Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 65
فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ اتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّ امْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ
فَاَسْرِ : پس لے نکلیں آپ بِاَهْلِكَ : اپنے گھر والوں کو بِقِطْعٍ : ایک حصہ مِّنَ : سے الَّيْلِ : رات وَاتَّبِعْ : اور خود چلیں اَدْبَارَهُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہ يَلْتَفِتْ : پیچھے مڑ کر دیکھے مِنْكُمْ : تم میں سے اَحَدٌ : کوئی وَّامْضُوْا : اور چلے جاؤ حَيْثُ : جیسے تُؤْمَرُوْنَ : تمہیں حکم دیا گیا
تو تم راتوں رات اپنے اہل و عیال کے ساتھ یہاں سے نکل جاؤ اور تم ان کے پیچھے پیچھے چلیو اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کے بھی نہ دیکھے اور وہیں جاؤ جہاں کے لیے تمہیں حکم ہے
فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ وَامْضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ (65)۔ یہ وہ ہدایات ہیں جو فرشتوں نے حضرت لوط ؑ کو اس موقع پر دیں۔ پہلی ہدایت یہ تھی کہ راتوں رات یہاں سے اپنے اہل و عیال سمیت نکل کر وہاں سے چلے جائیے جہاں کے لیے آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اس ہدایت کی وجہ، جیسا کہ آگے تصریح آرہی ہے، یہ تھی کہ صبح کو اس بستی پر عذاب الٰہی آ دھمکنے والا تھا۔ دوسری ہدایت یہ تھی کہ آپ ان سب کے پیچھے پیچھے چلیے جس طرح راعی اپنے گلے کے پیچھے چلتا ہے کہ کوئی بھیڑ ریوڑ سے الگ رہ کر بھیڑیے کا شکار نہ ہوجائے۔ تیسری ہدایت یہ تھی کہ بستی سے نکلنے کے بعد تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کے بھی نہ دیکھے۔ کسی جگہ سے نکلتے ہوئے اس کی طرف مڑ مڑ کے دیکھنا اس بات کی علامت ہے کہ اس کے ساتھ انس اور لگاؤ ہے۔ یہ انس اور لگاؤ عام حالات میں تو ایک فطری چیز ہے اور ایک فطری تقاضے کو روکا یا دبایا نہیں جاسکتا لیکن جس بستی کے لیے اتمام حجت کے بعد عذاب الٰہی کا فیصلہ ہوچکا ہو اس سے نکلتے وقت اہل ایمان کو اس طرح دامن جھاڑ کے اٹھنا چاہیے کہ اس کے ساتھ دل کے لگاؤ کا کوئی شائبہ بھی باقی نہ رہ جائے۔ آنحضرت ﷺ کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ جب کبھی آپ کو معذب قوموں کی بستیوں پر سے گزرنے کا اتفاق پیش آتا تو آپ وہاں سے تیزی سے گزر جاتے اور دوسروں کو بھی اسی کی ہدایت فرماتے۔
Top