Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 65
فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ اتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّ امْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ
فَاَسْرِ : پس لے نکلیں آپ بِاَهْلِكَ : اپنے گھر والوں کو بِقِطْعٍ : ایک حصہ مِّنَ : سے الَّيْلِ : رات وَاتَّبِعْ : اور خود چلیں اَدْبَارَهُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہ يَلْتَفِتْ : پیچھے مڑ کر دیکھے مِنْكُمْ : تم میں سے اَحَدٌ : کوئی وَّامْضُوْا : اور چلے جاؤ حَيْثُ : جیسے تُؤْمَرُوْنَ : تمہیں حکم دیا گیا
تو آپ کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے نکلیں اور خود ان کے پیچھے چلیں اور اور آپ میں سے کوئی شخص مڑ کر نہ دیکھے۔ اور جہاں آپ کو حکم ہو وہاں چلے جایئے
فاسر باھلک بقطع من الیل واتبع ادبارھم ولا یلتفت منکم احد سو آپ رات کے کسی حصے میں (یہاں سے) چلے جانا اور آپ ان سب کے پیچھے پیچھے رہنا اور نہ دیکھے پیچھے مڑ کر تم میں سے کوئی۔ قِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ پارۂ شب۔ بعض نے کہا : آخر شب۔ سب کے پیچھے چلنے سے یہ مراد ہے کہ تم ان کو اپنے آگے آگے تیزی سے نکال لے جاؤ اور ان کے احوال پر مطلع رہو۔ پیچھے پھر کر دیکھنے کی ممانعت اسلئے کی کہ ہولناک عذاب کا منظر ان سے دیکھا نہ جائے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر ان کے دلوں میں نرمی اور رقت پیدا ہوجائے اور اس قلبی ہمدردی کی پاداش میں ان پر بھی وہی عذاب آجائے۔ یا لاَ یَلْتَفِتْ کا مطلب یہ ہے کہ تم میں کوئی کسی کام کیلئے ساتھ جانے سے رہ نہ جائے ورنہ وہ بھی ہمہ گیر عذاب میں مبتلا ہوجائے گا۔ بعض نے کہا : التفات کی ممانعت اسلئے کی گئی کہ دل کے جماؤ کے ساتھ وہ ترک وطن کرسکیں (وطن اور احباب و اقارب کی طرف ان کی رغبت خاطر ہی پیدا ہو پائے) بعض علماء کے نزدیک عدم التفات سے مراد لفظی ترجمہ نہیں بلکہ کنائی معنی مراد ہیں ‘ یعنی سرپٹ نکل جاؤ ‘ سستی نہ کرو ‘ کہیں دم نہ لو ‘ تیزی کے ساتھ بھاگے چلے جاؤ۔ التفات (رخ کرنے والے کو ادنیٰ وقفہ ‘ اتنا وقفہ کہ منہ موڑ کر دیکھ لے) کرنا ہی پڑتا ہے۔ گویا عدم التفات سے مراد ہے : وقفہ نہ کرنا ‘ دم نہ لینا ‘ تیزی کے ساتھ بھاگتے چلا جانا۔ وامضوا حیث تؤمرون اور جہاں جانے کا (ا اللہ کی طرف سے) تم کو حکم دیا جا رہا ہے ‘ وہاں چلے جاؤ۔ یعنی شام کو چلے جاؤ۔ حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے۔ مقاتل کے نزدیک زعر مراد ہے۔ بعض نے اردن کہا ہے۔
Top