہوا اس لیے کہ اس کے ظہور میں آنے کے راستے میں مختلف ہیں اور اس کے مزاج میں انتشار و اختلاف بھی ہے۔ لفظ“ طاغوت ”کی تحقیق اوپر گزر چکی ہے۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں اصلی نکتہ : مطلب یہ ہے کہ ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اصل اہمیت رکھنے والی شے یہ ہے کہ بندہ اپنے راب کا دامن پکڑتا ہے یا کسی غیر کا۔ اگر خدا دامن پکڑتا ہے تو خدا اپنے بندے کا کارساز و مددگار بن جاتا ہے اور اپنی توفیق بخشی سے درجہ بدرجہ اسے نفس و شہوات کی تمام تاریکیوں اور کفر، شرک اور نفاق کی تمام ظلمات سے نکال کر ایمان کامل و توحید خالص کی شاہراہ پر لا کھڑا کرتا ہے اور اگر بندہ اپنے رب سے منہ موڑ کر کسی اور راہ پر جا نکلتا ہے تو پھر وہ شیطان اور اس کی ذریات کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور وہ اس کی نکیل اپنے ہاتھ میں لے کر عقل و فطرت کی ہر روشنی سے دور کر کے اس کو ضلالت کے کھڈ میں گرا دیتے ہی۔ مشہور مثل ہے“ خانہ خالی را دیو میگیرد ”جس گھر میں آدمی نہیں رہتا وہ شیطان کا مسکن بن جاتا ہے۔ اسی طرح جو دل ایمان سے خالی ہوتا ہے وہ شیطان کا اڈا بن جاتا ہے۔ اور پھر شیاطین ایسے شخص کو گمراہی کی وادیوں میں سرگشتہ و حیران رکھتے ہیں۔ سورة انعام میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے قُلْ أَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لا يَنْفَعُنَا وَلا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الأرْضِ حَيْرَانَ : کہہ دو کیا ہم اللہ کے سوا ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع پہنچاتے نہ نقصان اور اللہ کی ہدایت بخشی کے بعد پھر پیٹھے پیچھے پلٹا دیے جائیں، اس شخص کے مانند جس کو شیاطین نے بہکا کر کسی صحرا میں سرگشتہ و حیران چھوڑ دیا ہو، اعراف میں بھی اس کا ذکر ہے وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ : اور ان کو اسکا ماجرا سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیتوں سے نوازا تو وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان اس کے پیچھے لگ گیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گمراہوں میں سے بن گیا (اعراف :175)۔ یہی بات سورة زخر میں بھی ارشاد ہوئی ہے وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ : جو لوگ اللہ کے ذکر سے بےپروا ہوجاتے ہیں، ہم ان پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ ان کا ساتھی بن جاتا ہے (زخرف :36)
Top